أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاخۡفِضۡ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارۡحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِىۡ صَغِيۡرًا ۞

ترجمہ:

اور ان کے سامنے عاجزی اور رحم دلی کا بازو جھکائے رکھنا، اور یہ دعا کرنا : اے میرے رب ان پر رحم فرماا جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ان کے سامنے عاجزی اور رحم دلی کا بازو جھکائے رکھنا، اور یہ دعا کرنا : اے میرے رب ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔ (بنی اسرائیل : ٢٤ )

رحم دلی سے بازو جھکانے کا معنی :

پرندہ جب اپنے چوہ کو اپنے جسم کے ساتھ ملانا چاہتا ہے تو اپنے پروں کو جھکا لیتا ہے، اس وجہ سے پروں کو جھکانے سے مراد ہوتی ہے بچہ کی اچھی پر وش کرنا اور یہاں یہ مراد ہے کہ اپنے ماں باپ کی اچھی طرح کفالت کرو اور ان کے خرچ کو اپنے خرچ سے ملا لو اور ان کو الگ نہ کرو، جس طرح انہوں نے تمہارے بچپن میں تمہارے خرچ کو اپنے خرچ سے الگ نہیں رکھا، دوسری وجہ یہ ہے کہ جب پرندہ اڑنے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے پروں کو پھیلا لیتا ہے اور جب اڑان اور پرواز ختم کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے پروں کو سکیڑ لیتا ہے اور جھکا دیتا ہے اس وجہ سے بازو اور پر پھیلانا علو سے کنایہ ہے اور پروں کو جھکانا تواضع اور عجزو انکساری سے کنایہ ہے سو اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اپنے ماں باپ کے سامنے اکڑ اور ترفع کے ساتھ نہ رہو بلکہ عجز اور تواضع کے ساتھ رہو۔

اس آیت میں یہ حکم دیا ہے کہ ماں باپ کے لیے دعا کرو کہ اے اللہ ان پر رحم فرمانا جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی، اور جب ہم نماز میں دعا ابراہیم پڑھتے ہیں : ربنا اغفرلی ولوالدی (ابراہیم : ٤١) اے ہمارے رب میری مغفرت کر اور میرے ماں باپ کی تو اس حکم پر عمل ہوجاتا ہے اور جب انسان اپنے ماں باپ کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کرے تو اس کو بھی مغفرت اور رحمت حاصل ہوگی یہ تو دراصل اپنے ہی حق میں رحمت اور مغفرت کی دعا ہے کیونکہ حدیث میں ہے :

حضرت ام الدردء بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مسلمان بندہ اپنے مسلمان بھائی کے پس پشت دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تجھے بھی اس کی مثل مل جائے، اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور فرشتہ اس کی دعا پر آمین کہتا ہے۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث : ٢٧٣٢، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٥٣٤)

مجھے اس حدیث کی صداقت کا تجربہ ہے، مجھے علم تھا کہ میرے دوسرے علامہ عبد الحکیم صاحب شرف قادری قرآن مجید کی تفسیر لکھنا چاہتے ہیں۔ ١٩٩٤ میں مدینہ طیبہ میں میری ان سے ملاقات ہوئی، ہم گنبد خضراء کے سائے میں کھڑے تھے، انہوں نے مجھ سے کہا میرے لیے دعا کریں میں نے دعا کی کہ الہ العالمین ! علامہ شرف صاحب کو قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کا شرف عطا فرماا، اللہ تعالیٰ نے یہ دعا میرے حق میں قبول فرما لی میں نے اسی سال تفسیر لکھنی شروع کی اور اب ٢٠٠٠ میں بنی اسرئیل تک یہ تفسیر پہنچ گئی اور انشاء اللہ باقی بھی مکمل ہوجائے گی۔

مشرک ماں باپ کے لیے دعا کرنے میں مفسرین کے اقوال :

اس آیت میں والدین کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کے متعلق مفسرین کے تین قول ہیں۔ امام رازی لکھتے ہیں :

١۔ یہ آیت قرآن مجید کی اس آیت سے منسوخ ہے :

ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی من بعد ما تبین لھم انھم اصحب الجحیم۔ (التوبہ : ١١٣) نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں، خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہوں، جبکہ یہ بات ان پر ظاہر ہوچکی ہو کہ وہ دوزخ ہیں۔

لہذا کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت اور رحمت کے حصول کی دعا کرے۔

٢۔ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ مسلمان والدین کے ساتھ مخصوص ہے، یعنی اگر اس کے ماں باپ مسلمان ہوں تو ان کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کرے اور اگر اس کے ماں باپ مشرک ہوں تو ان کے لیے مغفرت یا رحمت کی دعا نہ کرے اور یہ قول پہلے قول سے اولی ہے۔

٣۔ یہ آیت منسوخ ہے اور نہ مخصوص ہے اگر اس کے والدین کافر ہوں تو وہ ان کے لیے ہدایت اور ایمان کے حصول کی دعا کرے اور ایمان کے بعد ان کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کرے۔ (تفسیر کبیر ج ٧ ص ٣٣٧، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ)

ماں باپ کے حقوق اور ان کی اطاعت اور نافرمانی کے نتائج اور ثمرات :

حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! میرا مال بھی ہے اور میری اولاد بھی ہے میرا باپ میرا مال چھین لینا چاہتا ہے، آپ نے فرمایا تم خود اور تمہارا مال تمہارے باپ کی ملکیت ہے۔ ، (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٩١، اس حدیث کی سند صحیح ہے)

عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہا میرے باپ نے میرے مال کو چھین لیا (یا ہلاک کردیا) آپ نے فرمایا تم خود اور تمہارا مال تمہارے باپ کی ملکیت ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی ہے پس تم ان کے اموال سے کھاؤ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٩٢، مسند احمد ج ٢ ص ١٧٩، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٥٣٠، تاریخ بغداد رقم الحدیث : ١٩٩٤، ابن الجارد رقم الحدیث : ٩٩٥)

حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! والدین کا اپنی اولاد پر کیا حق ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ اس کی جنت اور دوزخ ہیں۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٦٢، اس حدیث کی سن ضعیف ہے)

حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک جس وقت فوت ہوتے ہیں وہ اس وقت ان کا نافرمان ہوتا ہے پھر وہ ان کے لیے مسلسل مغفرت کی دعا کرتا رہتا ہے حتی کہ اللہ اس کو نیکو کار لکھ دیتا ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٩٠٢)

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اس حال میں صبح کرتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار ہوتا ہے اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور اگر وہ ایک کا اطاعت گزار ہوتا ہے تو ایک دروازہ کھلا ہوا ہوتا ہے اور جو شخص شام کے وقت اس حال میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہوتا ہے تو صبح کے وقت اس کے لیے دوزخ کے دو دروازے کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور اگر وہ ایک کا نافرمان ہوتا ہے تو ایک دروازہ کھلا ہوا ہوتا ہے۔ ایک شخص نے کہا خواہ اس کے ماں باپ اس پر ظلم کریں فرمایا اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٩١٦)

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو نیک شخص اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے اللہ تعالیٰ اس کو ہر نظر کے بدلہ میں حج مبرور عطا فرماتا ہے، صحابہ نے پوچھا خواہ وہ ہر روز سو مرتبہ رحمت کی نظر کرے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، اللہ بہت بڑا اور بہت پاک ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٨٥٩ )

حضرت ابوبکر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ماں باپ کی نافرمانی کے سوا اللہ ہر گناہ میں سے جس کو چاہے گا معاف فرما دے گا اور ماں باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو زندگی میں موت سے پہلے مل جائے گی۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٨٩٠)

حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن تین انسانوں کی طرف اللہ رحمت کی نظر نہیں فرمائے گا اور جو لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے ان میں ماں باپ کا نافرمان ہوگا، اور بالوں کو کاٹ کر مردوں سے مشابہت کرنے والی عورت ہوگی اور دیوث (عورتوں کا دلال) ہوگا اور جن تین کی طرف قیامت کے دن نظر رحمت نہیں فرمائے گا وہ ماں باپ کا نافرمان ہوگا، اور عادی شرابی، اور احسان جتلانے والا۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٣١٨٠، مسند احمد رقم الحدیث : ٦١٨٠، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٦، المستدرک ج ٤ ص ١٤٦، ١٤٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٦١، ٢٥٦٢ )

حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین آدمی سفر کر رہے تھے۔ ان کو بارش نے آلیا، انہوں نے پہاڑ کے اندر ایک غار میں پناہ لی، غار کہ منہ پر پہاڑ سے ایک چٹان ٹوٹ کر آگری اور غار کا منہ بند ہوگیا، پھر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا، تم نے جو نیک عمل اللہ کے لیے کیے ہوں ان کے وسیلہ سے اللہ سے دعا کروشاید اللہ غار کا منہ کھول دے، ان میں سے ایک نے کہا اے اللہ ! میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میری ایک چھوٹی بچی تھی جب میں شام کو آتا تو بکری کا دودھ دوھ کر پہلے اپنے ماں باپ کو پلاتا پھر اپنی بچی، بیوی اور گھر والوں کو پلاتا، ایک دن مجھے دیر ہوگئی میں حسب معمول دودھ لے کر ماں باپ کے پاس گیا، وہ سوچکے تھے، میں نے ان کا جگانا ناپسند کیا اور ان کے دودھ دینے سے پہلے بچی کو دودھ دینا ناپسند کیا، بچی رات بھر بھوک سے میرے قدموں میں روتی رہی اور میں صبح تک دودھ لے کر ماں باپ کے سرہانے کھڑا رہا۔ اے اللہ تجھے خوب علم ہے کہ میں نے یہ فعل صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے اتنی کشادگی کر دے کہ ہم آسمان کو دیکھ لیں گے۔ اللہ عزوجل نے ان کے لیے کشادگی کردی حتی کہ انہوں نے آسمان کو دیکھ لیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٢١٥، صحیح مسلم، ٢٧٤٣، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٣٨٧، مسند احمد رقم الحدیث : ٥٩٧٣، عالم الکتب، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٣١٨٨)

حضرت عبداللہ بن ابی اوفی بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا ایک جوان آدمی قریب المرگ ہے اس سے کہا گیا کہ لا الہ الا اللہ پڑھو تو وہ نہیں پڑھ سکا، آپ نے فرمایا : وہ نماز پڑھتا تھا ؟ اس نے کہا ہاں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ اٹھے، آپ اس جوان کے پاس گئے اور فرمایا کہو لا الہ الا اللہ اس نے کہا مجھ سے نہیں پڑھا جارہا، آپ نے اس کے متعلق پوچھا، کسی نے کہا یہ اپنی والدہ کی نافرمانی کرتا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا اس کی والدہ زندہ ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا اس کو بلا لاؤ وہ آئی، آپ نے پوچھا یہ تمہارا بیٹا ہے، اس نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا یہ بتاؤ کہ اگر آگ جلائی جائے اور تم سے کہا جائے کہ اگر تم شفاعت کرو تو اس کو چھوڑ دیتے ہیں ورنہ اس کو آگ میں ڈال دیتے ہیں تو کیا تم اس کی شفاعت کرو گی ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! اس وقت میں اس کی شفاعت کروں گے، آپ نے فرمایا تب تم اللہ کو گواہ کرو، اور مجھ کو گواہ کر کے کہو کہ تم اس سے راضی ہوگئی ہو، اس عورت نے کہا اے اللہ میں تجھ کو گواہ کرتی ہوں اور تیرے رسول کو گواہ کرتی ہوں کہ میں اپنے بیٹے سے راضی ہوگئی ہوں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے لڑکے ! اب کہو لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ تو اس لڑکے نے کلمہ پڑھا، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کا شکر ہے جس نے اس کو میری وجہ سے آگ سے نجات دی۔ (الترغیب والترہیب للمنذری ج ٣ ص ٣٣٢، مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٤٨، شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٨٩٢)

ماں باپ کے حقوق کے متعلق میں نے البقرہ ٨٣ میں بھی بحث کی ہے، لیکن یہاں بہت زیادہ جامعیت اور تفصیل سے لکھا ہے اور بعض احادیث مکرر آگئی ہے لیکن ہم نے اس بحث کو مکمل کرنے کے لیے ان کا ذکر کردیا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء آیت نمبر 24