أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الَّذِىۡ يَرٰٮكَ حِيۡنَ تَقُوۡمُۙ‏ ۞

ترجمہ:

جو آپ کو آپ کے قیام کے وقت دیکھتا ہے

تفسیر:

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے اصحاب کی عبادات کی تفتیش کرنا 

اس کے بعد فرمایا : جو آپ کو قیام کے وقت دیکھتا ہے۔ اور سجدہ کرنے والوں میں آپ کے پلٹنے کو۔ (الشعرائ : ٢١٩۔ ٢١٨)

ان دو آیتوں کے حسب ذیل محامل ہیں :

(١)… حضرت ابن عباس (رض) نے کہا ‘ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب پر پہلے تہجد کی نماز واجب تھی پھر بعد میں قیام اللیل منسوخ ہوگیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آدھی رات کو تہجد کے لئے قیام فرماتے ‘ پھر اپنے اصحاب کے گھروں میں دیکھتے کہ آیا وہ تہجد کی فرضیت منسوخ ہونے کے بعد قیام اللیل کو ترک کرچکے ہیں یا نفلی طور پر پڑھ رہے ہیں کیونکہ آپ کو یہ پسند نہ تھا کہ آپ کے اصحاب عبادت میں کوشش کرتے رہیں پھر جب آپ ان کے گھروں میں دیکھتے تو ان کے قرآن پڑھنے کی آوازیں آرہی ہوتی تھیں۔ سو اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم آپ کو اس وقت دیکھتے ہیں جب آپ آدھی رات کو خود نماز میں قیام کرتے ہیں اور ہم آپ کو اس وقت بھی دیکھتے ہیں جب آپ سجدہ کرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں کی تفتیش کے لئے گھومتے ہیں۔

تہجد کی نماز کی فضیلت اور اہمیت 

اس سے تہجد کی نماز کی فضلیت معلوم ہوتی ہے اور اس کی فضیلت میں حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ رمضان کے مہینہ کے بعد اللہ کے مہینہ محرم کے روزے سب سے افضل ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل تہجد کی نماز ہے۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٦٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٣٨‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٤٢٩‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٢٣‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦١٣‘ ١٦١٢‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٤٢‘ مسند احمد ج ٢ ص ٣٠٣‘ سنن الداری رقم الحدیث : ١٤٨٤)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں جب کوئی شخص سوتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ میں یہ باندھتا ہے کہ تمہاری رات بہت لمبی ہے سو جائو۔ اگر وہ بیدار ہو اور اللہ کا ذکر کرے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر وضو کرے تو دوسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اور اگر نماز پڑھ لے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ پھر وہ تر و تازگی اور پاکیزگی کے ساتھ صبح کرتا ہے ‘ ورنہ نحوست اور سستی کے ساتھ صبح کرتا ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٧٦‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣٠٦‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٠٦)

عبداللہ بن ابی قیس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا ‘ رات کے قیام کو ترک نہ کرو کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے قیام کو ترک نہیں کرتے تھے اور جب آپ بیمار ہوتے یا تھکے ہوئے ہوتے تو بیٹھ کر نماز پڑھ لیتے تھے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣٠٧)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب درد یا کسی اور وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تہجد کی نماز قضا ہوجاتی تو آپ دن میں بارہ رکعت پڑھتے تھے۔(صحیح مسلم ‘ صلوٰۃ المسافرین : ١٤٠‘ الرقم المسلسل ١٧١٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٤٥‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٧٩٠)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رات میں ایک ایسی ساعت ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان شخص اللہ تعالیٰ سے اس ساعت میں سوال کرے گا ‘ خواہ وہ دنیا کی کسی خیر کا سوال کرے یا آخرت کی ‘ تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ عطا کرے گا اور یہ عطا پوری رات رہتی ہے۔(صحیح مسلم ‘ صلوٰۃ المسافرین : ١٦٦‘ رقم بلاتکرار : ٧٥٧‘ الرقم المسلسل : ١٧٣٩)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کروں ‘ کوئی ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو عطا کروں ‘ کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں اس کی مغفرت کردوں ؟ صحیح مسلم کی دوسری روایت (رقم المسلسل : ١٧٤٢) میں ہے وہ فجر روشن ہونے تک یونہی فرماتا رہتا ہے ‘ ترمذی کی روایت بھی اسی طرح ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٨‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣١٤‘ ٤٧٣٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٨‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٧٧٦٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٦٦ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو بیدار ہو کر نماز پڑھے اور اپنی اہلیہ کو بیدار کرے کہ وہ نماز پڑھے ‘ اگر وہ اٹھنے سے انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی چھڑکے اور اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بیدار کرے تاکہ وہ نماز پڑھے اگر وہ اٹھنے سے انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی چھڑکے۔(مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٩‘ طبع قدیم ‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٩٥٩٣‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣٠٨‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦١٠‘ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١١٤٨‘ الفتح الربانی رقم الحدیث : ٩٩٨‘ امام طبرانی نے اس حدیث کو حضرت ابو مالک اشعری سے روایت کیا ہے ‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٥٨٠‘ حافظ زین نے کہا امام احمد کی سند صحیح ہے ‘ حاشیہ مسند احمد ج ٩ ص ٢٦٧‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ ‘ حافظ الہیثمی نے کہا امام طبرانی کی سند ضعیف ہے ‘ مجمع الزوائد ج ٢ ص ٢٦٣ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ایسے عمل کی خبر دیجئے کہ جب میں اسے کرلوں تو جنت میں داخل ہو جائوں۔ آپ نے فرمایا تم بلند آواز سے سلام کرو ‘ کھانا کھلائو ‘ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو اور جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو رات کو اٹھ کر نماز پڑھو ‘ پھر سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائو۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٥٨٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٣٤‘ سنن الداری رقم الحدیث : ١٤٦٠‘ الفتح الربانی رقم الحدیث : ٩٩٩‘ مسند احمد ج ٢ ص ٤٩٣‘ قدیم مسند احمد رقم الحدیث : ١٠٣٤٩‘ دارالحدیث ‘ قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ ‘ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ احمد عبدالرحمان البناء نے کہا اس حدیث کو امام ترمذی ‘ امام ابن حبان اور امام حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے ‘ بلوغ الامانی جز ٤ ص ٢٣٤)

حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ تہجد کی نماز کس وقت پڑھنا افضل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ بقیہ رات کے درمیان یا آدمی رات میں اور اس کو پڑھنے والے کم ہیں۔(مسند احمد رقم الحدیث : ٢١٤٤٧‘ الفتح الربانی رقم الحدیث : ١٠٠٠‘ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے ‘ حاشیہ مسند احمد ج ١٦ ص ٢١‘ دارالحدیث ‘ قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ ‘ احمد عبدالرحمان نے کہا اس حدیث عی سند جید ہے بلوغ الامانی جز ٤ ص ٢٣٥)

حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر قیام کرتے تھے کہ آپ کے پیر مبارک سوج جاتے تھے۔ آپ سے کہا گیا (حضرت عائشہ کی روایت میں ہے یا رسول اللہ آپ اس قدر کوشش کیوں کرتے ہیں حالانکہ) اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے ذنب کی مغفرت فرما دی ہے ؟ آپ نے فرمایا : کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں !(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٣٦‘ ٤٨٣٧‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨١٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤١٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤١٩‘ السنن الکبریٰ رقم الحدیث : ١١٥٠٠‘ مسند احمد ج ٤ ص ٢٥١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٨١١٤‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٦٩٣‘ مسند حمیدی رقم الحدیث : ٧٥٩‘ الفتح الربانی رقم الحدیث : ١٠٠٦)

انبیاء (علیہم السلام) کے ذنوب کی توجیہ اور بندہ کے شکر اور اللہ کے شکر کے معنی 

احمد عبدالرحمان البنا اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

علماء نے کہا ہے کہ قرآن مجید اور حدیث میں جو بعض انبیاء (علیہم السلام) کے بعض ذنوب کا ذکر وارد ہوا ہے ‘ جیسے :

ترجمہ : (طٰہٰ : ١٢١ )… اور آدم نے (بظاہر) اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ (جنت کی رہائش سے) بےراہ ہوگئے۔

اور اس قسم کی دوسری آیات ہیں ‘ سو ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم قرآن اور سنت کے علاوہ ان کی طرف ذنوب کی نسبت کریں اور ہم پر لازم ہے کہ ہم ان آیات کی تاویل ترک اولیٰ سے کریں اور ان کے ان افعال کو ذنوب سے اس لئے تعبیر فرمایا ہے کہ ان کے بلند مرتبہ کے اعتبار سے ترک اولیٰ بھی ذنب کے حکم میں ہے جیسا کہ بعض علماء نے کہا کہ ابرار کی نیکیاں بھی مقربین کے نزدیک گناہ ہیں ‘ اسی وجہ سے جب بعض صحابہ نے آپ سے سوال کیا کہ آپ عبادت کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے اور پچھلے ذنوب کی مغفرت کردی گئی ہے جیسا کہ سورة الفتح میں ہے ‘ نیز اس آیت میں بعد کے ذنوب کی بھی مغفرت کا ذکر ہے حالانکہ بعد کے افعال کا تو ابھی آپ سے صدور بھی نہیں ہوا تھا اور جو کام ابھی ہوا ہی نہ ہو اس کو ذنب نہیں کہا جاتا۔ اس سے معلوم ہوال کہ اس آیت سے مقصود ہے کہ آپ کو آخرت کے شدت خوف سے مامون رکھا جائے اور آپ کو تسلی دی جائے کیونکہ آپ نے فرمایا مجھے تم سب سے زیادہ اللہ کا علم ہے اور میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ٢٠) سو اس آیت سے مراد یہ ہے کہ بفرض محال اگر آپ سے کوئی گناہ واقع بھی ہوتا تو وہ بخشا ہوا ہوتا اور آپ کے ذنب کو فرض کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ واقع بھی ہوا ہو۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا اس حدیث کا معنی یہ ہے کیا میں اپنی تہجد کی نماز کو ترک کردوں ‘ پھر میں زیادہ شکر کرنے والا بندہ نہیں رہوں گا اور اس کا معنی یہ ہے کہ بظور شکر تہجد کی نماز پڑھنے سے مغفرت حاصل ہوتی ہے تو میں تہجد کی نماز کو کیسے ترک کرسکتا ہوں ! قاضی عیاض نے کہا شکر کا معنی ہیمحسن کے احسان کو جانن اور اس کو بیان کرنا اور نیک کام کو شکر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نیک کام احسان کرنے والے کی حمد و ثنا کو متضمن ہوتا ہے اور بندہ کے شکر کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرے ‘ اس کی حمد و ثنا کرے اور اس کی عبادت دائما کرے اور اللہ کے شکر کا معنی یہ ہے کہ وہ بندوں کو ان کی عبادات کی جزا دے اور ان کو دگنا چوگنا اجر عطا فرمائے اور اللہ سبحانہ کے اسماء میں سے جو شکور اور شاکر ہے اس کا یہی معنی ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کو جو بہت شدید خوف ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا علم ہوتا ہے اور ان کا یہ ایمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے استحقاق کے بغیر ان کو یہ نعمتیں عطا کی ہیں ‘ اس لئے وہ اس کی عبادت کرنے میں بہت زیادہ کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کا شکر ادا کرسکیں ‘ ورنہ اس کا کماحقہ شکر کوئی ادا نہیں کرسکتا۔(بلوغ الامانی (شرح مسند احمد بن حنبل) جز ٤ ص ٢٣٨‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت) 

قرآن مجید میں مذکور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذنب کا ترجمہ گناہ کرنے کی تحقیق 

جب ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ذنب کی نسبت ہو تو علماء نے ذنب کا ترجمہ گناہ کردیا ہے :

اعلی حضرت امام احمد رضا کے والد گرامی مولانا شاہ نقی علی خان متوفی ١٢٩٧ ھ سورة الفتح : ٢۔ ١ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

ہم نے فیصلہ کردیا تیرے واسطے صریح فیصلہ تا معاف کرے اللہ تیرے اگلے اور پچھلے گناہ اور پورا کرے تجھ پر اپنا احسان اور چلا دے تجھ کو سیدھی راہ اور مدد کرے تجھ کو خدا زبردست مدد۔ (انوار جمال مصطفیٰ ص ٧١‘ مطبوعہ شبیر برادرز ‘ لاہور)

اور زیر بحث حدیث کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں ‘ آپ نے اس قدر عبادت کی کہ پائے مبارک سوج گئے۔ لوگوں نے کہا آپ تکلیف اس قدر کیوں اٹھاتے ہیں کہ خدا نے آپ کو اگلی پچھلی خطا معاف کی ‘ فرمایا افلا اکون عبدالشکوراً :(سرور القلوب بذکر المحبوب ص ٢٣٨‘ مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار ‘ لاہور)

اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں :

اور خود قرآن عظیم میں ارشاد ہوتا ہے واستغفر لذنیک و للمومنین و المومنات مغفرت مانگ اپنے گناہوں کی اور سب مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے لئے۔ (ذیل المدعا لاحسن الوعاء (فضائل دعا) ص ٢٦‘ مطبوعہ ضیا الدین پبلی کیشنز کراچی)

نیز اعلیٰ حضرت معالم التنزیل کے حواشی میں تحریر فرماتے ہیں :

ذنوب انبیاء (علیہم السلام) سے مراد صورت گنا ہے ورنہ حقیقتاً گناہ سے انبیاء کرام (علیہم السلام) دور اور منزہ و مبرا ہیں۔(تعلیقات رضا ص ٢٦‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی بمبئی ‘ ١٤١٨ ھ)

مولانا غلام رسول رضوی متوفی ١٤٢٢ ھ ایک حدیث کے ترجمہ میں لکھتے ہیں د : لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے وہ کہیں گے کہ میں اس پوزیشن میں نہیں کہ تمہاری شفاعت کروں تم ماحمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیئے ہیں۔(تفہیم البخاری ج ١ ص ٤٨‘ الجدہ پر نٹرز)

ہمارے نزدیک ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان نبوت سے پہلے اور اعلان نبوت کے بعد ہر قسم کے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے سہواً اور عمداً ‘ حقیقتاً اور صورۃً معصوم ہیں۔ قرآن مجید میں آپ کے افعال پر جو ذنب کا اطلاق کیا گیا ہے وہ بظاہر خلاف اولیٰ کے معنی میں ہے اور حقیقت میں آپ کا ہر کام اولیٰ ہے ‘ ہمارے بعض اکابرین نے ذنب کا ترجمہ گناہ کردیا ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ ان بزرگوں کا علمی تسامح ہے کیونکہ جب اردو خواں لوگ ذنب کا ترجمہ گناہ پڑھیں گے اور نبی کے افعال پر گناہ کا اطلاق دیکھیں گے تو ان کے ذہن مشوش ہوں گے۔ وہ ذنب کی تاویلات کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ یہاں آپ کے افعال پر ذنب کا اطلاق مجازاً کیا گیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ نبی سے بھی گناہ صادر ہوجاتا ہے اور جب عام لوگوں کے ذہنوں میں نبی کے لئے بھی گناہ ثابت ہوجائیں تو انہیں نیکی پر کس طرح آمادہ کیا جاسکے گا ‘ اسی طرح جب مستشرقین اور غیر مسلم معترضین کے ہاتھوں میں یہ تراجم پہنچیں گے تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (العیاذ باللہ) گنہگار ثابت کرنے کے لئے ان تراجم کو پیش کریں گے ‘ بعض لوگوں نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ قرآن مجید میں ہے :

ترجمہ : (الفتح : ١٠)… ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

کیا اس ترجمہ سے عام لوگوں کے ذہن مشوش نہیں ہوں گے اور ان کے ذہنوں میں اللہ تعالیٰ کے جسم ہونے کا وہم پیدا نہیں ہوگا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معصوم ہونے پر تو امت مسلمہ کا اتفاق ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے قرآن مجید میں ید (ہاتھ) وجہ (چہرہ) اور اعین (آنکھیں) کے جو الفاظ ہیں ‘ ان سے کیا مراد ہے۔ اس میں متقدرمین اور متاخرین کا اختلاف ہے۔ متقدمین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ‘ چہرہ اور آنکھیں ہیں لیکن وہ جسمانیت سے پاک ہے اور مخلوق میں اس کی کوئی مثل نہیں ہے۔ اس کی یہ صفات اس کی شان کے لائق ہیں۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں :

اللہ کی کوئی ضد (ممانع اور مخالف) نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی ند (مشابہ) ہے اور نہ اس کی کوئی مثل ہے اور اس کا ہاتھ ہے اور اس کا چہرہ ہے اور اس کا نفس ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو چہرہ ‘ ہاتھ اور نفس کا ذکر کیا ہے وہ اس کی بلاکیف صفات ہیں اور یہ نہ کہا جائے کہ ہاتھ سے مراد اس کی قدرت یا نعمت ہے کیونکہ اس قول میں اس کی صفات کو باطل کرنا ہے اور یہ قدریہ اور معتزلہ کا قول ہے لیکن اس کا ہاتھ اس کی صفت بلاکیف ہے اور اس کا غضب اور اس کی رض اس کی صفات میں سے دو صفات بلاکیف ہیں۔ (الفقہ الاکبر مع شرحہ لعلی القاری ص ٣٧۔ ٣٦‘ مطبوعہ مطبعہ مصطفیٰ البابی دادلادہ مصر ‘ ١٣٧٥ ھ)

اور متاخرین نے ان صفات کی تاویلات کی ہیں :

علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی ٧٩١ ھ لکھتے ہیں :

مخالفین اسلام نے قرآن اور حدیث کی ان نصوص سے استدلال کیا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کے لئے جہت اور جسمیت ثابت ہوتی ہے اور اس کی صورت اور اس کے اعضاء ثابت ہوتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تنزیہات پر دلائل قائم ہیں۔ اس لئے ان نصوص کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مفوض کرنا واجب ہے جیسا کہ سلف صالحین کا طریقہ ہے کہ وہ زیادہ سلامتی والے طریقہ کو پسند کرتے ہیں یا ان نصوص کی تاویلات صحیحیہ کی جائیں جیسا کہ متاخرین علماء کا مختار ہے تاکہ جاہلوں کے اعتراضات کو دور کیا جاسکے اور کمزور مسلمانوں کو اسلام پر برقرار رکھا جاسکے۔ (شرح العقائد النسفی ص ٣٤ ملخصاً ‘ مطبوعہ کراچی)

ان تاویلات کی مثال حسب ذیل ہے ‘ قرآن مجید میں ہے :

ترجمہ : (البقرہ : ١١٥)… تم جہاں کہیں بھی (قبلہ کی طرف) منہ کرو ‘ تو وہیں اللہ کا چہرہ ہے۔

یعنی وہیں اللہ تمہاری طرف متوجہ ہے یا وہیں اللہ کی ذات ہے۔

اسی طرح حدیث میں ہے :

حضرت محمد ابن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو وہ چہرے پر مارنے سے اجتناب کرے ‘ کیونکہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔(صحیح مسلم البروالصلۃ : ١١٥‘ رقم الحدیث بلاتکرار : ٢٦١٢‘ الرقم المسلسل : ٦٥٣٢‘ مسند احمد ج ٢ ص ٢٤٤‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٧ ص ٢٧٧‘ رقم الحدیث : ١٩٥٦‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

علامہ شمس الدین خیالی متوفی ٨٧٠ ھ نے لکھا ہے اس حدیث میں صورت سے مراد اس کی صفت ہے ‘ یعنی علم اور قدرت میں سے کسی صفت پر حضرت آدم کو پیدا کیا ‘ اسی طرح قرآن مجید میں ید اللہ (الفتح : ١٠) ہے اس سے مراد اللہ کی قدرت ہے۔(حاشیۃ الخیالی علی شرح العقائد ص ٧٤‘ مطبوعہ مطیع یوسفی لکھنئو)

خلاصہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے قرآن مجید میں جو ذنب کا لفظ ہے اس کا ترجمہ گناہ کرنے میں اور ید اللہ کا ترجمہ اللہ کا ہاتھ کرنے میں بہت فرق ہے کیونکہ تمام اہل اسلام کے نزدیک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں اور جب ذنب کا ترجمہ گناہ کیا جائے گا تو عام مسلمانوں کے ذہن مشوش ہوں گے۔ اس کے برخلاف جب ید اللہ کا ترجمہ اللہ کے ہاتھ کیا جائے گا تو اس سے کسی مسلمان کو تشویش نہیں ہوگی کیونکہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے اور خود قرآن مجید میں مذکور ہے کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔ اس لئے اللہ کے ہاتھ کا معنی یہ ہے کہ اس کے شایان شان ہاتھ ہے جس کی مخلوق میں کوئی مثل نہیں ہے اور یہ معنی امام ابوحنیفہ اور دیگر متقدمین کے نزدیک ہے اور متاخرین کے نزدیک اس کا معنی اللہ کی قدرت ہے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حالت قیام اور ساجدین میں دیکھنے کے دیگر محامل 

ترجمہ : (الشعرائ : ٢١٩۔ ٢١٨)… جو آپ کے قیام کے وقت دیکھتا ہے۔ اور سجدہ کرنے والوں میں آپ کے پلٹنے کو۔ 

اس آیت کی تفسیر میں دیگر محامل یہ ہیں :

(٢) جب آپ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے قیام ‘ رکوع ‘ سجود اور قعود میں تصرف کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو مسلمانوں کے ساتھ قیام کرتے ہوئے اور سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ (تفسیر عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢١٤٠ )

(٣) مقاتل وغیرہ نے کہا ‘ اللہ آپ کو دیکھتا ہے جب آپ تنہا نماز پڑھتے ہیں اور جب آپ مسلمانوں میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ مجاہد نے کہا اللہ آپ کو دیکھتا ہے جب آپ کی نظر نمازیوں میں گردش کرتی ہے کیونکہ آپ پس پشت بھی اسی طرح دیکھتے تھے جس طرح سامنے سے دیکھتے تھے۔(جامع البیان رقم الحدیث : ٢٠٣٨٥‘ تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٦٠٣٠‘ معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٨٣)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں سامنے متوجہ رہتا ہوں ! پس اللہ کی قسم ! مجھ پر نہ تمہارا خشوع مخفی ہوتا ہے اور نہ تمہارا رکوع مخفی ہوتا ہے اور بیشک میں تم کو اپنے پس پشت بھی ضرور دیکھتا ہوں۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٢٤‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٨٠٢‘ مسند ابو عوانہ ج ٢ ص ١٣٨‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٢٠٤٨١)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندھیرے میں بھی اس طرح دیکھتے تھے جس طرح روشنی میں دیکھتے تھے۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اندھیرے میں بھی اسی طرح دیکھتے تھے جس طرح دن کی روشنی میں دیکھتے تھے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص ٧٥۔ ٧٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

(٤) ضحاک نے کہا جب آپ اپنے بستر سے کھڑے ہوتے ہیں یا اپنی مجلس سے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ آپ کو دیکھتا ہے ‘ 

قتادہ نے کہا جو آپ کو کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے تمام حالات میں دیکھتا ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٩ ص ٢٨٢٨ )

(٥) اللہ تعالیٰ آپ کو دیکھتا رہتا ہے جب آپ دینی معاملات اور دینی مہمات کو سر کرنے کے لئے قیام کرتے ہیں یا سجدہ کرنے والوں میں تصرف کرتے ہیں۔

(٦) ساجدین سے مراد انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور جس طرح دیگر انبیاء (علیہم السلام) کار نبوت کو سرانجام دینے میں قیام کرتے تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ کو تبلیغی امور میں قیام کرتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے۔ (جامع البیان ‘ رقم الحدیث : ٢٠٣٩٠)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کریمین کے ایمان کے ثبوت میں احادیث 

اس آیت کا یہ معنی بھی کیا گیا ہے کہ ساجدین سے مراد انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب انبیاء (علیہم السلام) کی پشتوں میں ایک نبی سے دوسرے نبی کی پشت میں منتقل ہو رہے تھے تو اللہ تعالیٰ آپ کو دیکھ رہا تھا اور اس تفسیر میں اس پر دلیل ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام آباء کرام مومن تھے۔ اس تفسیر کی تائید میں حسب ذیل احادیث ہیں :

امام عبدالرحمٰن بن محمد ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ روایت کرتے ہیں۔

حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ انبیاء (علیہم السلام) کی پشتوں میں منقلب ہوتے رہے حتیٰ کہ آپ اپنی والدہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ (اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کے تمام آباء کرام انبیاء تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے آباء کرام میں انبیاء (علیہم السلام) بھی تھے۔ )(تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٦٠٢٩‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)

اس حدیث کو امام ابو نعیم اصبہانی متوفی ٤٣٠ ھ اور امام محمد بن سعد متوفی ٢٣٠ ھ نے بھی روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) و تقلبک فی الساجدین کی تفسیر میں فرماتے ہیں آپ نے فرمایا میں ایک نبی کی پشت سے دوسرے نبی کی پشت میں منتقل ہوتا رہا حتیٰ کہ میں نبی ہوگیا۔ (یعنی آپ کے آباء کرام میں انبیاء (علیہم السلام) بھی تھے۔ )(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٢٠٢١‘ مسند البزار رقم الحدیث : ٢٢٤٢‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١١٢٤٧‘ حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کو امام طبرانی اور امام بزار نے اپنی سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان کی سندوں کے تمام راوی حدیث صحیح کے راوی ہیں ‘ سوائے شعیب بن بشر کے اور وہ بھی ثقہ ہے ‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٣ ص ٢٢٦‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤٢١ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے بنو آدم کے ہر قرن اور ہر طبقہ میں سب سے بہتر قرن اور طبقہ سے مبعوث کیا جاتا رہا حتیٰ کہ جس قرن میں میں ہوں۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٥٧‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٩٣٦٠‘ ٨٨٤٣‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ مسند احمد ج ٢ ص ٤١٧‘ طبع قدیم مشکوٰۃ المصابیح رقم الحدیث : ٥٧٣٩‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ١ ص ١٧٥‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٢٢٠٥)

قرن کا معنی ہے کسی ایک زمانے کے تمام لوگوں کا ایک طبقہ ‘ بعض علماء نے اس زمانے کی تحدید سو سال کے ساتھ کی ہے۔ بعض نے ستر سال کے ساتھ کی ہے اور صحیح یہ ہے کہ جب کسی ایک زمانہ کے تمام لوگ ہلاک ہوجائیں اور ان میں سے کوئی باقی نہ رہے تو وہ زمانہ ایک قرن ہے۔ (التوشیح ج ٣ ص ٣٨٧ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

حضرت واثلہ بن الاسقع (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ نے حضرت ابراہیم کی اولاد سے حضرت اسماعیل کو چن لیا اور حضرت اسماعیل کی اولاد سے بنوکنانہ کو چن لیا اور بنو کنانہ سے قریش کو چن لیا اور قریش سے بنو ہاتم کو چن لیا اور بنو ہاشم سے مجھے چن لیا۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٠٥‘ الطبقات الکبریٰ ج ١ ص ١٨‘ مسند احمد ج ٤ ص ١٠٧‘ البدایہ دالنہایہ ج ٢ ص ٢٠١‘ ١٤١٨ ھ)

حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ نے زمین کے دو حصے کئے اور مجھے ان میں سے سب سے اچھے حصے میں رکھا۔ پھر اس نصف کے تین حصے کئے اور مجھے اس تیسرے حصہ میں رکھا جو سب سے خیر ‘ اچھا اور سب افضل تھا ‘ پھر لوگوں میں سے عرب کو چن لیا ‘ پھر حضرت عبدالمطلب کی اولاد میں سے مجھ کو چن لیا ‘ (اس حدیث میں خیر کا لفظ ہے اور مومن اور کافر میں مون خیر ہے سو آپ کے تمام آباء مومن ہیں)(الطبقات الکبریٰ ج ١ ص ١٨‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٥٣٠٧‘ کنز العمال رقم الحدیث : ٣٢١٢٢ )

یہ حدیث آپ کے تمام آباء کے ایمان پر عمومی اور حضرت عبدالمطلب کے ایمان پر خصوصی دلیل ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : آپ پر میرے باپ فدا ہوں ! جب حضرت آدم جنت میں تھے تو آپ کہا تھے ؟ آپ نے مسکرا کر فرمایا : میں حضرت آدم کی پشت میں تھا اور جب مجھے کشتی میں سوار کرایا گیا تو میں اپنے باپ حضرت نوح کی پشت میں تھا اور جب مجھے (آگ میں) پھینکا گیا تو میں حضرت ابراہیم کی پشت میں تھا۔ میرے والدین کبھی بدکاری پر جمع نہیں ہوئے اور اللہ تعالیٰ مجھے ہمیشہ معزز پشتوں سے پاکیزہ رحموں کی طرف منتقل کرتا رہا۔ میری صفت مہدی ہے اور جب بھی دو شاخیں ملیں میں سب سے خیر (اچھی) شاخوں میں تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے نبوت کا میثاق اور اسلام کا عہد لیا اور تورات اور انجیل میں میرا ذکر پھیلایا اور ہر نبی نے میری صفت بیان کی اور زمین میرے نور سے چمک اٹھی اور بادل میرے چہرے سے برستا ہے اور مجھے اپنی کتاب کا علم دیا اور آسمانوں میں میرے شرف کو زیادہ کیا اور اپنے ناموں میں سے میں سے میرا نام بنایا پس عرش والا محمود ہے اور میں محمد ہوں ‘ الحدیث۔(البدایہ والنہایہ ج ٢ ص ٢١‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٨ ھ) 

حافظ ابوالفضل احمد بن علی بن حجرعسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ بیان کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا حضرت آدمی (علیہ السلام) کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے قریش اللہ عز و جل کے سامنے ایک نور تھے ‘ یہ نور تسبیح کرتا تھا اور فرشتے اس کی تسبیح کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔ جب اللہ نے حضرت آدم کو پیدا کیا تو یہ نور ان کی پشت میں رکھ دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پس اللہ نے حضرت آدم کی پشت میں اس نور کو زمین کی طرف اتارا ‘ پھر کشتی میں یہ نور حضرت نوح کی پشت میں رکھ دیا گیا اور حضرت ابراہیم کی پشت میں یہ نور آگ میں ڈالا گیا اور اللہ مجھے ہمیشہ مکرم پشتوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل کرتا رہا ‘ حتیٰ کہ مجھے میرے ان والدین سے نکالا جو کبھی بدکاری پر جمع نہیں ہوئے۔ حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نکاح سے پیدا کیا گیا ہوں اور بدکاری سے نہیں پیدا کیا گیا۔ حضرت آدم سے لے کر حتیٰ کہ میں اپنی والدہ سے پیدا ہوا اور مجھے زمانہ جاہلیت کی بدکاری سے کسی چیز نے نہیں چھوا۔ (المطالب العالیہ ج ٤ ص ١٧٧‘ رقم الحدیث :؍ ٤٢٥٧‘ ٤٢٥٦‘ مکہ مکرمہ)

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ نے اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث کا ذکر کیا ہے۔

امام ابن مردویہ نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ! جب حضرت آدم جنت میں تھے ‘ اس وقت آپ کہاں تھے ؟ آپ مسکرائے حتیٰ کہ آپ کی مبارک داڑھیں ظاہر ہوگئیں ‘ پھر آپ نے فرمایا : میں ان کی پشت میں تھا ‘ ان کو زمین پر اتارا گیا۔ اس وقت بھی میں ان کی پشت میں تھا ‘ میں اپنے باپ حضرت نوح کی پشت میں کشتی میں سوار ہوا اور اپنے باپ ابراہیم کی پشت میں مجھے آگ میں ڈالا گیا اور میرے ماں باپ کبھی ایک دوسرے کے ساتھ بدکاری میں جمع نہیں ہوئے اور اللہ مجھے ہمیشہ پاکیزہ پشتوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل کرتا رہا ‘ جبکہ وہ صناف اور مہذب تھے۔ جب بھی دو شاخیں باہم ملیں تو میں ان سے بہتر شاخوں میں تھا۔

اللہ تعالیٰ نے مجھ سے نبوت کا میثاق لیا اور مجھ کو اسلام کی ہدایت دی اور تورات اور انجیل میں میرا ذکر بیان کیا اور میری تمام صفات کو مشرق اور مغرب میں بیان کردیا اور مجھ کو اپنی کتاب کا علم دیا اور اپنے اسماء میں میرا ذکر بلند کیا اور اپنے اسماء میں سے میرا اسم بنایا ‘ سو عرش والا محمود ہے اور میں محمد ہوں اور مجھے حوض کے نزدیک کیا اور مجھے کوثر عطا کیا اور میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے اپنی امت کے سب سے بہتر قرن میں نکالا اور میری امت بہت حمد کرنے والی ہے اور نیکی کا حکم دینے والی ہے اور برائیے سے روکنے والی ہے۔(الدار المنشور ج ٦ ص ٢٩٩۔ ٢٩٨‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

حافظ ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان المعروف بابن شاہین المتوفی ٣٨٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام حجون پر بہت افسردگی اور غم کی حالت میں اترے اور جب تک آپ کے رب عز و جل نے چاہا آپ وہاں ٹھہرے رہے۔ پھر آپ وہاں سے بہت خوش خوش واپس ہوئے۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ مقام حجون پر بہت افسردگی کے عالم میں اترے تھے۔ پھر آپ بہت خوش خوش واپس ہوئے۔ آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری والدہ کو زندہ کردیا ‘ وہ مجھ پر ایمان لائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر موت کو لوٹا دیا۔ (الناسخ و المنسوخ رقم الحدیث : ٦٣٠‘ ص ٢٨٣‘ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ ١٤١٢ ھ)

علامہ ابوالقاسم عبدالرحمان بن عبداللہ السہیلی المتوفی ٥٨١ ھ لکھتے ہیں :

قاضی ابو عمران احمد بن ابی الحسن نے ایک سند کے ساتھ روایت کیا ہے جس میں چند مجہول راوی ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب سے یہ سوال کیا کہ وہ اپنے والدین کو زندہ کردے ‘ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے ان کو زندہ کردیا اور وہ دونوں آپ پر ایمان لے آئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر موت طاری کردی۔

اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کی رحمت اور قدرت کسی چیز سے عاجز نہیں ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے اہل ہیں کہ وہ آپ کو جس وصف سے چاہے اپنے فضل سے خاص کرے اور اپنے کرم سے آپ کو جس نعمت سے چاہے نواز دے۔ صلوٰات اللہ علیہ وآلہ وسلم 

(الروض الائف ج ١ ص ٢٩٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)

والدین کریمین کے ایمان پر امام فخر الدین رازی کے دلائل 

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

انبیاء علیہم اسلام کے آباء کافر نہ تھے ‘ اس کے متعدد دلائل ہیں :

پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الذی یرک حین تقوم۔ وتقلبک فی السجدین۔ (الشعرائ : ٢١٩۔ ٢١٨) کہا گیا ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ آپ کی روح ایک ساجد سے دوسرے ساجد کی طرف منتقل ہو رہی تھی ‘ سو اسی تقدیر پر یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام آباء مسلمان تھے اور اس وقت یہ قطعی طور پر ثابت ہوگا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کافر نہ تھے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ و تقلبک فی السجدین کی اور بھی تفسیریں ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تہجد فرضیت منسوخ ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اپنے اصحاب کے گھروں میں تفتیش کرتے تھے کہ وہ اپنے گھروں میں کیا کررہے ہیں کیونکہ آپ کو اس پر شدید حرص تھی کہ وہ اس کے بعد بھی رات کو عبادت کرتے رہیں۔ آپ نے دیکھا کہ ان کے گھروں سے اللہ تعالیٰ کے ذکر کرنے کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھیں۔ اس اعتبار سے وتقلبک فی الساجدین کا معنی ہے کہ اللہ آپ کے قیام کو دیکھتا ہے اور ساجدین میں آپ کے طواف کرنے اور گھومنے کو دیکھتا ہے اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ جب لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں تو وہ آپ کو دیکھتا رہتا ہے اور اس کا تیسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر آپ کا حال مخفی نہیں ہے۔ جب آپ کھڑے ہوتے ہیں اور ساجدین کے دینی مسائل اور معاملات میں مشغول ہوتے ہیں تو وہ آپ کو دیکھتا رہتا ہے اور اس کا چوتھا معنی ہے جب آپ اپنی نظر کو حرکت دے کر اپنے پیچھے سے نمازیوں کو دیکھتے ہیں تو وہ آپ کو دیکھتا رہتا ہے کیونکہ حدیث میں ہے اپنا اپنا رکوع اور سجود پورا پورا کیا کرو کیونکہ میں تم کو اپنے پس پشت بھی دیکھتا ہوں۔ پس ہرچند کہ اس آیت میں ان چاروں تفسیروں کا بھی احتمال ہے مگر ہم نے جس تفسیر کا ذکر کیا ہے اس کا بھی اس تفسیر میں احتمال ہے اور ہر تفسیر کے متعلق احادیث وارد ہیں اور ان تفسیروں کے درمیان کوئی تضاد اور منافات نہیں ہے ‘ پس اس آیت کو ان تمام تفسیروں پر محمول کرنا واجب ہے اور جب یہ صحیح ہے تو ثابت ہوگیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد بت پرستوں میں سے نہ تھے۔

سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آباء مشرک نہ تھے۔ اس پر دوسری دلیل یہ ہے کہ حدیث میں آپ کا ارشاد ہے کہ میں ہمیشہ پاکیزہ پشتوں سے پاکیزہ رحموں کی طرف منتقل ہوتا رہا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا انما المشرکون نجس (التوبۃ : ٢٨) مشرکین نجس کے سوا اور کچھ نہیں ‘ یعنی پاک بالکل نہیں پس اس سے واضح ہوگیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آبائو اجداد میں سے کوئی بھی مشرک نہیں ہے۔ (اسرار التنزیل و انوار التاویل ص ٢٦٨۔ ٢٦٧‘ مطبوعہ دارالکتب والو ثائق بغداد عراق ‘ ١٩٩٠ ئ)

والدین کریمین کے ایمان پر علامہ قرطبی کے دلائل 

حافظ ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان المعروف بابن شاہین المتوفی ٣٨٦ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام حجون پر بہت افسردگی اور غم کی حالت میں اترے اور جب تک آپ کے رب عز و جل نے چاہا آپ وہاں ٹھہرے ‘ پھر آپ وہاں سے بہت خوش خوش واپس ہوئے ‘ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ مقام حجون پر بہت افسردگی کے عالم میں اترے تھے ‘ پھر آپ بہت خوش خوش واپس ہوئے۔ آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری والدہ کو زندہ کردیا ‘ وہ مجھ پر ایمان لائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر موت کو لوٹا دیا۔ (الناسخ و المنسوخ رقم الحدیث : ٦٣٠‘ ص ٢٨٤‘ مطبوعہ مکتبۃ دارالباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٢ ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

