أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَـقَدۡ نَـعۡلَمُ اَنَّهُمۡ يَقُوۡلُوۡنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ‌ؕ لِسَانُ الَّذِىۡ يُلۡحِدُوۡنَ اِلَيۡهِ اَعۡجَمِىٌّ وَّهٰذَا لِسَانٌ عَرَبِىٌّ مُّبِيۡنٌ ۞

ترجمہ:

اور ہم جانتے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول) کو ایک آدمی سکھا کرجاتا ہے، وہ جس کی طرف سکھانے کو منسوب کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ قرآن تو بہت واضح عربی زبان ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم جانتے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول) کو ایک آدمی سکھا کرجاتا ہے، وہ جس کی طرف سکھانے کو منسوب کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ قرآن تو بہت واضح عربی زبان ہے۔ (النحل : ١٠٣)

الحاد اور عجم کا معنی :

اس آیت میں دو لفظ ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے، ایک یلحدون ہے اس کا مادہ لحد ہے اور دوسرا اعجمی ہے اس کا مادہ عجم ہے۔

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی لکھتے ہیں :

لحد اس گڑھے کو کہتے ہیں جو درمیان سے ایک جانب کی طرف جھکا ہوا ہو، گڑھا کھود کر اس کی ایک جانب میں ایک اور گڑھا کھود لیا جائے تو اس کو بھی لحد اور بغلی قبر کہتے ہیں الحاد کہتے ہیں حق ور صداقت سے نکل کر دوسری جانب میلان کرنا۔ الحاد کی دو قسمیں ہیں اللہ کے شریک کی طرف میلان کرنا، اللہ کو چھوڑ کر مادی اسباب کی طرف میلان کرنا، قرآن مجید میں ہے :

ومن یرد فیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم۔ (الحج : ٢٥) اور جو اس (حرم) میں ظلم کے ساتھ زیادتی کا ارادہ کرے، ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔

اگر کوئی شخص جائز سمجھ کر حرم شریف میں کسی پر ظلم کرے، خواہ کسی کو گالی دے یا مارے تو یہ کفر ہے اور اگر وہ اس کو جائز نہیں سمجھتا اور یونہی غضب میں اگر کسی کو گالی دی یا اس کو مارا تو یہ کفر نہیں ہے گناہ کبیرہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

الذین یلحدون فی اسمائہ۔ (الاعراف : ١٨٠) جو اس کے اسماء میں کج روی اختیار کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے اسماء میں الحاد کی بھی دو قسمیں ہیں ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ذکر کی جائے جو صحیح اور جائز نہیں، مثلا کہا جائے اللہ کا بیٹا ہے یا اس کی بیٹی ہے یہ کفر اور شرک ہے، یا اس کی ایسی صفت ذکر کی جائے جو اس کی شان کے لائق نہیں جیسے بعض لوگ کہتے ہیں اللہ میاں۔ (المفردات ج ٢ ص ٥٧٧، موضحا مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

لغت میں الحاد کا معنی ہے میانہ روی سے دوسری جانب میلان کرنا، اسی وجہ سے جو شخص حد سے تجاوز کرے اس کو ملحد کہتے ہیں اور اس آیت میں یلحدون کا معنی ی ہے ہ کہ جس زبان کی طرف یہ نسبت کرتے ہیں وہ عجمی ہے۔

نیز علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :

عجمہ اظہار کی ضد ہے اور اعجام ابہام کو کہتے ہیں۔ حیوانات کو عجماء کہتے ہیں کیونکہ وہ زبان سے اظہار نہیں کرسکتے، دن کی نمازوں کو بھی عجماء کہتے ہیں کیونکہ ان کی بلند آواز سے تلاوت نہیں کی جاتی۔ (المفردات ج ٢ ص ٤٢٠، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

عجم کا معنی کلام عرب میں ابہام اور اخفا ہے اور یہ بیان اور وضاحت کی ضد ہے جو شخص اپنے ما فی الضمیر کو واضح نہ کرسکے اس کو عرب رجل اعجم کہتے ہیں پھر عرب ہر اس شخص کو اعجم اور اعجمی کہتے ہیں جو عربی لغت کو نہ جانتا ہو اور ان کی زبان میں بات نہ کرسکتا ہو۔

مشرکین نے جس عجمی شخص کی طرف یہ منسوب کیا تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے تعلیم حاصل کر کے قرآن مجید پڑھتے ہیں، اس کے متعلق امام ابن جوزی نے متعدد اقوال ذکر کیے ہیں، جو حسب ذیل ہیں :