ابوبکر احمد بن علی الخطیب نے کتاب ” السابق و اللاحق “ میں اور ابو حفص عمر بن شاہین نے ” الناسخ و المنسوخ “ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کا حج ہمارے ساتھ کیا۔ آپ میرے ساتھ الحجون گھاٹی میں گزرے ‘ اس وقت آپ رو رہے تھے اور غمگین تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رونے کی وجہ سے میں بھی رونے لگی۔ آپ وہاں اترے اور فرمایا : اے حمیرا ٹھہر جائو ‘ میں اونٹ کی ایک جانب ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ آپ کافی دیر وہاں ٹھہرے رہے ‘ پھر خوشی خوشی مسکراتے ہوئے واپس آئے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں ! آپ یہاں پر غم اور افسردگی کی کیفیت میں اترے تھے ‘ حتیٰ کہ یا رسول اللہ ! آپ کے رونے کی وجہ سے میں بھی رونے لگی ‘ پھر آپ اس حال میں میرے پاس واپس آئے کہ آپ خوشی خوشی مسکرا رہے تھے۔ یا رسول اللہ ! اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا میں اپنی ماں آمنہ کی قبر کے پاس سے گزرا میں نے اپنے رب اللہ سے یہ سوال کیا کہ وہ ان کو زندہ کردے ‘ سو اللہ تع الیٰ نے ان کو زندہ کردیا تو وہ مجھ پر ایمان لے آئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ عز و جل نے ان کی موت کو پھر لوٹا دیا۔ یہ خطیب کی عبارت ہے اور علامہ سھیلی نے ایسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے جس میں مجہول راوی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد اور والدہ دونوں کو زندہ کیا اور وہ دونوں آپ پر ایمان لائے۔ اس حدیث کے معارض وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی والدہ کے لئے استغفار کرنے کی اجازت طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے لئے استغفار کرنے سے منع فرمایا ‘ علامہ قرطبی فرماتے ہیں الحمد اللہ ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ آپ کو اپنی والدہ ماجدہ کے لئے استغفار کرنے سے منع کرنے کا واقعہ پہلے کا ہے اور آپ کے والدین کریمین کو زندہ کرنے کا واقعہ بعد کا ہے کیونکہ حضرت عائشہ (رض) کی حدیث میں ہے کہ والدہ کو زندہ کرنے کا واقعہ حجۃ الوداع کے موقع کا ہے ‘ اس طرح امام ابن شاہین نے الناسخ و المنسوخ میں اس کو ناسخ قرار دیا ہے (رقم الحدیث ٦٣٠) اور استغفار کی اجازت نہ دینے کو منسوخ قرار دیا ہے۔ (رقم الحدیث : ٦٢٦‘ ص ٢٨٣) اسی طرح صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ ! میرا باپ کہاں ہے ؟ تو آپ نے فرمایا دوزخ میں ! جب وہ واپس جانے لگا تو آپ نے فرمایا : میرا باپ اور تمہارا باپ دوزخ میں ہے۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٣‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧١٨)

بظاہر یہ حدیث والدین کو زندہ کرنے کی حدیث کے معارض ہے لیکن اس حدیث میں میرے باپ سے مراد میرا چچا ہے یعنی ابو طالب ‘ پھر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ایک اور اعتراض یہ ہے کہ والدین کو زندہ کرنے کے بیان والی حدیث موضوع ہے۔ قرآن مجید اور اجماع کے مخالف ہے کیونکہ جو کفر پر مرا ‘ اس کی حیات لوٹانے کے بعد اس کے ایمان لانے سے اس کو کوئی نفع نہیں ہوگا بلکہ اگر وہ موت کے فرشتوں کو دیکھنے کے وقت بھی ایمان لے آئے تو اس کو ایمان لانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ‘ چہ جائیکہ زندہ کئے جانے کے بعد اس کے ایمان لانے سے اس کو کوئی فائدہ ہوا !

قرآن مجید میں ہے :

ترجمہ : (النسائ : ١٨)… اور ان لوگوں کی توبہ (مقبول) نہیں ہے جو (مسلسل) گناہ کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آئے تو وہ کہے کہ میں نے اب توبہ کرلی اور نہ ان لوگوں کی توبہ (مقبول) ہے جو کفر کی حالت میں مرجاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے۔ 

اور کتب تفسیر میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میرے ماں باپ نے کیا کیا تو یہ آیت نازل ہوئی :

ترجمہ : (البقرہ : ١١٩)… اور آپ سے دوزخیوں کے متعلق سوال نہیں کیا جائیگا۔

یہ روایت محمد بن کعب قرظی اور ابو عاصم سے منقول ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٥٥٩‘ ١٥٥٨ )

علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ حافظ ابو الخطاب عمر بن وحیہ نے کہا ہے کہ یہ استدلال مخدوش ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضائل اور خصائص آپ کے وصال تک متواتر اور مسلسل ثابت ہوتے رہے ہیں۔ لہٰذا آپ کے والدین کریمین کو زندہ کرنا بھی آپ کے ان خصائص میں سے ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مشرف کیا ہے۔

نیز آپ کے والدین کریمین کو زندہ کرنا عقلاً اور شرعاً ممتنع نہیں ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کے مقتول کو زندہ کیا گیا اور اس نے اپنے قاتل کی خبر دی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے ‘ اسی طرح ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے مردوں کی ایک جماعت کو زادہ فرمایا اور جب یہ امور ثابت ہیں تو آپ کے والدین کریمین کو زندہ کرنے اور پھر ان کے ایمان لانے سے کیا چیز مانع ہے ؟ جب کہ اس میں آپ کی زیادہ کرامت اور فضیلت ہے اور جب کہ اس مسئلہ میں حدیث بھی وارد ہے۔

اور معترض نے جو یہ کہا ہے کہ جو شخص کفر پر مرجائے اس کی توبہ مفید نہیں ہوتی تو اس کا یہ اعتراض اس حدیث سے مردود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سورج کو غروب ہونے کے بعد لوٹا دیا تھا۔ امام طحاوی نے کہا یہ حدیث ثابت ہے پس اگر سورج کا لوٹایا جانا مفید نہ ہوتا تو اس کو نہ لوٹایا جاتا۔ پس اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کریمین کو زندہ کرنا ان کے ایمان لانے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کرنے کے لئے مفید تھا اور بیشک ظہر قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کی توبہ اور ان کے اسلام کو قبول کرلیا تھا حالانکہ وہ عذاب کی علامات نمودار ہونے کے بعد ایمان لائے تھے اور اس کے بعد انہوں نے توبہ کی تھی اور سورة البقرہ : ١١٩ کا جواب یہ ہے کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے والدین کے زندہ کئے جانے اور ان کے ایمان لانے سے پہلے فرمایا تھا اور اللہ تعالیٰ ہی اپنے غیب کو زیادہ جاننے والا ہے۔(التذکرۃ ج ١ ص ٣٧۔ ٣٥‘ موضحا ‘ مطبوعہ دارالبخاری ‘ ١٤١٧ ھ)

علامہ قرطبی کے دلائل بہت قوی ہیں البتہ انہوں نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کے ہاتھ پر مردوں کی ایک جماعت کو زندہ فرمایا سو یہ ثابت نہیں ہے۔

والدین کریمین کے ایمان پر علامہ سہیلی کے دلائل 

علامہ ابو القاسم عبدالرحمان بن عبداللہ السہیلی التوفی ٥٩١ ھ لکھتے ہیں :

حدیث میں ہے : حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! میرا باپ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا ‘ دوزخ میں ہے۔ جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرا باپ اور تمہارا باپ دوزخ میں ہیں۔ “ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٣) اور ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کے متعلق ایسی کوئی بات کہیں اور آپ کو ایذاء پہنچائیں کیونکہ آپ نے فرمایا ہے مردوں کو برا کہہ کر زندوں کو ایذاء نہ پہنچائو۔ وہ حدیث یہ ہے :

امام ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر متوفی ٥٧١ ھ روایت کرتے ہیں :

عمرو بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عکرمہ بن ابی جہل (رض) مدینہ میں آئے تو لوگ جمع ہو کر کہنے لگے : یہ ابو جہل کا بیٹا ہے ‘ یہ ابو جہل کا بیٹا ہے ‘ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مردوں کو برا کہہ کر زندوں کو ایذاء نہ پہنچائو۔

(تاریخ دمشق الکبیر جز ٤٣ ص ١٩٥۔ ١٩٤‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ کنز العمال رقم الحدیث : ٣٧٤١٧)

ترجمہ : (الاحزاب : ٥٧ )… بیشک جو لوگ اللہ کو اور اس کے رسول کو ایذاء پہنچاتے ہیں ‘ ان پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور اس نے ان کے لئے درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے۔

اور حضرت عکرمہ کے والد کو کافر کہنا حضرت عکرمہ کے لئے باعث اذیت ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کو کافر کہنا آپ کے لئے کس قدر باعث ایذاء ہوگا ! اس کے بعد علامہ سہیلی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کو زندہ کئے جانے کے متعلق دو حدیثیں لکھی ہیں جن کو ہم پہلے نقل کرچکے ہیں اور لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور قدرت اس سے عاجز نہیں ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے اہل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو جس چیز کے ساتھ چاہے خاص کرے۔(الروض الائف ج ١ ص ٢٩٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)

والدین کریمین کے ایمان پر علامہ ابی مالکی کے دلائل 

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ میرا باپ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا درزخ میں ‘ جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا تو آپ نے فرمایا میرا باپ اور تمہارا باپ دوزخ میں ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی دلجوئی کی وجہ سے فرمایا تھا تاکہ اس شخص کو تسلی ہو ‘ (اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس حدیث میں باپ کا اطلاق چچا پر ہو اور اس سے مراد ابو طالب ہوں) اس کے بعد علامہ ابی مالکی نے علامہ سہیلی کا پورا کلام ذکر کیا ہے جس کو ہم نقل کرچکے ہیں۔ اس کے بعد علامہ ابی مالکی نے علامہ نووی پر رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ کے والدین اہل فترت میں سے تھے اور اہل فترت پر عذاب نہیں ہوتا کیونکہ اہل فترت ان دو رسولوں کے درمیان کے لوگوں کو کہتے ہیں جن کی طرف پہلے رسول کو بھیجا نہ گیا ہو اور دوسرے رسول کو انہوں نے پایا نہ ہو ‘ جیسے وہ عرب جن کی طرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث نہیں کئے گئے اور نہ انہوں نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پایا ہو اور اس تعریف کے اعتبار سے فترت ہر ان لوگوں کو شامل ہے جو دو رسولوں کے درمیان ہوں ‘ جیسے حضرت ادریس اور حضرت نوح (علیہما السلام) کے درمیان کے لوگ اور حضرت نوح اور حضرت ھود (علیہما السلام) کے درمیان کے لوگ اور ان کے درمیان آٹھ سو سال ہیں اور حضرت صالح اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کے دریمان کے لوگ اور ان کے دریمان چھ سو تیس سال ہیں لیکن فقہاء جب فترت میں کلام کرتے ہیں تو اس سے مراد ان لوگوں کو لیتے ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان کے لوگ ہیں۔ (اکمال اکمال المعلم ج ١ ص ٦١٧۔ ٦١٦‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ ابی مالکی کی تقریر کا مطلب یہ ہے کہ بالفرض اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کریمین کا زندہ کیا جانا اور ان کا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا نہ بھی تسلیم کیا جائے ‘ پھر بھی آپ اہل فترت میں سے ہیں اور العیاذ باللہ اہل دوزخ میں سے نہیں ہیں۔

نیز علامہ ابی نے لکھا ہے کہ اہل فترت کی تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جنہوں نے شرک کیا اور دوسری قسم وہ ہے جنہوں نے شرک کیا اور دین میں تبدیلی کی اور اپنی طرف سے چیزوں کو حلال اور حرام کیا۔ ان دونوں قسم کے اہل فترت کو عذاب ہوگا اور تیسری قسم کے اہل فترت وہ ہیں جنہوں نے نہ شرک کیا نہ کسی نبی کی شریعت میں تغیر اور تبدل کیا اور نہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال یا حرام کیا اور نہ کسی دین کو اختراع کیا وہ ساری عمر غفلت اور جاہلیت میں رہے ‘ ان کو بالکل عذاب نہیں ہوگا اور آپ کے والدین کریمین اہل فترت کی اسی تیسری قسم میں سے تھے۔ (اکمال اکمال المعلم ج ١ ص ٦٢١۔ ٢٦٠‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

والدین کریمین کے ایمان کے ثبوت میں حافظ سیوطی کے رسائل 

متقدمین کی کتب حدیث میں ‘ احادیث کا سب سے بڑا مجموعہ امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤٣ ھ کی مسند احمد بن حنبل ہے۔ اس میں ٢٨١٩٩‘ کل مرفرعہ و موقوفہ احادیث ہیں (مطبوعہ عالم الکتب بیروت ‘ ١٤١٩ ھ) اور متاخرین کی کتب حدیث میں احادیث کا سب سے بڑا مجموعہ حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ کی جمع الجوامع ہے اس میں ٢٩٠٢٥ احادیث مرفوعہ ہیں ‘ ١٥٣٠٣ آثار صحابہ ہیں ‘ ١٢٥٧‘ احادیث موضوعہ و ضعیفہ ہیں اور اس میں درج شدہ کل احادیث کی تعداد ٤٥٥٨٥ ہے (مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ) اور مطبوعہ کتب حدیث میں یہ احادیث کا سب سے بڑا مجموعہ ہے اور حدیث کی سب سے زیادہ خدمت بھی حافظ سیوطی نے کی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کا رنگ بھی سب سے زیادہ ان کی تصانیف میں جھلکتا ہے اور سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان پر انعام بھی بہت زیادہ ہے ‘ علامہ عبدالوھاب الشعرانی المتوفی ٩٧٣ ھ نے لکھا ہے کہ حافظ سیوطی کو بیداری میں پچھتر بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت ہوئی۔(المیزان الکبریٰ ج ١ ص ٥٥۔ ٥٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٨ ھ)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کے زندہ کئے جانے ‘ ان کے ایمان لانے اور ان کے غیر معذب اور جنتی ہونے کے متعلق حافظ سیوطی کے حسب ذیل رسائل ہیں :

(١)… المقامۃ السندمیہ فی النبۃ المصطفویہ ‘ مطبوعہ مجلس دائرہ المعارف النظامیہ حیدرآباد دکن ‘ ١٣١٦ ھ 

(٢)… تنزیہ الانبیاء عن تشبیہ الاغبیائ ‘ مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ حیدر آباد دکن ‘ ١٣١٦ ھ 

(٣)… السبیل الجلیۃ فی الآباء العلیۃ ‘ مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ ‘ حیدرآباد دکن ‘ ١٣١٦ ھ 

(٤)… مسالک الحنفاء فی والدی المصطفیٰ ‘ مجلس دائرۃ العارف انتظامیہ ‘ حیدر آباد دکن ‘ ١٣١٦ ھ 

(٥)… نشر العلمین المنیفین فی احیاء الابوین الشریفین ‘ مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ ‘ حیدر آباد دکن ١٣١٦ ھ 

(٦) الدرج المنیفہ فی الآباء الشریفہ ‘ مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ ‘ حیدرآباد دکن ‘ ١٣١٦ ھ 

(٧) التعظیم والمنۃ فی ان ابوی رسول اللہ فی الجنۃ ‘ مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ ‘ حیدر آباد دکن ‘ ١٣١٦ ھ 

المقامۃ السند سیۃ فی النسبۃ المصطفویۃ کا خلاصہ 

(آپ کے والدین کو زندہ کرنا اور ان کا ایمان لانا)

یہ اس موضوع پر حافظ سیوطی کا پہلا رسالہ ہے اور اس کے بیس صفحات ہیں۔

ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خصائص میں سے ایک عظیم خصوصیت یہ ہے کہ اللہ نے آپ کی عظمت اور شان ظاہر کرنے کے لئے آپ کے نسب کو طاہر رکھا ہے اور آپ کے آباء کو ہر قسم کے میل کی آلودگی سے محفوظ رکھا ہے اور آپ کے آباء و اجداد میں سے ہر اب اور جد کو ان کے زمانہ کا سب سے بہتر فرد بنایا ہے ‘ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے : میں ہر زمانہ میں بنو آدم کے سب سے افضل لوگوں سے بھیجا گیا ہوں حتیٰ کہ جس زمانہ میں ‘ میں ہوں ‘ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں بہ اعتبار نسب کے تم سب سے افضل ہوں اور بہ اعتبار سسرال اور خاندانی شرافت اور محاسن کے بھی تم سب سے افضل ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھے ہمیشہ پاک پشتوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل کرتا رہا۔ جب بھی دو شاخیں آپس میں ملیں تو میں سب سے بہتر شاخ میں ہوتا تھا تو میں خود بھی تم سے افضل ہوں اور میرے باپ بھی تم سے افضل ہیں۔

تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ جس نبی کو بھی معجزہ دیا گیا یا جو خصوصی دی گئی اس کی مثل ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ضرور دی گئی ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ معجزہ دیا گیا کہ وہ قبر کے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ پس ضروری ہوا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اس مثل ہو ‘ ہرچند کہ بکری کے گوشت نے آپ سے کلام کرکے کہا ‘ مجھ میں زہر ملا ہوا ہے اور کھجور کے تنے نے بھی آپ سے کلام کیا اور یہ بھی مردوں کو زندہ کرنے کی مثالیں ہیں ‘ لیکن اس کے قریب ترین مثال یہ ہے کہ آپ نے اپنے والدین کو زندہ کیا ‘ اور وہ آپ پر ایمان لائے۔

آپ کے والدین کا اہل فترت سے ہونا اور غیر معذب ہونا 

اور آپ کے والدین اہل فترت میں سے ہیں اور اہل فترت کے متعلق صحیح اور حسن احادیث وارد ہیں اور ان کے غیر معذب ہونے کے ثبوت میں قرآن مجید کی یہ آیتیں ہیں :

ترجمہ : (بنی اسرائیل : ١٥)… ہم اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ رسول نہ بھیج دیں۔

ترجمہ : (طٰہٰ : ١٣٥)… اور اگر ہم اس سے پہلے انہیں عذاب سے ہلاک کردیتے تو وہ یقناً یہ کہہ دیتے کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہمارے پاس اپنا رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے تیری آیتوں کی پیروی کرلیتے۔

ترجمہ : (الانعام : ١٣١)… یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کی وجہ سے ہلاک کرنے والا نہیں ہے جبکہ اس بستی والے غافل ہوں۔

حافظ سیوطی نے اس قسم کی بہت آیات نقل فرمائی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل فترت کو عذاب نہیں دیتا اور آپ کے والدین اہل فترت سے تھے۔ سو آپ کے والدین کو عذاب نہیں ہوگا۔

آپ کے والدین کا مومن ہونا اور آپ کے نسب کی طہارت پر حضرت عباس کے اشعار 

اس مسئلہ میں امام رازی نے ایک اور مسلک اختیار کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ کے والدین مشرک نہیں تھے بلکہ وہ دونوں توحید پر تھے اور ملت ابراہیم پر تھے اور انہوں نے کہا ہے کہ آپ کے تمام آباء و اجداد اسی طرح موحد اور مومن تھے اور انہوں نے الذی یراک حین تقوم۔ و تقلبک فی الساجدین (الشعراء : ٢١٩۔ ٢١٨) سے استدلال کیا ہے (امام رازی کی تقریر ہم بیان کرچکے ہیں) اور راجح یہ ہے آزر آپ کے چچا تھے۔

حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر نے آپ کی شان میں یہ اشعار لکھے ہیں :

نبی الھدی المختار من آل ہاشم فمن فخر ھم فلیقصر المتطاول 

ہدایت دینے والے نبی جو آل ہاشم میں سے پسندیدہ ہیں آل ہاشم کے فضائل کے مقابلہ میں اپنے مفاخر پر تکبر کو کم کریں 

تنقل فی اصلاب قوم تشرفوا بہ مثل ماللبدر تلک المنازل 

اس قوم کے لئے شرف ہے جس کی پشتوں میں آپ منتقل ہوتے رہے ان ہی کے ساتھ بدر کامل کی منازل کو تشبیہ دی جاتی ہے 

حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حضرت آدم کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے قریش ایک نور تھے اور یہ نور فرشتوں کی تسبیح کے ساتھ تسبیح کرتا تھا پھر یہ نور حضرت آدم کی پشت میں ڈال دیا گیا پھر اللہ تعالیٰ اس نور کو پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل کرتا رہا ‘ آپ کے چچا حضرت عباس کے اشعار بھی اس حدیث کی تائید کرتے ہیں :

من قبلھا طبست فی الطلال و فی مستودع حیث یخصف الورق 

اس سے پہلے آپ سایوں میں پاکیزگی کے ساتھ تھے حضرت آدم جنت میں جس جگہ تھے جہاں درختوں کے پتے چمٹے ہوئے تھے 

ثم ھبطت البلاد لا بشر انست و لا مضغۃ ولا علق 

پھر آپ شہروں میں اتر آئے اس وقت آ نہ مکمل بشر تھے نہ گوشت کی بوٹی اور نہ جما ہوا خون تھے 

بل نطفۃ ترکب السفین وقد الجم نسرا و اھلہ الغرق 

بلکہ آپ سام بن نوح کی پشت میں نطفہ تھے جب آپ کشتی میں سوار ہوئے نسر نامی بت کے منہ میں لگام ڈال دی گئی اور اس کے ماننے والے غرق ہوگئے 

تنقل من صالب الی رحم اذا مضی عالم بداطبق 

آپ پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہو رہے تھے جب ایک عالم کے بعد دوسرا عالم گزرتا رہا (اور آپ اصل سے فرع کی طرف منتقل ہو رہے تھے)

وردت ناراً لخلیل مسترا فی صلبہ انست کیف یحترق 

آپ ابراہیم خلیل اللہ کی پشت میں پوشیدہ طور پر موجود تھے جس کی پشت میں آپ موجود ہوں اس کو آگ کیسے جلا سکتی ہے !

جب ان کو آگ میں ڈالا گیا 

حتیٰ احتوی بیتک المھیمن من خندف علیاء تحتھا النطق 

آپ کے شرف کی بلندی نے نسب کی بلندیوں کو جمع کرلیا 

وانت لماولدت اشرقت الارض وضائت بنورک الافق 

اور جب آپ کی ولادت ہوئی تو تمام زمین روشن ہوگئی اور آپ کے نور سے آسمانوں کے کنارے چمکنے لگے 

فنحن فی ذلک الضیاء و فی النور و سیل الرشاد نخترق 

سو ہم اس ضیاء اور نور میں ہدایت کے راستے تلاش کررہے ہیں 

(المقامۃ السندسیہ ص ٤۔ ٣‘ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف انتظامیہ حیدر آباد دکن ‘ ١٣١٦ ھ)

حافظ سیوطی نے ان اشعار کو حافظ ابن حجر سے نقل کیا ہے ان کے علاوہ دیگر حفاظ نے بھی ان اشعار کو خریم بن اوس سے روایت کیا ہے۔

حافظ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ اپنی سند کے ساتھ خریم بن اوس بن حارثہ بن لام سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تبوک سے واپس لوٹے تو میں اسلام لایا ‘ اس وقت میں نے سنا حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) یہ کہہ رہے تھے یا رسول اللہ ! میں آپ کی مدح کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ‘ کہو ‘ اللہ تعالیٰ تمہارے منہ کو ملمع کاری اور بناوٹ سے محفوظ رکھے۔ پھر حضرت عباس (رض) نے مذکور الصدر اشعار پڑھے۔

(دلائل النبوۃ ج ٥ ص ٦٨۔ ٦٧‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

حافظ بیہقی کے علاوہ ‘ حافظ ابن کثیرمتوفی ٧٧٤ ھ ‘ حافظ ابن قیم متوفی ٧٥١ ھ ‘ امام ابو القاسم لسیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ ‘ امام عبداللہ حاکم نیشا پوری متوفی ٤٠٥ ھ ‘ علامہ ذہبی متوفی ٨٤٨ ھ ‘ حافظ ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر متوفی ٥٧١ ھ ‘ علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ ‘ علامہ احمد قسطلانی متوفی ٩١١ ھ ‘ علامہ محمد بن عبدالباقی متوفی ١١٢٤ ھ ‘ علامہ محمد بن یوسف الشامی متوفی ٩٤٢ ھ ‘ حافظ نور الدین الہیثمی متوفی ٨٠٧ ھ ‘ نے بھی ان اشعار کو اپنی تصانیف میں ذکر کیا ہے۔ ان کے حوالہ جات ترتیب وار حسب ذیل ہیں :

البدایہ والنہایہ ج ٣ ص ٦٢٦‘ ١٤١٨ ھ ‘ زادالمعادج ٣ ص ٤٧٠‘ ١٤١٩ ھ ‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٤١٦٧‘ امستدرک ج ٣ ص ٣٢٧‘ قدیم ‘ تلخیص المستدرک ج ٣ ص ٣٢٧‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٣ ص ٢٣٢۔ ٢٣١‘ الجامع الاحکام قرآن جز ١٣ ص ١٣٥‘ المواہب ج ١ ص ٣٥٢‘ دارالکتب العلمیہ ‘ شرح المواہب للز رقانی ج ٣ ص ٨٥۔ ٨٤‘ سہل الھدیٰ والرشاد ج ٥ ص ٤٧٠۔ ٤٦٩‘ حافظ سیوطی نے المقامۃ السندسیہ میں علامہ سہیلی اور علامہ ابی کی مفصل عبارات بھی لکھی ہیں۔ ان عبارات کا خلاصہ ہم ان کے عنوان سے لکھ چکے ہیں۔ اس رسالہ کے کل بیس صفحات ہیں۔

تنزیہ الانبیاء عن تشبیہ الاغبیاء کا خلاصہ

(آپ کی تعظیم آپ کے والدین کے ایمانن کو مستلزم ہے)

یہ دوسرا رسالہ ہے اور اس کے ١٩ صفحات ہیں۔ اس میں حافظ سیوطی نھے دلائل سے یہ بیان کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر اس طرح نہ کیا جائے جس سے آپ کا کوئی عیب یا نقص معلوم ہو ‘ ایک شخص نہ کہہ دیا تھا کہ اگر میں نے بکریاں چرائی ہیں تو کیا ہوا ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں۔ اس پر قاضی نے اس پر تعزیر لگانے کا حکم دیا۔ بعض علماء نے قاضی کے اس فیصلہ کو غلط کہا۔ اس پر حافظ سیوطی نے یہ رسالہ لکھا اور یہ ثابت کیا کہ آپ کا ذکر تعظیم اور تکریم سے کرنا چاہیے اور ایسا کوئی کلام نہ بولا جائے جس سے آپ کی تنقیص ہو۔ پھر یہ نقل کیا کہ صحیح مسلم میں ہے آپ نے فرمایا میرا باپ اور تیرا باپ دوزخ میں ہے۔ پھر اس کی شرح میں علامہ سہیلی کی عبارت نقل کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کو دوزخی کہنا آپ کے لئے باعث ایذاء ہے اور آپ کو ایذاء پہنچانا کفر ہے۔ علامہ سہیلی کی پوری عبارت اور اس حدیث کی توجیہ ہم اس سے پہلے نقل کرچکے ہیں۔

السبیل الجلیۃ فی الاباء العلیہ کا خلاصہ 

یہ اس موضوع پر تیسرا رسالہ ہے ‘ رسالہ ١٧ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں رسول الہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کے نجات یافتہ اور جنتی ہونے کے سلسلہ میں دلائل کے چار سبل (طریقے) بیان کئے ہیں :

آپ کے والدین کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی سو وہ غیر معذب ہیں 

پہلی سبیل (پہلا طریقہ) یہ ہے کہ آپ کے والدین کو زمانہ جاہلیت میں اسلام کی دعوت نہیں پہنچی اور امام غزالی نے مستصفیٰ میں اور امام رازی نے محصول میں اور قاضی ابوبکر الباقلانی نے تقریب میں اور متعدد آئمہ اصول نے اپنی کتابوں میں یہ اصول بیان کیا ہے کہ جس کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی وہ مکلف نہیں ہے اور یہ اصول اس آیت سے مستنبط ہے :

ترجمہ : (الانعام : ١٣١)… یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کی وجہ سے ہلاک کرنے والا نہیں ہے جب کہ اس بستی والے غافل ہوں۔

اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ ایسا شخص نجات یافتہ ہے اور چونکہ آپ کے والدین بھی اسلام کی دعوت سے غافل تھے سو وہ نجات یافتہ ہیں۔

آپ کے والدین اصحاب فترت سے ہیں اس لئے وہ نجات یافتہ ہیں 

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے والدین اصحاب فترت میں سے ہیں اور اصحاب فترت کے متعلق متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن ان کا امتحان لیا جائے گا اور جو امتحان میں کامیاب ہوگا اس کو جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ امام ابن جریر ‘ امام ابن ابی حاتم اور امام ابن المنذر نے تین مختلف سندوں کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اہل فترت کو اور کم عقل کو اور بہرے اور گونگے اور بوڑھوں کو جمع فرمائے گا جنہوں نے اسلام کا زمانہ نہیں پایا پھر ان کی طرف ایک رسول بھیجے گا جو ان سے کہے گا کہ دوزخ میں داخل ہو جائو۔ وہ کہیں گے کیوں ’ ہمارے پاس تو کوئی رسول نہیں آیا تھا ! آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم اگر وہ اس میں داخل ہوجاتے تو وہ ان پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجاتی۔ پھر ان کی طرف ایک رسول بھیجے گا ‘ پھر جس کے متعلق اللہ چاہے گا وہ اس رسول کی اطاعت کرے گا۔ پھر حضرت ابوہریرہ نے کہا اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو :

ترجمہ : (بن اسرائیل : ١٥)… ہم اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ رسول نہ بھیج دیں۔

(جامع البیان رقم الحدیث : ١٦٧٢٢‘ تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٣٢١٣‘ الجامع الاحکام القرآن جز ١٠ ص ٢٠٩)

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوہریرہ نے اس آیت سے یہ سمجھا تھا کہ اس آیت میں رسول سے مراد عام ہے ‘ خواہ وہ رسول دنیا میں بھیجا جائے یا قیامت کے دن ‘ جب اہل فترت سے کہے گا دوزخ میں داخل ہو جائو۔

حافظ ابن حجر نے کہا آپ کے والدین کے متعلق گمان یہ ہے کہ وہ سب زمانہ فترت میں فوت ہوگئے تھے اور قیامت کے دن جب ان سے بطور امتحان کہا جائے گا کہ دوزخ میں داخل ہو جائو تو وہ اس امتحان میں کامیاب ہوں گے اور قیامت کے دن رسول کی اطاعت کرکے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے اور ان پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے گی اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو یہ توفیق دے گا کہ وہ قیامت کے دن رسول کی اطاعت کریں گے۔

اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ امام ابو سعد نے ” شرف نبوت “ میں حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے اپنے رب سے یہ سوال کیا کہ میرے اہل بیت میں سے کسی کو دوزخ میں داخل نہ کرنا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عطا کردیا اور امام ابن جریر نے والسوف یعطیک ربک فترضی کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا میں سے یہ ہے کہ آذپ کے اہل بیت میں سے کسی کو دوزخ میں داخل نہ کیا جائے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٩٠٥٣) اور ان میں سے بعض احادیث بعض کو مضبوط کرتی ہیں کیونکہ حدیث ضعیف جب متعدد اسانید سے مروی ہو تو اس میں قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ حافظ سیوطی کا منشاء یہ ہے کہ ان احادیث کی بناء پر والدین کریمین بغیر امتحان کے جنت میں داخل ہوں گے کیونکہ وہ بھی آپ کے اہل بیت سے ہیں اور اصحاب فترت کی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دوزخ سے نجات ہوگی۔

آپ کے والدین کو زندہ کرنا اور ان کا ایمان لانا اور اس کے مخالف احادیث کی تاویل 

تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کردیا حتیٰ کہ وہ آپ پر ایمان لائے اور اس طریقہ کی طرف اکثر آئمہ دین اور حفاظ حدیث نے میلان کیا ہے۔ اس حدیث کا علامہ السہیلی نے الروض الانف میں ذکر کیا ہے۔ ابن جوزی نے اس کو موضوع کہا ہے لیکن تحقیق یہ ہے کہ یہ موضوع نہیں ضعیف ہے اور بہت آئمہ اور حفاظ نے کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف کی وہ قسم ہے جس کا فضائل اور مناقب میں ذکر کنا جائز ہے۔ ان حفاظ میں سے حافظ ابوبکر خطیب بغدادی ہیں۔ ابو القاسم بن عساکر ‘ حافظ ابن شاہین ‘ حافظ سہیلی ‘ امام قرطبی ‘ محب الدین طبری ‘ علامہ ناصر الدین اور فتح الدین وغیرہ ہیں :

اور جب ان طریقوں سے ثابت ہوگیا کہ آپ کے والدین نجات یافتہ اور جنتی ہیں تو جو احادیث ان کے خلاف ہیں وہ ان سے پہلے کی ہیں جیسا کہ بعض احادیث میں ہے کہ مشرکین کے دو بچے دوزخ میں ہیں پھر یہ آیت نازل ہوگئی :

ترجمہ (بنو اسرائیل : ١٥)… اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

تو اب اس آیت پر عقیدہ ہوگا نہ کہ پہلی احادیث پر تو جن احادیث سے والدین کریمین کا جنتی ہونا ثابت ہے ان پر عقیدہ ہوگا نہ کہ ان کی مخالف احادیث پر۔

آٰپ کے والدین ملت ابراہیم پر تھے 

چوتھا طریقہ یہ ہے : آپ کے والدین کریمین ملت ابرہیم پر تھے جیسا کہ زید بن عمرو بن نفیل زمانہ جاہلیت میں تھے اور ان کی مثل دوسرے ابن الجوزی نے ” التلقیح “ میں اس عنوان کا ایک باب قائم کیا ہے ” وہ لوگ جو زمانہ جاہلیت میں بت پرستی سے کنارہ کش رہے تھے “ ان میں ایک جماعت کا ذکر کیا ہے جن میں زید مذکور بھی ہیں اور قس بن ساعدہ ہیں اور ورقہ بن نوفل ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) وغیرہ ہیں ‘ سو آپ کے والدین بھی اسی جماتع میں سے ہیں۔ اس طریقہ کی طرف امام فخر الدین رازی نے میلان کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) تک آپ کے تمام آباء توحید پر قائم ہیں اور اپنی تفسیر صغیر اسرار التنزیل میں الذی یدک حین تقوم۔ وتقلبک فی السجدین (الشعراء : ٢١٩۔ ٢١٨) میں انہوں نے اس کو بیان کیا ہے۔ (ہم اس کو باحوالہ بیان کرچکے ہیں ‘ سعیدی غفرلہ)

امام رازی کے موقف پر مجھے عام دلائل بھی حاصل ہوئے اور خاص دلائل بھی۔ عام دلائل دو مقدموں سے مرکب ہیں ‘ اول مقدمہ یہ ہے کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آپ کے اجداد میں سے ہر جد اپنے زمانہ میں سب سے خیر اور افضل تھے کیونکہ امام بخاری نے روایت کیا ہے کہ میں قرناً فقرناً بنو آدم کے خیر قرون (ہر زمانہ کے سب سے بہترین لوگوں) سے مبعوث ہوا ہوں حتیٰ کہ جس زمانہ کے لوگوں میں ‘ میں ہوں (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٥٧) دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ مصنف عبدالرزاق اور مسند احمد کی احادیث سے یہ ثابت ہے کہ روئے زمین کبھی سات یا اس سے زیادہ مسلمانوں سے کبھی خالی نہیں رہی۔ ورنہ زمین اور زمین والے ہلاک ہوجاتے۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٩١٦٢ جدید ‘ ج ٥ ص ٩٦ قدیم) اور مومن اور مشرک میں مومن خیر ہے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر زمانہ کے بہترین لوگوں سے ہیں اور اس زمانہ میں مومن بھی ہیں تو ضر وری ہوا کہ آپ کے والدین مومن ہوں۔

اور دلیل خاص یہ ہے کہ امام محمد بن سعد نے ” الطبقات الکبریٰ “ میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت آدم (علیہ السلام) تک آپ کے تمام آباء مومن تھے۔

مسالک الحنفاء فی والدی المصطفیٰ

(مسلک اول آپ کے والدین کا اصحاب فترت سے ہونا)

اس موضوع پر یہ چوتھا رسالہ ہے اور یہ سب سے ضخیم رسالہ ہے ‘ اس کے چھپن (٥٦) صفحات ہیں۔

مسلک اول یہ ہے کہ آپ کے والدین کی بعثت سے پہلے فوت ہوگئے اور جو لوگ بعثت سے پہلے فوت ہوگئے اور ان کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی وہ نجات یافتہ ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ہے وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا (بنو اسرائیل : ١٥) اس پر مفصل دلائل گزر چکے ہیں ‘ اور یہ واضح ہوچکا ہے کہ اس مسلک کے اعتبار سے آپ کے والدین نجات یافتہ ہیں۔ حافظ سیوطی نے ١٥ صفحات تک اس مسلک پر دلائل پیش کئے ہیں۔

مسلک ثانی آپ کے والدین کا دین ابراہیم پر ہونا 

آپ کے والدین سے شرک بالکل ثابت نہیں بلکہ وہ اپنے جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر تھے جیسا کہ عمرو بن نفیل اور ورقہ بن نوفل وغیرہ تھے ‘ اس کی تفصیل امام رازی نے اسرار التنزیل میں الشعرائ : ١٩۔ ١٨ میں کی ہے۔

آپ کے تمام آباء کے مومن ہونے کے متعلق احادیث 

احادیث صحیحہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت آدم سے لے کر حضرت عبداللہ تک آپ کے تمام آباء مومن تھے اور اس پر یہ دلیل ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں ہر زمانہ میں اولاد آدم کے بہترین لوگوں میں مبعوث کیا گیا ہوں حتیٰ کہ اس زمانے کے بہترین لوگوں میں سے جس میں ‘ میں ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٥٧ )

اور امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب بھی لوگوں میں دو فرقے ہوئے ‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان میں سے بہتر فرقہ میں رکھا۔ پس مجھے اپنے والدین سے اس حال میں نکالا گیا کہ مجھے زمانہ جاہلیت کی کوئی چیز نہیں پہنچی تھی اور میں نکاح سے نکالا گیا ہوں اور حضرت آدم سے لے کر میرے ماں باپ تک میں زنا سے نہیں نکالا گیا ‘ پس میں خود اور میرے آبائو اجداد تم سب سے خیر اور افضل ہیں۔(دلائل النبوۃ للبیہقی ج ١ ص ١٧٤‘ حافظ ابن کثیر نے کہا اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن اس کے بہت شواہد ہیں پھر حافظ ابن کثیر نے ان شواہد کا ذکر کیا البدایہ و انہایہ ج ٢ ص ٢٧٨‘ دارالفکر ‘ ١٤١٨ ھ ‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٣ ص ٢٩ رقم الحدیث : ٥٥٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤٢١ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ میرے ماں باپ کبھی زنا پر جمع نہیں ہوئے اور اللہ تعالیٰ مجھے ہمیشہ پاکیزہ پشتوں سے پاکیزہ رحموں کی طرف منتقل کرتا رہا جو صاف اور مہذت تھے اور جب بھی دو شاخیں ملیں ‘ میں ان میں سے افضل اور بہتر شاخوں میں تھا۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم ج ١ ص ٥٧‘ رقم الحدیث : ١٥‘ الخصائص الکبریٰ ج ١ ص ٩٣)