مشرکین نے جس شخص کے متعلق تعلیم دینے کا افترا کیا تھا، اس کے بارے میں متعدد اقوال :

١۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ شخص بنی مغیرہ کا غلام تھا، یہ تورات پڑھتا تھا، مشرکین کہتے تھے کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے سیکھتے تھے۔ دوسری روایت ی ہے ہ کہ یہ شخص بنی عامر بن لوی کا غلام تھا اور یہ رومی تھا۔

٢۔ یہ مکہ میں رہنے والا ایک نوجان تھا۔ یہ نصرانی اور عجمی تھا اور اس کا نام بلعام تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو تعلیم دیتے تھے اس وجہ سے یہ آپ کے پاس آتا رہتا تھا، مشرکین نے جب اس کو آپ کے پاس آتے جاتے دیکھا تو یہ افترا کردریا۔ یہ بھی حضرت ابن عباس سے روایت ہے۔

٣۔ سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک کاتب تھا جو آپ کے لکھوانے کے برعکس لکھ دیتا تھا۔ یہ اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا تھا۔

٤۔ قریش کی ایک عورت کا ایک عجمی غلام تھا، جس کا نام جابر تھا وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر پڑھتا تھا، مشرکین نے اس کے متعلق افترا کیا کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے پڑھتے ہیں۔ یہ سعید بن جبیر کی روایت ہے۔

٥۔ ابن زید نے کہا کہ بخنس نام کا ایک نصرانی تھا، انہوں نے اس کے متعلق یہ افترا کیا تھا۔

٦۔ فرا اور زجاج نے کہا یہ شخص جو طب کا ایک عجمی غلام تھا جس کے متعلق مشرکین نے یہ افترا کیا تھا۔ (زاد المسیر ج ٤ ص ٤٩٢، ٤٩٣، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٤٠٧ ھ)

مشرکین کے افترا کے متعدد جوابات :

امام فخر الدین رازی نے مشرکین کے اس افترا کے باطل ہونے کی متعدد وجوہات بیان کی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں :

١۔ مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاند اور مخالف تھے اور انہوں نے یہ جو افترا کیا تھا یہ بلا دلیل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس افترا کا یہ رد فرمایا ہے کہ جس شخص کی طرف مشرکین آپ کو تعلیم دینے کی نسبت کرتے ہیں، وہ تو عجمی ہے اور یہ قرآن انتہائی فصیح اور بلیغ عربی زبان میں ہے جس کی فصاحت اور بلاغت کی نظیر لانے سے تمام جن اور انس عاجز ہیں تو ایک عجمی شخص اس کی نظیر کیسے لاسکتا ہے۔

٢۔ تعلیم کا عمل ایک نشست میں تو مکمل نہیں ہوسکتا اس کے لیے تو بار بار آنے جانے اور نشست و برخواست کی ضرورت ہے یا تو آپ اس شخص کے گھر بار بار آتے جاتے یا وہ شخص بار بار آپ کے گھر آتا جاتا اور اگر ایسا ہوتا تو یہ معاملہ لوگوں کے درمیان بہت مشہور ہوجاتا کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فلاں شخص سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور جب یہ معاملہ مشہور نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ افترا باطل ہے۔

٣۔ قرآن مجید میں غیب کی خبریں ہیں، گزشتہ اقوام اور انبیاء سابقین کے واقعات ہیں اور انسان کی دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے انتہائی جامع اور کامل اصول بیان کیے ہیں۔ عبرت انگیز اور سبق آموز مثالیں بیان فرمائی ہیں اگر کوئی شخص ان تمام علوم کو جاننے والا ہوتا تو اس کی تمام دنیا میں شہرت ہوجاتی اور جبکہ ایسا نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ افترا باطل ہے۔

٤۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بار باریہ چیلنج فرما رہے تھے کہ اس کلام کی نظیر کوئی نہیں لاسکتا اور یہ اللہ کا کلام ہے تو وہ شخص سامنے کیوں نہیں آیا، وہ سامنے آکر بتاتا یہ تو میرا کلام ہے اور میرا اعزاز ہے اور تمام عرب س کو سروں پر اٹھا لیتے۔ 

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں طعن کرنے کے لیے مشرکین نے جو یہ افترا کیا اس سے واضح ہوگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت بالکل عیاں اور ظاہر تھی اور آپ کے مخالفین سوائے جھوٹ اور بہتان طرازی کے آپ نبوت میں اور کوئی گنجائش نہیں پاتے تھے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 103