حضرت واثلہ بن الاسقع (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اولاد اسماعیل سے کنانہ کو اختیار کیا اور کنانہ کی اولاد سے قریش کو چن لیا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو چن لیا اور بنو ہاشم میں سے مجھ کو چن لیا۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٧٦‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٠٥)

امام المحب الطبری نے ذخائر العقبیٰ میں روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عرب میں بہترین مضر ہیں اور مضر میں بہترین بنو عبدمناف ہیں اور بنو عبدمناف میں بہترین بنو ہاشم ہیں اور بنو ہاشم میں بہترین بنو عبدالمطلب ہیں اور اللہ کی قسم اللہ نے تخلیق آدم سے لے کر جب بھی دو گروہ پیدا کئے تو مجھے ان میں سب سے بہتر میں رکھا۔

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ عز و جل نے سات آسمانوں کو پیدا کیا اور ان میں سے اوپر والے آسمانوں کو فضیلت دی اور ان میں جس مخلوق کو چاہا رکھا اور سات زمینوں کو پیدا کیا اور ان میں اوپر والی زمین کو فضیلت دی اور اس میں جس مخلوق کو چاہا رکھا۔ مخلوق کو پیدا کیا تو اس میں بنو آدم کو سب مخلوق پر فضیلت دی اور بنو آدم میں سے عرب کو چن لیا اور عرب میں سے مضر کو چن لیا اور مضر میں سے قریش کو چن لیا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو چن لیا اور مجھے بنو ہاشم میں سے چن لیا۔ پس میں بہترین لوگوں میں سے بہترین لوگوں کی طرف منتقل ہوتا رہا ہوں۔ سو جس نے عربوں سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے عربوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔(دلائل النبوۃ لابی نعیم ج ١ ص ٥٩۔ ٥٨‘ رقم الحدیث : ١٨‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٣٦٥‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٦١٥‘ المستدرک ج ٤ ص ٧٣‘ قدیم ‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ١ ص ١٧٢۔ ١٧١‘ البدایہ والنہایہ ج ٢ ص ٢١١‘ دارالفکر ١٤١٨ ھ)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار ہوں۔ جب بھی لوگوں کے دو گروہ ہوئے ‘ مجھے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے سب سے بہتر گروہ میں رکھا۔ پس میرا اپنے ماں باپ سے ظہور ہوا تو مجھے زمانہ جاہلیت کی بدکاریوں میں سے کسی چیز نے نہیں چھوا تھا اور میں نکاح کے ذریعہ پیدا ہوا اور میں بدکاری کے ذریعہ پیدا نہیں ہوا ‘ حتیٰ کہ حضرت آدم سے لے کر میں اپنے ماں باپ تک پہنچا ‘ پس میں بھی تم سے خیر اور بہتر ہوں اور میرے باپ بھی تم سب سے خیر اور افضل ہیں۔(دلائل النبوۃ للبیہقی ج ١ ص ١٧٥۔ ١٧٤‘ البدایہ والنہایہ ج ٢ ص ٢٠٨‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٣ ص ٣٠۔ ٢٩‘ رقم الحدیث : ٥٥٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت جبریل (علیہ السلام) نے کہا میں نے زمین کے تمام مشارق اور مغارب کو کھنگالا تو میں نے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے افضل کسی کو نہیں پایا۔(المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٦٢٨٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ ١٤٢٠ ھ)

اور امام بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے اور میں نے بنو ہاشم سے افضل کسی کے بیٹوں کو نہیں پایا۔(دلائل النبوۃ ج ١ ص ١٧٥‘ البدایہ و النہایۃ ج ٢ ص ٢١٢‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ ١٤١٨ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) نے وتقلبک فی السجدین کی تفسیر میں کہا آپ نے فرمایا میں ایک نبی کی پشت سے دوسرے نبی کی پشت میں منتقل ہوتا رہا حتیٰ کہ میں نبی ہوا۔(الطبقات الکبریٰ ج ١ ص ٢٢‘ مسند البزار رقم الحدیث : ٢٣٦٢‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٣٨١٩)

حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ بن الحارث بن عبدالمطلب بیان کرتے ہیں کہ انصار نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر کہا کہ ہم آپ کی قوم سے یہ سنتے ہیں کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مثال ایسی ہے جیسے کچرا کنڈی (گھورے) میں کھجور کا درخت اگ گیا ہو ‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے لوگو میں کون ہوں د ؟ لوگوں نے کہا آپ رسول اللہ ہیں ! آپ نے فرمایا میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔ راوی نے کہا ہم نے اس سے پہلے آپ کو ان کی طرف نسبت کرتے ہوئے ہرگز نہیں سنا تھا۔ آپ نے فرمایا : سنو ! بیشک اللہ عز و جل نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا ‘ پھر اس کے دو گروہ کئے اور مجھ کو ان میں سے سب سے افضل اور سب سے بہتر گروہ میں رکھا ‘ پھر ان کے قبال بنائے اور مجھ کو سب سے افضل اور سب سے بہتر قبیلہ میں رکھا ‘ پھر ان کے گھر بنائے اور مجھ کو سب سے افضل اور سب سے بہتر گھر میں رکھا۔ سو میرا گھرانا سب سے افضل اور سب سے بہتر ہے اور میں خود سب سے افضل اور سب سے بہتر ہوں۔(مسند احمد ج ٤ ص ١٦٦۔ ١٦٥‘ المعجم الکبیر ج ٢٠ ص ٢٨٦‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٣٨٢٤‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ١ ص ١٦٩۔ ١٦٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٠‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٥٨‘ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے)

زمین کبھی مومنوں سے خالی نہیں رہی اس کے متعلق احادیث 

ان احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ ہر قرن اور ہر زمانہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد اس قرن اور اس زمانہ کے سب لوگوں سے خیر اور افضل تھے اور امام عبدالرزاق متوفی ٢١١ ھ نے حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کیا ہے کہ سات یا اس سے زیادہ مسلمانوں سے زمین کبھی خالی نہیں رہی۔(مصنف عبدالرزاق ج ٥ ص ٩٦‘ طبع قدیم ‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث ‘ ٩١٦٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

امام احمد بن حنبل متوفی ٢١١ ھ نے کتاب الزہد میں شیخین کی شرط پر سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے فوت ہونے کے بعد زمین کبھی ایسے ساتھ آدمیوں سے خالی نہیں رہی جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ زمین والوں سے مصائب کو دور کرتا ہے اور امام ازرقی متوفی ٢٥٥ ھ نے تاریخ مکہ میں زہیر بن محمد سے روایت کیا ہے کہ روئے زمین میں ہمیشہ سات یا اس سے زیادہ مسلمان رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین اور زمین والے ہلاک ہوجاتے۔ (اخبار مکہ ج ١ ص ٧١‘ مطبوعہ منشورات الرضی ایران ‘ ١٤٠٣ ھ) 

امام مسلم متوفی ٢٦١ ھ نے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب زمین میں کوئی بھی اللہ اللہ نہیں کہے گا تو قیامت آجائے گی۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٨‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٠٨)

ایک اور روایت میں ہے کسی ایسے شخص پر قیامت نہیں آئے گی جو اللہ اللہ کہتا ہوگا۔(مسند احمد ج ٣ ص ١٦٢‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٩١١‘ المستدرک ج ٤ ص ٤٩٥‘ کنز العمال رقم الحدیث : ٣٨٥٧٥)

خلاصہ یہ ہے کہ روئے زمین میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ مومن رہے ہیں اور مومن اور کافر میں مومن خیر اور افضل ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

ترجمہ : (البقرہ : ٢٢١ )… اور مومن غلام ضرور مشرک سے بہتر ہے۔

اور ہر دور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد اس دور کے لوگوں میں سب سے خیر اور افضل تھے تو ضروری ہوا کہ ہر دور میں آپ کے والد مومن ہوں۔

اولاد ابراہیم کے ایمان پر قائم رہنے کے متعلق قرآن مجید کی آیات 

ترجمہ (الزخرف : ٢٨۔ ٢٦ )…اور جب ابراہیم نے اپنے (عرفی) باپ اور اپنی قوم سے کہا میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم پرستش کرتے ہو۔ سوا اس ذات کے جس کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے ہدایت پر برقرار رکھے گا۔ اور ابراہیم نے اس (کلمہ توحید) کو اپنی نسل میں باقی رہنے والا کلمہ بنادیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔

اور حضرت ابراہیم نے جس کلمہ کو اپنی نسل میں باقی رہنے والا بنایا اس کی تفسیر میں امام عبدالرزاق متوفی ٢١١ ھ لکھتے ہیں : قتادہ نے اس کی تفسیر میں کہا ہے ‘ اس سے مراد توحید اور اخلاص ہے جو ہمیشہ ان کی اولاد میں رہا جو اللہ کو واحد مانتے تھے اور اس کی عبادت کرتے تھے۔ (تفسیر امام عبدالرزاق ج ٢ ص ١٦٠‘ رقم الحدیث : ٢٧٦١‘ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ١٤١١ ھ)

اور امام ابو جعفر محمد بن جریری طبری متوفی ٣١٠ ھ اس کی تفسیر میں مجاہد سے روایت کرتے ہیں : اس کلمہ سے مراد لا الہ الا اللہ ہے ‘ اور انہوں نے قتادہ کا مذکور الصدر قول بھی روایت کیا ہے (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٨٢٧‘ ٢٣٨٢٦ )

اور امام ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ اس کی تفسیر میں عکرمہ سے روایت کرتے ہیں اس کلمہ سے مراد اسلام ہے جس کی انہوں نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ١٠ ص ٣٢٨٢‘ رقم الحدیث : ١٨٥٠٠)

خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تمام اولاد میں اسلام ہے اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضرت اسماعیل تک تمام آباء کرام مومن ہیں۔

ترجمہ : (ابراہیم : ٣٥)… اور یاد کیجئے جب ابراہیم نے یہ دعا کی کہ اے مایرے رب ! اس شہر کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے محفوظ رکھ۔

امام ابن جریر اس آیت کی تفسیر میں مجاہد سے روایت کرتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کے متعلق ان کی اس دعا کو قبول فرمایا ‘ سو ان کی اولاد میں کسی نے بھی اس دعا کے بعد بت پرستی نہیں کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کس اس دعا کو قبول فرما کر اس شہرکو امن والا بنادیا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٥٨٥٦ )

امام ابن ابی حاتم نے سفیان بن عیینہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کیا حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے کسی شخص نے بت پرستی کی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ! کیا تم نے نہیں سنا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ ! میرے بیٹوں کو بت پرستی سے محفوظ رکھنا۔

تیسری آیت یہ ہے :

ترجمہ : (ابراہیم : ٤٠) اے میرے رب ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی۔

امام ابن المنذر نے ابن جریج سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں کچھ لوگ ہمیشہ فطرت پر تھے اور اللہ کی عبادت کرتے رہے۔

حضرت عبدالمطلب کے ایمان کی بحث 

سعید بن المسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابو طلب کی وفات کا وقت آیا تو اس کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے ‘ آپ نے دیکھا وہاں ابو جہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن المغیرہ بھی تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو طالب سے کہا اے میرے چچا ! آپ لا الہ الا اللہ پڑھیے۔ یہ وہ کلمہ ہے جس کی وجہ سے میں اللہ کے پاس آپ کے حق میں شہادت دوں گا تو ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : اے ابو طالب ! کیا تم عبدالمطلب کی ملت سے اعراض کرو گے ؟ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل اس کے سامنے یہ کلمہ پیش کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی بات دہراتے رہے ‘ حتیٰ کہ ابو طالب نے آخر میں ان سے کہا وہ عبدالمطلب کی ملت پر ہے اور اس نے لا الہ الا اللہ پڑھنے سے انکار کردیا ‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سنو ! اللہ کی قسم ! میں ضرور تمہارے لئے استغفار کرتا رہوں گا جب تک اللہ مجھے تمہارے لئے استغفار سے منع نہ کردے پھر سورة توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی :

ترجمہ : (التوبۃ : ١١٣)… نبی اور مومنوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لئے استغفار کریں خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہوں ‘ اس کے بعد جب ان پر ان کا دوزخی ہونا ظاہر ہوجائے۔

یہ حدیث حضرت عبدالمطلب کے مومن ہونے کے منافی ہے کیونکہ اس میں یہ تصریح ہے کہ ابو طالب نے وفات کے وقت کہا کہ وہ عبدالمطلب کی ملت پر ہے اور لا الہ الا اللہ پڑھنے سے انکار کردیا۔

حافظ سیوطی نے اس کے معارضہ میں یہ کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کافر آباء پر فخر کرنے سے منع فرمایا ہے اس کے باوجود آپ نے عبدالمطلب کے بیٹے ہونے پر فخر فرمایا۔ ل اس سے واضح ہوا کہ عبدالطلب کافر نہیں تھے ‘ مومن تھے۔(خصلہ مسالک الحنفاء ص ٣٣)

کافر آباء پر فخر کرنے سے ممانعت کی احادیث یہ ہیں :

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد میں بنی اسرائیل کے دو آدمیوں نے اپنے نسب کا ذکر کیا۔ ان میں سے ایک کافر تھا اور دوسرا مسلمان تھا۔ پس کافر نے اپنے نو آبائو اجداد کا ذکر کیا اور مسلمان نے کہا میں فلاں بن فلاں ہوں اور ان کے ماسوا (کافر باپ دادا) سے بری ہوں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آئے اور ان دونوں کو آواز دے کر فرمایا : اے اپنے باپ دادا کی طرف نسبت کرنے والو ! تمہارے درمیان فیصلہ ہوچکا ہے ‘ پھر فرمایا : اے کافر ! تو نے اپنے نو کافر باپ دادا کی طرف نسبت کا ذکر کیا اور تو ان میں کا دسواں دوزخ میں ہے ‘ اور تو اے مسلم ! تو نے صرف اپنے دو مسلم آباء پر اقتصار کیا اور ان کے ماسوا سے برأت کا اظہار کیا سو تو اہل اسلام سے ہے اور ان کے ماسوا سے بری ہے۔ (شعب الایمان ج ٤ ص ٢٨٨‘ رقم الحدیث : ٥١٣٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے ان باپ دادا پر فخر نہ کرو جو زمانہ جاہلیت میں مرچکے ہیں کیونکہ اگر اس کی ناک میں سیاہ کیڑا رینگتا رہے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے ان باپ دادا پر فخر کرے جو زمانہ جاہلیت میں مرچکے ہیں۔ (شعب الایمان ج ٤ ص ٢٨٦‘ رقم الحدیث : ٥١٢٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے عیوب کو اور (جاہلیت کے) باپ دادا پر فخر کرنے کی خصلت کو دور کردیا ہے۔ تمام لوگ آدم کی اولاد میں ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے۔ مومن متقی ہے اور فاجر شقی ہے۔ لوگ ان پر فخر کرنے سے باز آجائیں۔ وہ جہنم کے کوئلوں میں سے کوئلہ ہیں ‘ ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سیاہ کیڑوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوں گے۔ (شعب الایمان ج ٤ ص ٢٨٦‘ رقم الحدیث : ٥١٢٧‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت) 

اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبدالمطلب کے نسب پر فخر کیا اس کے متعلق یہ حدیث ہے :

حضرت براء (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان سے ایک شخص نے پوچھا : کیا تم غزوہ حنین کے دن بھاگ گئے تھے۔ انہوں نے کہا نہیں ‘ خدا کی قسم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیٹھ نہیں پھیری ‘ لیکن آپ کے اصحاب سے کچھ نوجوان نکلے ‘ جو بےسرو سامان تھے۔ ان کے پاس کسی قسم کا سامان نہیں تھا۔ وہ البتہ میدان چھوڑ گئے تھے۔ ان کا ہوازن اور بنو نصر کے بہترین تیراندازوں سے مقابلہ ہوا۔ وہ اس قدر ماہر تیر انداز تھے کہ ان کا کوئی تیر بمشکل خطا ہوتا تھا۔ اس وقت مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آئے۔ آپ سفید خچر پر سوار تھے اور آپ کے عم زاد حضرت ابو سفیان بن الحارث بن عبدالمطلب اس خچر کو ہنکا رہے تھے۔ آپ نے سواری سے اتر کر اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا کی پھر یہ شعر پڑھا :

انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب 

میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں میں (حضرت) عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٩٣٠‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٧٦‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦٨٨‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٦٠٥‘ مسند احمد ج ١ ص ٢٦٤‘ سنن للبیہقی ج ٩ ص ١٥٥‘ حلیۃ الاولیاء ج ٧ ص ١٣٢‘ کنزلعمال رقم الحدیث : ٣٠٢٠٦‘ مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٤٨٩٥‘ مجمع الزوائد ج ١ ص ٢٨٩‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٥٢٧ )

جس حدیث سے مخالفین نے استدلال کیا ‘ وہ بھی صحیح بخاری کی روایت ہے اور یہ حدیث بھی صحیح بخاری کی روایت ہے لیکن یہ حدیث اس پر راجح ہے اولاً اس لئے کہ وہ سعید بن مسیب کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے اور سعید بن مسیب تابعی ہیں۔ اس لئے وہ حدیث مرسل ہے اور یہ حدیث حضرت براء بن عازب کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے اور وہ صحابی ہیں۔ سو یہ حدیث متصل ہے۔ ثانیاً اس حدیث میں ابو جہل ‘ عبداللہ بن ابی امیہ اور ابو طالب کے اقوال سے استدلال کیا گیا ہے اور وہ کفار تھے اور اس حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے استدلال ہے۔ ثالثاً اس حدیث میں یہ تاویل ہوسکتی ہے کہ ابو جہل وغیرہ کے نزدیک عبدالمطلب کا دین توحید کے خلاف تھا لیکن نفس الامر اور واقع میں ان کا دین توحید کے خلاف نہیں تھا اور اس تاویل پر قرینہ وہ دلائل ہیں جن سے یہ ثابت ہے کہ آپ کے تمام آباء مومن ہیں۔ یہ جوابات اس ناکارہ کے ذہن میں آئے ‘ ورنہ حافظ سیوطی نے فرمایا : ملت عبدالمطلب سے استدلال کرکے ابو جہل کا ابو طالب کو ایمان سے منع کرنا ایک قوی مصادم ہے اور اس حدیث کی کوئی قریب تاویل نہیں ہے۔ سو عبدالمطلب کے ایمان میں توقف کرنا چاہیے۔ (مسالک الحنفاء ص ٣٤)

نیز ایک حدیث میں ہے :

حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن سب سے کم عذاب اس شخص کو ہوگا جس کے تلووں کے نیچے آگ کے دو انگارے رکھے جائیں گے جن سے ان کا دماغ کھول رہا ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٥٦١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٤)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ والوں میں سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ہوگا ‘ اس کو آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٢)

حافظ سیوطی فرماتے ہیں یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ کے والدین دوزخ میں نہیں ہیں کیونکہ اگر وہ دوزخ میں ہوتے تو ان کا عذاب ابو طالب سے بھی کم ہوتا کیونکہ ابو طالب کی بنسبت ان کا نسب آپ سے زیادہ قریب ہے اور ان کا عذر بھی زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا زمانہ نہیں پایا اور نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر ایمان پیش کیا اور نہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایمان پیش کرنے پر انکار کیا۔ اس کے برخلاف ابو طالب نے آپ کی بعثت کا زمانہ پایا۔ آپ نے ان پر اسلام پیش کیا اور انہوں نے انکار کیا۔ اس کے باوجود ان کو سب سے کم عذاب ہوگا تو پھر والدین کریمین کو تو بالکل عذاب نہیں ہوگا۔ (مسالک الحنفاء ص ٤٨۔ ٤٧ )

نیز والدین کریمین کے ایمان کے سلسلہ میں یہ حدیث بھی ہے ؎

حضرت طلق بن علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر میں اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو پاتا اور میں عشاء کی نماز میں ہوتا اور اس میں سورة فاتحہ پڑھی جا چکی ہوتی اور ان میں سے کوئی ایک مجھے یا محمد کہہ کر پکارتا تو میں لبیک کہہ کر ان کی پکارتا تو میں لبیک کہہ کر ان کی پکار کا جواب دیتا۔(شعب الایمان ج ٦ ص ١٩٥ رقم الحدیث : ٧٨٨١‘ امام بیہقی نے کہا اس کی سندذ میں یاسین بن معاذ ‘ ضعیف راوی ہے)

اسی حدیث کو حافظ سیوطی نے شعب الایمان کے حوالے سے مسالک الحنفاء ص ٥٦ پر درج کیا ہے اور اسی صفحہ پر مسالک الحنفاء ختم ہوگیا۔

نشر العالمین المنیفین فی احیاء الابوین الشریفین کا خلاصہ 

(والدین کریمین کو زندہ کرنے والی حدیث کی تقویت اور ترجیح کی وجوہ)

یہ اس موضوع پر پانچواں رسالہ ہے ‘ یہ رسالہ اٹھارہ صفحات پر مشتمل ہے۔ حافظ ابن شاہین اور حافظ ابو القاسم عبدالرحمٰن بن عبداللہ نے والدین کریمین کو ان کی قبروں میں زندہ کرنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی جو احادیث روایت کی ہیں ‘ ان کی سندوں پر جو موضوع اور مجہول ہونے کے اعتراضات ہوتے ہیں ‘ اس رسالہ میں حافظ سیوطی نے ان اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں اور اس حدیث کی ترجیح اور تقویت کی وجوہ بیان کی ہیں۔ حافظ سیوطی لکھتے ہیں :

میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کی نجات کے متعلق متعدد رسائل تحریر کئے ہیں اور یہ بیان کیا ہے کہ اس سلسلہ میں علماء کے کیا مسالک ہیں اور ان مسالک پر ان کے کیا دلائل ہیں اور جو احادیث بظاہر اس کے خلاف ہیں ‘ ان کے کیا جوابات ہیں اور آپ کے والدین کے ایمان کو اختیار کرنے کی میرے نزدیک حسب ذیل وجوہ ہیں :

(١)… اگر یہ کہا جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین معاذ اللہ کافر یا مشرک تھے تو اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج ہوگا اور آپ کو ایذاء پہنچانا حرام ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

ترجمہ : (الاحزاب : ٥٧) … بیشک جو لوگ اللہ کو اور اس کے رسول کو ایذاء پہنچاتے ہیں ‘ ان پر اللہ دنیا میں اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور اس نے ان کے لئے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔

قاضی ابوبکر بن العربی مالکی سے کسی نے پوچھا جو شخص یہ کہے کہ آپ کے آباء دو زخ میں ہیں ‘ اس کا کیا حکم ہے ؟ تو انہوں نے کہا وہ شخص ملعون ہے اور مذکور الصدر آیت سے استدلال کیا اور قاضی عیاض نے شفاء میں لکھا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کے کاتب نے آپ کے والدین کو کافر کہا تو انہوں نے اس کو معزول کردیا۔

(٢)… جب یہ بیان کیا جائے گا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین مومن اور جنتی ہیں تو اس سے مومنین خوش ہوں گے اور جس مسئلہ میں آئمہ کا اختلاف ہو اس میں مسلمانوں کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے امام کے قول کو ترک کرکے دوسرے امام کے قول پر عمل کریں ‘ جیسے فقہاء احناف مفقود الخبر کے مسئلہ میں امام مالک کے قول پر فتویٰ دیتے ہیں ‘ حالانکہ وہ صرف اپنی سہولت کے لئے ایسا کرتے ہیں تو جو شخص ان علماء کا معتقد ہو جو والدین کریمین کے ایمان کے قائل نہیں ہیں تو ان کے لئے زیادہ لائق ہے کہ وہ اس مسئلہ میں ان علماء کی پیروی کریں جو والدین کریمین کے ایمان کے قائل ہیں کیونکہ اول الذکر صورت میں وہ اپنے نفس کی سہولت کے لئے دوسرے آئمہ کے مذ ہب کی طرف منتقل ہوں گے اور ثانی الذکر صورت میں وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کی تعظیم اور آپ کی فرحت اور سرور کے لئے دوسرے علماء کے مذہب کی طرف منتقل ہوں گے اور اس میں آپ کے شرف اور فضیلت اور آپ کے معجزہ اور آپ کی خصوصیت کی طرف اشارہ ہے اور آپ کے والدین کے ایمان کو ماننے میں کوئی نقصان نہیں ہے اور نہ کسی کا حق ضائع ہوتا ہے اور نہ کسی کے ذمہ کوئی چیز واجب ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف جب وہ آپ کے والدین کے کفر کا قائل ہوگا تو اس میں آپ کے والدین کی اہانت ہے اور آپ کو ایذاء پہنچانا ہے۔

(٣)… رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کے ایمان کو ماننا آپ کے تقرب کا ذریعہ ہے ‘ آپ کی رضا اور آپ کی شفاعت کے حصول کا ذریعہ ہے اور اس کے ثبوت کے دلائل کو تلاش کرنے کی مشقت اجر عظیم کے حصول کا سبب ہے۔

والدین کریمین کو زندہ کرنے والی حدیث کی سند کی تحقیق 

حافظ ابن شاہین متوفی ٣٨٥ ھ نے آپ کی والدہ کو زندہ کرنے اور ان کے ایمان لانے کی حدیث اس سند کے ساتھ روایت کی ہے :

محمد بن الحسن بن زیاد ‘ ابوعروہ محمد بن یحییٰ الزہری ‘ عبدالوہاب بن موسیٰ الزہری ‘ عبدالرحمان بن ابی الزناد ‘ ہشام بن عروہ از عروہ از عائشہ (الناسخ و المنسوخ ص ٢٨٤)

امام ابن الجوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں درج کیا ہے اور کہا ہے کہ محمد بن یحییٰ النقاش غیر ثقہ ہے اور محمد بن یحییٰ مجہول ہے ‘ حافظ سیوطی فرماتے ہیں میں کہتا ہوں کہ علامہ ذہبی نے محمد بن یحییٰ کا میزان اور المغنی میں ذکر کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ محمد بن یحییٰ کے متعلق امام دار قطنی نے کہا ہے کہ وہ مجہول ہے اور الازدی نے کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے۔ پس وہ ضعیف راوی ہے اور اس کا موضوع کے تحت درج کرنا صحیح نہیں ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے لسان المیزان میں امام ابن جرزی کا کلام ذکر کرنے کے بعد کہا محمد بن یحییٰ کو مجہول کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ وہ معروف ہے ‘ تاریخ مصر میں اس کا عمدہ ذکر ہے ‘ اس میں مذکور ہے کہ محمد بن یحییٰ بن محمد بن عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن بن عوف ابوعبداللہ ہے۔ اس کا لقب ابو غزیہ ہے۔ وہ مدنی ہے اور مصر میں آ کر رہنے لگا اور وہ اس کی کنیتیں ہیں ‘ اس سے اسحاق بن ابراہیم الکباسی اور زکریا بن یحییٰ البغوی اور سہل بن سوادۃ الغافقی اور محمد بن عبداللہ بن حکیم اور محمد بن فروز نے روایت کی ہے اور وہ دس محرم ٢٥٨ ہجری میں فوت ہوگیا۔

اور رہا محمد بن یحییٰ اگر یہ نقاش ہے جیسا کہ ابن جوزی نے ذکر کیا ہے تو یہ قرأت کے علماء اور آئمہ تفسیر میں سے ہے۔ امام ذہبی نے کہا وہ اپنے زمانہ میں قراء کا استاذ تھا اور ضعف کے باوجود اس کی تعریف کی ہے۔

حافظ سیوطی نے اس حدیث کے روایت کی تعدیل میں طویل بحث کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ضعیف راوی ہیں۔ موضوع نہیں ہیں اور فضائل اور مناقب میں حدیث ضعیف کا اعتبار کیا جاتا ہے پھر حافظ سیوطی نے بہت سی ایسی احادیث کا ذکر کیا ہے جن کو ابن الجوزی نے موضوع کہا ہے اور وہ واقع میں صحیح ‘ حسن یا ضعیف ہیں۔

الدرج المنیفہ فی الاباء الشریفہ کا خلاصہ 

اس موضوع پر یہ چھٹا رسالہ ہے اور یہ رسالہ ١٨ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں احادیث اور آثار کے حوالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کے والدین آخرت میں نجات یافتہ ہیں اور اس کے تین طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے والدین کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی اور انہوں نے آپ کی بعثت کا زمانہ نہیں پایا اور آپ اصحاب فترت سے ہیں پھر قرآن اور حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ اصحاب فترت غیر معذب ہیں۔ ان دلائل کا ہم تفصیل سے ذکر کرچکے ہیں۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے والدین کو زندہ کیا اور وہ آپ پر ایمان لائے۔ اس کی تفصیل بھی گزر چکی ہے۔ محب طبری نے کتاب ذخائر العقبیٰ میں یہ حدیث ذکر کی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ سبیعہ بنت ابی لہب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ! لوگ مجھے یہ کہتے ہیں کہ تم دوزخ کی لکڑیوں کے گٹھے والے کی بیٹی ہو ‘ اس سے آپ ناراض ہوئے اور فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے قرابت داروں کو اذیت پہنچاتے ہیں ‘ جس نے میرے قرابت داروں کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے اللہ کو اذیت پہنچائی اور اس طرح کے آثار بہت ہیں۔

اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے والدین ملت ابراہیم پر ہیں۔ اس کی تفصیل بھی کئی مرتبہ گزر چکی ہے۔ حافظ سیوطی کے ان تمام رسائل میں احادیث ‘ آثار اور دلائل کا تکرار بہت زیادہ ہے اور ہم نے بلا تکرار خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ حافظ سیوطی لکھتے ہیں د :

امام ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ کیا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے کسی نے بت پرستی کی ہے ؟ تو انہوں نے کہا نہیں ‘ کیا تم نے نہیں سنا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ اے اللہ ! مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی پرستش سے محفوظ رکھنا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پھر حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد اس دعا میں کیوں داخل نہیں ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے خصوصیت کے ساتھ مکہ میں پیدا ہونے والی اولاد کے لئے یہ دعا کی تھی ‘ (اس روایت کا یہ جملہ محل اشکال ہے) اور حضرت عبدالمطلب میں علماء کا اختلاف ہے اور ان کے متعلق احسن قول یہ ہے کہ ان کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی۔ شہر ستانی نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عبدالمطلب کی پیشانی میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ نور کا ظہور ہوا تھا اور اس نور کی برکت سے ان کو اپنے بیٹے کی نذر الہام کی گئی تھی اور اس ینور کی برکت سے انہوں نے ابرہہ سے کہا تھا کہ اس بیت کا رب ہے۔ وہی اس کی حفاظت کرے گا اور اسی نور کی برکت سے وہ اپنی اولاد کو برے کاموں سے منع کرتے تھے اور نیک کاموں کا حکم دیتے تھے۔ وہ اپنی وصیت میں یہ کہتے تھے کہ دنیا سے کوئی ظالم اس وقت تک نہیں جائے گا جب تک کہ اس سے اس کے ظلم کا بدلہ نہ لے لیا جائے۔ ان سے کہا گیا کہ کئی ظالم ظلم کا بدلہ لئے جانے سے پہلے دنیا سے چلے جاتے ہیں تو انہوں نے سوچ کر کہا اللہ کی قسم اس جہان کے بعد ایک اور جہان ہے جہاں نیک شخص کو اس کی نیکیوں کی جزا دی جائے گی اور برے شخص کو اس کی برائیوں پر سزا دی جائے گیا اور اس میں یہ دلیل ہے کہ ان کو اسلام کا صحیح پیغام نہیں پہنچا تھا کیونکہ اگر ان تک صحیح دین پہنچا ہوتا تو وہ بغیر غور و فکر کئے ہوئے جنت اور دوزخ کی خبر اور رسولوں کا پیغام پہنچا دیتے۔ حضرت عبدالمطلب کے متعلق ایک قول ابن سید الناس کا ہے۔ ان کی سیرت میں ہے کہ ان کو بھی زندہ کیا گیا اور وہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے لیکن اس قول کو صرف شیعہ نے اختیار کیا ہے۔ امام رازی یہ کہتے ہیں کہ حضرت عبدالمطلب ملت ابراہیم پر تھے۔ (الدرج المنیفہ ص ١٤)

التعظیم والمنہ فی ان ابوی رسول اللہ فی الجنۃ کا خلاصہ 

(والدین کریمین کو قبر میں زندہ کرنے کے متعلق پہلی حدیث)

اس موضوع پر یہ حافظ سیوطی کا ساتواں رسالہ ہے اور اس کے ٤٩ صفحات ہیں۔ اس میں یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کے والدین جنت میں ہیں۔ اس رسالہ میں حافظ سیوطی نے زیادہ تر بحث اس حدیث سے کی ہے جس کو امام ابن شاہین متوفی ٣٨٥ ھ نے ان دو حدیثوں کے لئے ناسخ قرار دیا ہے جو بظاہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کریمین کے ایمان لانے کے خلاف ہیں۔ پہلے ہم امام ابن شاہین کی ذکر کردہ منسوخ اور ناسخ احادیث کو بیان کریں گے پھر اس کے بعد باقی ابحاث کا ذکر کریں گے۔

امام ابن شاہین اپنی پوری سند کے ساتھ حضرت بریدہ (رض) سے روایت کرتے ہیں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کرلیا تو آپ ایک قبر کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ لوگ بھی آپ کے پاس آ کر بیٹھ گئے پھر آپ روتے ہوئے کھڑے ہوئے۔ حضرت عمر (رض) جو لوگوں میں سب سے زیادہ جرأت والے تھے ‘ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں د ! آپ کو کس چیز نے رلایا۔ آپ نے فرمایا یہ میری والدہ کی قبر ہے۔ میں نے اپنے رب عزوجل سے اس کی زیارت کا سوال کیا تو مجھے اس کی اجازت دی گئی ‘ پھر میں نے اپنی والدہ کے لئے استغفار کرنے کا سوال کیا تو مجھے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ پس اپنی والدہ کو یاد کرکے رو رہا ہوں اور اس دن سے زیادہ آپ کو روتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔(الناسخ المنسوخ ص ٢٨٣‘ رقم الحدیث : ٦٢٦ ‘ٔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

نیز امام ابن شاہین اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن مسعود (رض) سے روایتن کرتے ہیں کہ ملیکہ کے دو بیٹے آئے اور کہا یا رسول اللہ ! ہماری والدہ مہمانوں کی ضیافت کرتی تھیں اور وہ زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوئی تھیں۔ سو ہماری والدہ کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا تمہاری ماں دوزخ میں ہے۔ وہ دونوں کھڑے ہوگئے اور ان کو اس خبر سے بہت رنج ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو بلایا پھر فرمایا سنو ! میری ماں بھی تم دونوں کی ماں کے ساتھ ہے۔ ایک منافق نے کہا جس طرح ملیکہ کے دونوں بیٹے اپنی ماں سے عذاب کو دور نہیں کرسکتے۔ یہ بھی اپنی ماں سے عذاب کو دور نہیں کرسکتے۔ پھر انصار کے ایک جوان نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کے والدین کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے ان کے متعلق سوال نہیں کیا تاکہ وہ مجھے ان کے متعلق جواب عطا فرماتا۔ امام ابن شاہین نے کہا یہ حدیث ‘ حدیث سابق کے خلاف ہے کیونکہ اس میں والدہ کے لئے استغفار کی اجازت کے سوال کا ذکر ہے اور اس میں ہے کہ میں نے ان کے متعلق سوال نہیں کیا۔(الناسخ و المنسوخ ص ٢٨٤‘ رقم الحدیث : ٦٣٠‘ مسند احمد ج ١ ص ٣٩٩۔ ٣٩٨‘ رقم الحدیث : ٣٧٨٦ عالم الکتب ‘ مسند البزار ج ١ ص ٢٥١‘ المعجم الکبیر ج ١٠ ص ٨١۔ ٨٠‘ رقم الحدیث : ١٠٠١٧‘ المستدرک ج ٢ ص ٣٦٥۔ ٣٦٤‘ قدیم ‘ رقم الحدیث : ٣٣٨٥‘ جدید ‘ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٣٦٢ )

پھر امام بن شاہین نے ان دونوں حدیثوں کی ناسخ حدیث کو اس سند کے ساتھ ذکر کیا ہے :

حدثنا محمد بن الحسن بن زیاد نا احمد بن یحییٰ نا ابو عروہ محمد بن یحییٰ الزہری نا عبدالوہاب بن موسیٰ الزہری از عبدالرحمان بن ابی الزنا داز ہشام بن عروہ از عروہ از عائشہ (رض) ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام حجون پر افسردہ اور غمزدہ اترے ‘ جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ وہاں ٹھہرے رہے پھر آپ خوشی خوشی لوٹے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ مقام حجون پر غمزدہ اترے تھے پھر جب تک اللہ نے چاہا آپ وہاں ٹھہرے پھر آپ خوشی خوشی لوٹے۔ آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب عز و جل سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری ماں کو زندہ کردیا ‘ وہ مجھ پر ایمان لائیں ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر موت طاری کردی۔(الناسخ و المنسوخ ص ٢٨٥۔ ٢٨٤‘ رقم الحدیث : ٦٣٠‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

اس حدیث کے متن پر علامہ ابن جوزی کے اعتراضات کے جوابات 

علامہ عبدالرحمٰن بن علی بن الجوزی المتوفی ٥٩٧ ھ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :

بے شک یہ حدیث موضوع ہے اور جس شخص نے اس حدیث کو وضع کیا ہے وہ بہت کم فہم اور بےعلم ہے کیونکہ اگر اس کو علم ہوتا تو وہ جان لیتا کہ وہ شخص کفر کی حالت میں مرگیا۔ اس کو دوبارہ زندہ کئے جانے کے بعد ایمان نفع نہیں دیتا بلکہ اگر وہ موت کے وقت عذاب کو دیکھ لے پھر بھی اس کو ایمان نفع نہیں دیتا اور اس حدیث کو رد کرنے کے لئے قرآن مجید کی یہ آیت کافی ہے :

ترجمہ : (البقرہ : ٢١٧)… تم میں سے جو شخص اپنے دین سے مرتد ہوجائے اور وہ کفر کی حالت میں مرجائے تو ان لوگوں کے صنیک) اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوجاتے ہیں اور وہی لوگ دوزخی ہیں اور وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔

(علامہ ابن جوزی کا اس آیت سے استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ والدین کریمین مرتد تھے نہ کافر۔ ان سے کفر اور شرک بالکل ثابت نہیں۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے فوت ہوگئے تھے۔ وہ ملت ابراہیم پر تھے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اصحاب فترت تھے اور اصحاب فترت غیر معذب ہیں۔ اس کے بعد علامہ ابن جوزی اس حدیث کے رد پر دوسری دلیل لکھتے ہیں :) یہ حدیث ‘ اس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں ہے میں نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ میں اپنی والدہ کے لئے استغفار کروں تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اجازت نہیں دی۔ علامہ قرطبی نے اس کے جواب میں فرمایا ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ استغفار سے منع کرنے کے واقعہ پہلے کا ہے اور والدین کو زندہ کرنے کا واقعہ بعد کا ہے اور رہا یہ کہ موت کے بعد ایمان لانا غیر مفید ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خصائص میں سے ہے جیسا کہ قرآن مجید میں تصریح ہے کہ کفار کے عذاب میں تخفیف نہیں ہوتی :

ترجمہ : (البقرہ : ١٦٣۔ ١٦١ )… بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ حالت کفر میں مرگئے ان پر اللہ کی ‘ فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے وہ اس (لعنت) میں ہمیشہ رہیں گے ‘ ان سے عذاب میں تخفیف کی جائے گی اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔

اس کے باوجود صحیح حدیث میں ہے کہ موت کے بعد ابو لہب کے عذاب میں تخفیف کی گئی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥١٠١‘ الطبقات الکبریٰ ج ١ ص ٨٧) اسی طرح ابو طالب کے عذاب میں بھی تخفیف کی گئی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٨٨٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ٢٠٩) سو جس طرح آپ کی خصوصیت کی وجہ سے ابو لہب اور ابو طالب کے عذاب میں تخفیف کی گئی ہے اسی طرح آپ کی خصوصیات کی وجہ سے آپ کے والدین کریمین کو موت کے بعد زندہ کرکے انہیں آپ کے اوپر ایمان لانے کے ساتھ مشرف کیا گیا جب کہ ابولہب اور ابو طالب کی بہ نسبت آپ کے والدین کریمین کہ آپ کے ساتھ قرابت بہت زیادہ ہے ۔

حدثنا محمد بن الحسن بن زیاد نا احمد بن یحییٰ الزھری نا عبدالوھاب بن موسیٰ الزھری از عبدالرحمان بن ابی الزنا دازھشام بن عروہ از عروہ از عائشہ (رض) ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام حجون پر افسردہ اور غمزدہ اترے ‘ جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ وہاں ٹھہرے رہے پھر آپ خوشی خوشی لوٹے ‘ میں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ مقام حجون پر غمزدہ اترے تھے پھر جب تک اللہ نے چاہا آپ وہاں ٹھہرے پھر آپ خوشی خوشی لوٹے آپ نے فرایا میں نے اپنے رب عزوجل سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری ماں کو زندہ کردیا وہ مجھ پر ایمان لائیں ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر موت طاری کردی۔ (الناسخ والمنسوخ ص ٥٨٢۔ ٤٨٢‘ رقم الحدیث : ٠٣٦‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٢١٤١ ھ)

اس حدیث کے متن پر علامہ ابن جوزی کے اعتراضات کے جوابات 

اس کے بعد علامہ ابن الجوزی نے اس حدیث کی سند پر یہ اعتراض کیے ہیں :

محمد بن حسن بن زیاد نقاش ثقہ نہیں ہے ‘ اور احمد بن یحییٰ اور محمد بن یحییٰ دونوں مجہول ہیں اور ہمارے شیخ ابوالفضل بن ناصر نے کہا یہ حدیث موضوع ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی والدہ مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام الابواء میں فوت ہوئیں تھیں اور وہیں پر دفن ہوئی ہیں اور ان کی قبر مقام حجون میں نہیں ہے۔ (کتاب الموضو عات ج ١ ص ٤٨٢۔ ٣٨٢‘ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ مدینہ منورہ ‘ ٨٨٣١ ھ)

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ١١٩ ھ لکھتے ہیں :

میں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی والدہ حضرت آمنہ بنت وھب موحدہ تھیں او وہ ملت ابراہیم خلیل اللہ پر تھیں ‘ اور انہوں نے زمانہ جاہلیت میں بتوں کی عبادت نہیں کی جیسا کہ زید بن عمرو بن نفیل اور ان کی طرح دوسرے لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں بتوں کی عبادت نہیں کی تھی ‘ اور ان کو زندہ کرنے کے متعلق جو حدیث ہے وہ موضوع نہیں ہے جیسا کہ بعض حفاظ کا ادعا ہے۔

محمد بن حسن بن زیاد نقاش پر ابن جوزی کی جرح کا جواب حافظ ذہبی سے 

علامہ شمس الدین محمد بن احد ذہبی متوفی ٨٤٧ ھ لکھتے ہیں :

محمد بن حسن بن زیاد ‘ ابوبکر نقاش ‘ استاذ القراء اور مفسر ہیں ‘ وہ ضعیف راوی ہیں ‘ ابو عمر الدانی نے ان کی تحسین کی ہے برقانی کے کہا ان کی حدیث منکر ہے۔ (میران الاعتدال ج ٦ ص ٥١١‘ رقم : ٠١٤٧۔ ٨٨٢٧‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٦١٤١ ھ)

علامہ ذہبی نے محمد بن حسن بن محمد بن زیادہ کو ضعیف راوی کہا ہے ‘ وضاع نہیں کہا اور نہ اس کی روایت کو موضوع کہا ہے انہوں نے ہکا ان کی روایت منکر ہے۔ منکر اس حدیث کو کہتے ہیں جو حدیث صحیح کے خلاف ہو۔ حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت آمنہ کی قبر مقام الابواء میں ہے اور اس حدیث میں ہے کہ ان کی قبر مقام حجون میں ہے سو یہ روایت حدیث صحیح کے خلاف ہونے کی وجہ سے منکر قرار پائی اور حدیث منکر ضعیف کی اقسام میں سے ہے ‘ اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے ‘ موضوع نہیں ہے اور حدیث ضعیف فضائل اور مناقب میں معتبر ہوتی ہے۔

محمد بن یحییٰ اور احمد بن یحییٰ پر جرح کا جواب حافظ ذہبی اور حافظ عسقلانی سے 

علامہ شمس الدین محمد بن احمد ذہبی متوفی ٨٤٧ ھ لکھتے ہیں :

محمد بن یحییٰ ابو غزیہ المدنی موسیٰ بن وردان سے روایت کرتے ہیں ‘ الدار قطنی نے کہا یہ متروک ہیں اور الازدی نے کہا ضعیف ہیں۔ (میران الاعتدال ج ٦ ص ٤٦٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٦١٤١ ھ)

علامہ ذہبی نے یہی لکھا ہے کہ محمد بن یحییٰ ضعیف راوی ہیں ‘ اور ہم نے بھی ان کی روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور فضائل اور مناقب میں حدیث ضعیف معتبر ہوتی ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی ان کے متعلق یہی کچھ لکھا ہے۔

(لسان المیز ان ج ٥ ص ٠٢٤‘ مطبوعہ مؤسسۃ الاعلمی بیروت ٠٩٣١ ھ)

علامہ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ محمد بن یحییٰ اور احمد بن یحییٰ دونوں میں مجہول ہیں۔

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٢٥٨ ھ ان کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

رہے محمد بن یحییٰ تو وہ مجہول نہیں ہیں بلکہ وہ معروف ہیں ‘ ابو سعید بن یونس نے تاریخ مصر میں ان کا عمدہ تذکرہ لکھا ہے امام دارقطنی نے ان پر وضع کی تہمت لگائی ہے اور وہ ابو غزیہ محمد بن یحییٰ الزھری ہیں ‘ اپنے مقام پر ان کا ذکر آئے گا ‘ اور رہے احمد بن یحییٰ تو اس سند کے سب سے قریب احمد بن یحییٰ بن زکیر ہیں اور وہ مصری ہیں۔ اور ابن الجوزی نے اپنے شیخ محمد بن ناصر سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے۔ کیونکہ حضرت آمنہ کی قبر ابواء میں ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے اور اس ابو غزیہ نے یہ کہا کہ وہ الحجون میں ہے ‘ اور مجھے ابو غزیہ کی اس حدیث کا حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ایک اور شاہد ملا ہے۔(لسان المیز ان ج ٤ ص ٢٩۔ ١٩‘ مطبوعہ مؤسستہ الاعلمی بیروت ‘ ٠٩٣١ ھ)

حافظ عسقلانی کی اس عبارت سے واضح ہوگیا علامہ ابن جوزی کا محمد بن یحییٰ اور احمد بن یحییٰ کو مجہول کہنا صحیح نہیں ہے وہ معروف ہیں اور ابن جوزی اور ان کے استاذ محمد بن ناصر کا اس حدیث کو موضوع کہنا غلط ہے یہ حدیث ضعیف ہے اور فضائل میں معتبر ہے ‘ نیز حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ امام ابن عسا کرنے حضرت عائشہ کی اس حدیث کو اس سند کے ساتھ ذکر کیا ہے :

الحسین بن علی بن محمد بن اسحاق المجلسی ‘ حدثنا ابو طالب ‘ عمر بن الربیع الخشاب حدثنا علی بن ایوب الکعبی حدثنا محمد بن یحییٰ الذھری ابو غزیہ حدثنی مالک عن ابی الزناد عن ہشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشۃ۔ امام ابن عسا کرنے اس حدیث کو منکر کہا ہے۔(لسان المیز ان ج ٤ ص ٥٠٣‘ مطبوعہ مؤسسۃ الاعلمی بیروت ‘ ٠٩٣١ ھ)

حافظ ابن حجر عسقلانی کی اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ یہ حدیث صرف امام ابن شاہین کی سند سے مروی نہیں ہے ‘ امام ابن عسا کر کی سند سے بھی مروی ہے اور امام ابن عساکر نے اس حدیث کو منکر کہا ہے اور منکر ضعیف کی اقسام سے ہے اور جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں اور اس کی سند کا ضعیف ہونا ہمیں مضر نہیں ہے ‘ فضائل اور مناقب میں حدیث ضعیف معتبر ہوتی ہے۔

والدین کریمین کو زندہ کرنے اور ان کے ایمان لانے کی حدیث میں حفاظ حدیث کا اختلاف 

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ١١٩ ھ لکھتے ہیں :

خلاصہ یہ ہے کہ والدین کریمین کو زندہ کرنے اور ان کے ایمان لانے کے متعلق جو حدیث ہے ‘ بعض ائمہ نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے اور بعض ائمہ نے اس کو فقط ضعیف کہا ہے ‘ جن ائمہ نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے ان میں امام دارقطسنی ‘ امام جو زقانی ‘ امام ابن ناصر ‘ علامہ ابن جوزی اور علامہ ابن وحیہ ہیں ‘ اور جن حفاظ حیدث نے یہ کہا ہے کہ یہ حدیث فقط ضعیف ہے اور موضوع نہیں ہے ان میں حافظ ابن شاہین ‘ خطیب بعدادی ‘ حافظ ابن عساکر ‘ علامہ سھیلی ‘ علامہ ابو عبداللہ قرطبی ‘ ان کے استاذ علامہ ابو العباس قرطبی ‘ محب طبری ‘ ابن سید الناس ‘ علامہ ابی مالکی ‘ علامہ سنوسی مالکی وغیرہ ہم ہیں ‘ امام ابن شاہین نے اس حدیث کو اس حدیث کے لیے ناسخ قرار دیا ہے جس میں حضرت آمنہ کی قبر کی زیارت کی اجازت دی ہے اور ان کے لیے استغفار سے منع کیا ہے ‘ اگر ان کے نزدیک یہ حدیث موضوع ہوتی تو وہ اس سے منسوخ ہونے پر استدلال نہ کرتے۔ اور جن وجوہات کی بنائے بعض حفاظ حدیث نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے جب ہم نے ان پر غور کیا تو وہ تمام وجوہ تمام وجوہ غیر موثر ثابت ہوئیں جیسا کہ ہم علامہ ابن جوزی کے دلائل کا تجزیہ کرکے واضح کرچکے ہیں ‘ اس مسئلہ میں متاخرین میں سے حافظ شمس الدین بن ناصر الدین محدث دمشق نے بھی میری موافقت کی ہے انہوں نے اپنی کتاب موردالصادی فی مولد الھادی میں یہ اشعار لکھے ہیں۔

(ان اشعار کا اردو میں خلاصہ یہ ہے :) اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فضل بالائے فضل کی بنا پر آ پکو حیات عطا کی ‘ اور آپ کی والدہ اور آپ کے والد کو آپ پر ایمان لانے کے لیے زندہ کیا ‘ پس وہ زندہ کیے جانے کے بعد آپ پر اسلام لائے اور اللہ اس پر قادر ہے ہرچند کہ اس مسئلہ کے اثبات میں حدیث ضعیف ہے۔ (التعظیم والمثہ ص ٧١‘ مطبوعہ حیدر آباد دکن ‘ ٧١٣١ ھ)

اصحاب کہف کو زندہ کیے جانے سے والدین کریمین کو زندہ کیے جانے پر استدلال 

اس سے پہلے امام ابن شاہین کی روایت سے یہ گذر چکا ہے کہ آپ نے ملیکہ کے دو بیٹوں سے فرمایا تمہاری ماں میری ماں کے ساتھ دوزخ میں ہے۔ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ حدیث والدین کریمین کے زندہ کیے جانے اور ان کے ایمان لانے سے پہلے کا واقعہ ہے ‘ نیز اس حدیث میں ہے کہ جب آپ سے ایک انصاری نے پوچھا کہ آپ کے والدین کہاں ہیں تو آپ نے فرمایا : میں نے اپنے رب سے ان کے متعلق سوال نہیں کیا تاکہ وہ مجھے ان کے متعلق جواب عطا فرماتا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک یہ جائز تھا کہ جب آپ اپنے رب سے اپنے والدین کی مغفرت کے متعلق جواب عطا فرماتا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک یہ جائز تھا کہ جب آپ اپنے رب سے اپنے والدین کی مغفرت کے متعلق سوال کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو یہ جواب عطا فرمائے گا ‘ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کے اصحاب کے نزدیک آپ کے والدین کی مغفرت ممکن تھی اور آپ کی خصوصیات میں سے تھی جبھی انہوں نے آپ سے اس کے متعلق سوال کیا تھا۔

امام ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عباس سے وایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ ابوطالب کے متعلق کیا امید رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں اپنے رب سے ہر خیر کی توقع رکھتا ہوں۔(الطبقات الکبریٰ ج ١ ص ٠٠١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ١٧٨٥)

جب آپ ابو طالب کے متعلق یہ توقع تھی حالانکہ اس نے آپ کی نبوت کا زمانہ پایا اور آپ کی نبوت کا زمانہ پایا آپ نے اس پر اسلام کو پیش کیا اور اس نے انکار کردیا تو آپ کے والدین جنہوں نے آپ کے زمانہ نبوت کو نہیں پایا ان کے متعلق آپ کا ان کی مغفرت کی دعا کرنا زیادہ متوقع ہے۔ (التظیم والمنۃ ص ٧۔ ٦)

والدین کریمین کو زندہ کیے جانے کی اور اس کے خلاف احادیث میں تطبیق 

حافظ سیوطی فرماتے ہیں کہ والدین کریمین کے ایمان لانے پر مجھے واضح دلیل یہ ملی ہے کہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اصحاب الکھف امام مہدی کے مددگار ہوں گے ‘ امام ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ اصحاب کہف اپنی موت کے بعد پھر زندہ کیے جائیں گے اور اس میں کوئی استبعاد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کے لیے ایک عمر لکھ دی ہو پھر ان کی عمر پوری ہونے سے پہلے ان کی روحوں کو قبض کرلیا ہو پھر ان کو وفات کے بعد زندہ کر کے بقیہ زندگی عطا فرمائی ہو اور وہ اس رندگی میں آپ پر ایمان لے آئے ہوں پھر ان کی زندگی پوری ہونے کے بعد پھر ان پر وفات طاری کردی ہو جیسا کہ اصحاب کہف کے ساتھ ہوا اور دو موتوں کے درمیان جو ان کو حیات عطا فرمائی یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت کی وجہ سے ہو۔

حافظ فتح الدین ابن سید الناس نے اپنی سیرت میں امام ابن اسحاق سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب ‘ اور حضرت آمنہ بنت وھب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کریمین اسلام لائے ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کیا اور وہ آپ پر ایمان لائے ‘ اور آپ کے جد کریم حضرت عبدالمطلب کے متلعق بھی ایسی ہی روایت ہے ‘ اور یہ امام احمد کی اس روایت کے خلاف ہے کہ آپ نے ایک شخص سے فرمایا تمہاری ماں دوزخ میں ہے ‘ پھر جب اس نے پوچھا کہ آپ کے گذرے ہوئے گھر والے کہاں ہیں تو آپ نے فرمایا : کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری ماں میری ماں کے ساتھ ہو ‘ ان روایات میں تطبیق اس طرح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تدریجاً کمالات اور فضائل عطا کیے جاتے تھے ‘ ہوسکتا ہے کہ پہلے آپ کے والدین کو یہ مقام حاصل نہ ہو اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے والدین کو زندہ کر کے یہ مقام عطا فرمایا ہو : (تاہم صحیح یہ ہے کہ آپ کے والدین غیر معذب تھے کیونکہ وہ اھل فترت میں سے تھے) (التعظیم والمنۃ ص ٩۔ ٨)

حضرت آمنہ کے موحدہ ہونے پر دلیل 

حافظ ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں ام سلمہ بنت رھم کی ماں سے روایت کیا ہے کہ جس بیماری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی والدہ حضرت آمنہ فوت ہوئیں اور اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر پانچ سال تھی ‘ تو حضرت آمنہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھ کر چند اشعار کہے ان میں سے بعض یہ ہیں :

فانت مبعوث الی الا نام من عند ذی الجلال والاکرام 

آپ لوگوں کی طرف مبعوث ہونے والے ہیں رب ذوالجلال والا کرام کی جانب سے 

دین ابیک ابرابرا ھام فاللہ انھاک عن الا صنام 

اپنے نیک باپ ابراہیم کے دین پر ہیں پس اللہ نے آپ کو بت پرستی سے منع کیا ہے 

(التعظیم والمنۃ ص ٨١‘ مطبوعہ حیدر آباد دکن ‘ ٧١٣١ ھ)

جب حضرت آمنہ مومنہ تھیں تو آپ کو ان کے لیے استغفار کی اجازت کیوں نہیں ملی اور آپ نے ان کو دوزخی کیوں فرمایا !

حافظ سیوطی فرماتے ہیں اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت آمنہ کے موحدہ ہونے کا قول کیونکر درست ہوسکتا ہے ‘ جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے لیے استغفار کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور آپ نے ملیکہ کے دو بیٹوں سے فرمایا میری ماں تمہاری ماں کے ساتھ دوزخ میں ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کا یہ ارشاد پہلے کا واقعہ ہے جب آپ کی طرف یہ وحی نہیں کی گئی تھی کہ آپ کے والدین اھل جنت سے ہیں ‘ اس کی نظیر یہ ہے کہ آپ نے پہلے تبع کے متعلق فرمایا تھا میں نہیں جانتا وہ مومن تھا یا نہیں (الناسخ والمنسوخ رقم الحدیث : ١٣٦) پھر اس کے متعلق فرمایا تبع کو برا نہ کہو وہ مسلمان ہوچکا تھا۔ ( الناسخ و المنسوخ رقم الحدیث : ٣٣٦‘ ٢٣٦) آپ نے ان کے متعلق پہلے سوال نہیں کیا تھا اور جاہلیت کے لوگوں کے متعلق عام قاعدہ ہے کہ وہ دوزخی ہیں اس اعتبار سے آپ نے فرمایا میری ماں تمہاری ماں کے ساتھ دوزخ میں ہے اور بعد میں آپ کو بذریعہ وحی ان کے جنتی ہونے کے متعلق بتایا گیا ‘ اور آپ کو آپ کی والدہ کے لیے استغفار کی اجازت نہیں دی گئی تھی اس سے ان کا کفر لازم نہیں آتا اس کی نظیر یہ ہے کہ پہلے جو مسلمان مقروض مرجاتا تھا آپ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے ‘ کیونکہ آپ کے استغفار کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی فی الفور مغفرت ہوجائے اور مقروض کی اس وقت تک مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا قرض ادانہ کردیا جائے ‘ اسی طرح آپ کی والدہ کو بھی برزخ میں جنت سے روک لیا گیا تھا ‘ اس کی وجہ کفر کے علاوہ دوسرے امور تھے ‘ اس وجہ سے پہلے آپ کو ان کے لیے استغفار کی اجازت نہیں تھی حتیٰ کہ بعد میں آپ کو ان کے لیے استغفار کی اجازت دے دی ‘ اور ان دونوں حدیثوں کا یہ جواب بھی دیا جاسکتا ہے کہ حضرت آمنہ موحدہ تھیں لیکن ابھی تک ان کو قیامت اور مرنے کے بعد اٹھنے کا علم نہیں تھا اور نہ اس پر ایمان تھا ‘ اور یہ اسلام کا بہت بڑا اصول ہے ‘ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کیا تھا حتیٰ کہ وہ قیامت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے تمام اصول اور مبادی پر ایمان لائیں ‘ اس لیے ان کے زندہ کرنے کے معاملہ کو حجۃ الوداع تک مؤخر کیا گیا حتی کہ شریعت مکمل ہوگئی اور یہ آیت نازل ہوگئی الیوم الملت لکم دینکم ‘ پھر حضرت آمنہ کو زندہ کیا گیا اور وہ آپ کی مکمل شریعت پر ایمان لائیں۔ (التعظیم والمنۃ ص ١٢۔ ٠٢‘ مطبوعہ دائرۃ المعارف النظامیہ حیدر آباد دکن ‘ ٧١٣١ ھ)

تمام انبیاء کی امہات کے ایمان سے حضرت آمنہ کے ایمان پر استدلال 

حافظ سیوطی فرماتے ہیں میں نے تمام انبیاء (علیہم السلام) کی امہات پر غور کیا تو وہ سب مومنات ہیں تو ضروری ہوا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی والدہ بھی مومنہ ہوں ‘ اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ حضرت مریم ہیں اور وہ نص قرآن سے صدیقہ ہیں۔

وامہ صدیقۃ ط (المائدہ : ٥٧) اور عیسیٰ کی ماں صدیقہ ہیں۔

اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی والدہ سارہ ہیں ان کا بھی قرآن مجید میں ذکر ہے ‘ فرشتوں نے ان سے کہا :

اتعجبین من امر اللہ رحمت اللہ وبرکتہ علیکم اھل البیت ط۔ (ھود : ٣٧)

کیا آپ اللہ کی قدرت پر تعجب کررہی ہیں ! اے اس گھر کے لوگو ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں۔

اور حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی ماں کا بھی قرآن مجید میں ذکر ہے :

واو حینآ الی ام موسیٰ ۔ (القصص : ٧)

اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کی۔

اور حضرت شیث کی ماں حضرت حواء ام البشر ہیں۔ اور احادیث اور اثار میں وارد ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ حضرت ہاجرہ مومنہ تھیں۔ اور حضرت یعقوب اور ان کی اولاد کی ماں مومنہ تھیں ‘ اور حضرت دائود ‘ حضرت سلیمان ‘ حضرت زکریا ‘ حضرت یحییٰ ‘ حضرت شمویل ‘ حضرت شمعون ‘ حضرت ذوالکفل (علیہم السلام) کی والدہ مومنہ تھیں اور بعض مفسرین نے تصریح کی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی والدہ مومنہ تھیں کیونکہ قرآن مجید میں ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے والدین کے لیے دعا کی رب اغفرلی ولوالدی (نوح : ٨٢) حضرت ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ حضرت نوح سے حضرت آدم تک ان کے آباء میں سے کسی نے کفر نہیں کیا۔

امام حاکم نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ دس کے سوا تمام انبیاء (علیہم السلام) بنو اسرائیل سے تھے ‘ حضرت نوح ‘ حضرت ھود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت لوط ‘ حضرت شعیب ‘ حضرت ابراہیم ‘ حضرت اسماعیل ‘ حضرت اسحاق ‘ حضرت یعقوب اور حضرت محمد علیہ و (علیہم السلام) ‘ ان سب کے آباء مومن تھے ان میں سے کوئی کافر نہ تھا ‘ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث کیا پس جس نے ان کے ساتھ کفر کیا اس نے کفر کیا۔(تاریخ دمشق الکبیر ج ٧٦ ص ١٢١‘ ج ٣٥ ص ٧٣٢‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

پس بنو اسرائیل کے تمام انبیاء کی مائیں مومنات ہیں ‘ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد امتوں میں کسی کو مبعوث نہیں کیا گیا ‘ اور رہے دس انبیاء تو حضرت اسماعیل ‘ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کی ماں کا ایمان ثابت ہے ‘ اب حضرت ھود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت لوط ‘ اور حضرت شعیب کی مائوں کا ذکر رہ گیا اور ان کے ایمان کا ثبوت کسی نقل یا دلیل کا محتاج ہے اور ظاہر یہ ہے کہ وہ بھی مومنات ہیں ‘ اور جب سب انبیاء (علیہم السلام) کی مائیں مومنات ہیں تو سید الانبیاء اور افضل الانبیاء کی ماں مومنہ کیوں نہیں ہوں گی ! (التعظیم والمنۃ ص ٢٢۔ ١٢‘ دائرۃ المعارف النظامیہ ‘ حیدر آباد دکن ‘ ٧١٣١ ھ)

ابولہب کے عذاب میں تخفیف سے حضرت آمنہ کے غیرمعذب ہونے پر استدلال 

حافظ سیوطی نے کہا ہے کہ صحیحین میں ثابت ہے کہ مرنے کے عبد ابو لہب کو خواب میں دیکھا گیا تو اس نے کہا میں نے تمہارے بعد کوئی خیر نہیں دیکھی سوا اس کے ‘ کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے مجھے اس انگلی سے پلایا جاتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠١٥‘ الطبقات الکبریٰ ج ١ ص ٧٨) اور ثویبہ ابو لہب کی باندی تھی ‘ ابو لہب نے اس کو آزاد کردیا تھا ‘ اور اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دودھ پلایا تھا ‘ اور اس وجہ سے ابو لہب کو دوزخ کے عذاب سے تخفیف ملی اور اس کی انگلی سے اس کو پلایا گیا ‘ حالانکہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شدید عداوت رکھتا تھا ‘ اور آپ کو اس سے سخت تکلیفیں پہنچی ہیں اور اس کے عذاب سے صرف اس وہ سے تخفیف کی گئی کہ اس نے ثویبہ کو آزاد کردیا تھا تو تمہارا اس خاتون کے متعلق کیا گمان ہے جنہوں نے نو مہینے آپ کو پیٹ میں رکھا ‘ کئی دنوں تک اپنا دودھ پلایا اور کئی سال آپ کی پرورش کی اور وہ آپ کی ماں تھیں !(التعظیم و المبنۃ ص ٣٢‘ مطبوعہ دائرۃ المعارف انظامیہ دکن ‘ ٧١٣١ ھ)

ابوین کریمین کے معذب ہونے کی احادیث کے منسوخ ہونے کی نظائر اور اطفال مشرکین کے ایمان سے استدلال 

امام ابن عبدالبر نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا کہ حضرت خدیجہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشرکین کی اولاد کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا وہ آباء کے ساتھ ہوں گے ‘ پھر میں نے آپ سے اس کے بعد سوال کیا تو آپ نے فرمایا اللہ ہی کو علم ہے وہ کیسے اعمال کرنے والے تھے ‘ پھر میں اسلام کے مستحکم ہونے کے عبد آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا :

ولا تزروازرۃ وزراخراج۔ (الانعام : ٤٦١) کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

آپ نے فرمایا وہ فطرت (اسلام) پر ہیں اور وہ جنت میں ہیں۔

(الاستذ کا رج ٨ ص ١٠٤‘ رقم الحدیث : ٩٩٠٢١‘ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ‘ السنہ لابن ابی عاصم رقم الحدیث : ٣١٢‘ مجمع الزوائد ج ٧ ص ٧١٢)

اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کے بچوں کے متعلق پہلے آپ نے فرمایا تھا وہ دوزخی ہیں ‘ اس کے بعد جب فرمایا کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور وہ جنتی ہیں۔ تو اس سے وہ پہلی احادیث منسوخ ہوگئیں ‘ اس طرح والدین کریمین کے متعلق جو پہلے فرمایا تھا وہ دوزخی ہیں وہ حجۃ الوداع کے موقع پر انہیں زندہ کرنے اور ان کے ایمان لانے کی حدیث سے منسوخ ہوگئیں۔(التعظیم والنۃ ص ٥٢۔ ٤٢‘ مطبوعہ دائرۃ المعارف النظامیہ ‘ مطبوعہ حیدر آباد دکن ‘ ٧١٣١ ھ)

اطفال مشرکین کے متعلق مزید احادیث یہ ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشرکین کی اولاد کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ وہ کیا کرنے والے تھے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٨٣١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٠٦٦٢‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١١٧٤‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٠٥٩١)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! مومنین کی اولاد کہاں ہوگی ؟ آپ نے فرمایا وہ اپنے آباء کے ساتھ ہوں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! بلاعمل ؟ آپ نے فرمایا اللہ یہ زیادہ جاننے والا ہے ‘ وہ کیا عمل کرنے والے تھے ‘ اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اور مشرکین کی اولاد ! فرمایا : اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے وہ کیا کرنے والے تھے۔(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢١٧٤)

الاسود بن سریع بیان کرتے ہیں آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ! جنت میں کون ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا نبی جنت میں ہوں گے اور شہید جنت میں ہوں گے اور بچے جنت میں ہوں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں یہ اضافہ ہے اور جس کو زندہ درگور کیا گیا وہ جنت میں ہوگا۔(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٨٣٨١‘ ا المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٨٦٤٢١‘ مسند البز اررقم الحدیث : ٨٦١٢‘ الاستذا رقم الحدیث : ٨٩٠٢١‘ مجمع الزوائد ج ٧ ص ٩١٢)

حضرت سمرہ بن جندب (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب اور اس کی تعبیر کے سلسلہ میں ایک طویل حدیث روایت کی ہے اس کے آخر میں ہے وہ طویل شخص جو باغ میں تھا وہ حضرت ابراہیم تھے ‘ اور ان کے گرد جو بچے تھے وہ فطرت پر پیدا ہوئے تھے آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ مشرکین کی اولاد بھی ؟ آپ نے فرمایا مشرکین کی اولاد بھی۔(صحیح البخار یرقم الحدیث : ٧٤٠٧‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٧٢٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٩٢٢‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨٥٦٧ )

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ مشرکین کے بچے جنت میں ہوں گے ‘ اور وہ احادیث جو اس کے خلاف ہیں وہ اس سے پہلے کی ہیں اور وہ اس حدیث سے منسوخ ہوگئیں۔

زمانہ جاہلیت میں دین ابراہیم پر قائم رہنے والے دوسرے لوگ 

حافظ سیوطی متوفی ١١٩ ھ لکھتے ہیں : امام بزار نے اور امام حاکم نے سند کی صحت کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ورقہ بن نوفل کو برا نہ کہو ‘ کیونکہ میں نے اس کے لیے ایک جنت یا دو جنتیں دیکھی ہیں۔ (مسند البز اررقم الحدیث، ١٥٧٢‘ ٠٥٧٢‘ المستدرک ج ٢ ص ٩٠٦‘ مجمع الزوائد ج ٩ ص ٦١٤‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٦٧٠٤٣ )

امام بزار نے حضرت جابر (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زید بن عمروبن نفیل کے متعلق سوال کیا ‘ آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ ! وہ زمانہ جاہلیت میں قبلہ کی طرف منہ کرتا تھا ‘ اور کہتا تھا میرا دین ابراہیم کا دین ہے اور میرا خدا ابراہیم کا خدا ہے اور سجدہ کرتا تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا اس ایک امت میں حشر کیا جائے گا جو میرے اور عیسیٰ بن مریم کے درمیان ہے۔(تاریخ دمشق الکبیر ج ١٢ ص ٢٦٣‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ٣١١‘ رقم الحدیث : ٣٧٦٤‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ ‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٠٦٨٧٢)

امام ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ قس بن ساعدہ عکاظ کے بازار میں اپنی قوم کو خطبہ دے رہے تھے انہوں نے اپنے خطبہ میں مکہ کی طرف اشارہ کر کے کہا اس طرف سے تمہارے پاس حق آئے گا ‘ اور کہا وہ لؤی بن غالب کے نسب سے ایک شخص ہوگا جو تمہیں کلمہ اخلاص اور ابدی نجات اور نعمتوں کی دعوت دے گا ‘ تم اس کی دعوت کو قبول کرنا ‘ اور اگر مجھے یقینہوتا کہ میں ان کی بعثت تک زندہ رہوں گا تو میں ان کی دعوت کو قبول کرنے میں سبقت کرتا۔

امام ابو نعیم نے عمر و بن عبسہ سلمی سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا مجھے یقین ہے کہ میری قوم باطل پر ہے اور وہ پتھروں کی عبادت کرتے ہیں۔

امام خرائطی اور امام ابن عسا کرنے روایت کیا ہے کہ اوس بن حارثہ دعوت حق کا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا ذکر کرتے تھے ‘ اور انہوں نے اپنی اولاد کو اس کی وصیت کی تھی۔

حضرت غالب بن ایجر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قس کا ذکر کیا ‘ آپ نے فرمایا اللہ قِس پر رحم فرمائے۔ (المعجم الکبیر ج ٨١ ص ٥٦٢ رقم الحدیث : ٣٦٦) نیز آپ نے فرمایا وہ ہمارے باپ اسماعیل بن ابراہیم کے دین پر تھے۔ یہ سب لوگ زمانہ جاہلیت میں دین ابراہیم پر تھے اور موحد تھے اور یہ سب غیر معذب اور جنتی ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کریمین بھی اس طرح ہیں۔ (التعظیم والمنۃ ص ٥٤۔ ٤٤‘ مطبوعہ دائرۃ المعارف النظامیہ ‘ حیدر آباد دکن ‘ ٧١٣١ ھ)

حافظ سیوطی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کریمین کے ایمان کے اثبات میں جو سات رسائل لکھے ہیں ان کی تلخیص یہاں پر ختم ہوگئی۔

والدین کریمین کے ایمان کی نفی پر ملا علی قاری کے دلائل 

ملاعلی بن سلطان محمد القاری متوفی ٤١٠١ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی ‘ آپ خود بھی روئے اور آپ نے اپنے گرد کے مسلمانوں کو بھی رلایا ‘ اور فرمایا میں نے اپنی والدہ کے استغفار کے لیے اپنے رب سے اجازت طلب کی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی پھر میں نے یہ اجازت طلب کی کہ میں ان کی قبر کی زیارت کروں تو مجھے اس کی اجازت دے دی گئی ‘ سو تم قبروں کی زیارت کیا کرو ‘ یہ موت کو یاد دلاتی ہیں۔(صحیح مسلم الجنائز : ٥٠١‘ رقم الحدیث بلا تکرار ٦٧٩‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٧٣٢٣‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٣٠٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ٢٧٥١‘ مسند احمد ج ٢ ص ١٤٤‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٣٤٣‘ الترغیب ج ٤ ص ٧٥٣‘ مشکوۃ رقم الحدیث : ٣٦٧١‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٦٨٥٢٤ )

امام ابن جوزی نے کتاب الوفا میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے والد (رضی اللہ عنہ) کی وفات کے بعد اپنی والدہ (حضرت) آمنہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس رہے جب آپ کی عمر چھ سال کی ہوئی تو وہ آپ کو اپنے ماموئوں کے پاس بنی عدی بن النجار کے پاس مدینہ میں لے گئیں۔ آپ ان زیارت کے لیے گئیں۔ پھر آپ مکہ روانہ ہوئیں ‘ جب آپ مقام الابواء پر پہنچیں تو آپ فوت ہوگئیں آپ کی قبر وہیں پر ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا تو مقام الابواء میں آپ کی قبر کی زیارت کی ‘ پھر آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی تھی تو مجھے اجازت دے دی ‘ اور میں نے ان کے لیے استغفار کی اجازت طلب کی تو یہ آیت نازل ہوئی :

ماکان للنبی والذین امنوآ ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوآ اولی قربی۔ (التوبہ : ٣١١)

نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے استغفار کریں خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہوں۔

علامہ ابن حجر مکی نے بہت عجیب بات کہی کہ شاید حضرت آمنہ کے لیے استغفار کی اجازت نہ دینے کی حکمت یہ تھی کہ آپ پر نعمت کو مکمل کیا جائے کہ اس واقعہ کے بعد آپ کے لیے حضرت آمنہ کو زندہ کیا ‘ تاکہ آپ پر ایمان لا کر حضرت آمنہ اکابر مومنین سے ہوجائیں ‘ یا ان کے زندہ کرنے اور ان کے ایمان لانے تک ان کے لیے استغفار کی اجازت کو مؤخر کیا تاکہ وہ اس وقت استغفار کا مل کی مستحق ہوجائیں۔ صعلامہ ابن حجر مکی کی عبارت ختم ہوئی) اس عبارت پر یہ اعتراض ہے کہ وہ ایمان لانے سے پہلے مطلقاً استغفار کی مستحق نہیں تھی۔ پھر جمہور کا موقف یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کفر پر مرے (العیاذ باللہ) اور جو احادیث ان کے متعلق وارد ہیں ان میں صحیح ترین حدیث یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے ‘ اور علامہ ابن حجر کا یہ کہنا کہ آپ کے والدین کو زندہ کرنے کی حدیث صحیح ہے ‘ اور جن علماء نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ان میں امام قرطبی ہیں ‘ اور الحافظ محد بن ناصر الدین ہیں ‘ سو اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ حدیث اس کی صلاحیت نہیں رکھتی کہ وہ صحیح مسلم کی اس حدیث کے معارض ہو سکے ‘ علاوہ ازیں حفاظ نے اس حدیث کی سند پر طعن کیا ہے ‘ اور ان کے ایمان لانے کے جواز سے یہ چیز مانع ہے کہ موت کے بعد ایمان لانا اجماعاً غیر مقبول ہے ‘ جیسا کہ اس پر کتاب اور سنت میں دلائل ہیں ‘ اور مکلف سے جو ایمان مطلوب ہے وہ ایمان غیبی ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

ولو ردوا لعادوا لما نھوا عنہ۔ (الانعام : ٨٢) اور اگر ان (کافروں) کو دنیا کی طرف لوٹا دیا جائے تو وہ پھر دنیا میں وہی کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا۔

بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ آپ کے والدین اھل فترت میں سے تھے (یعنی اس دور کے لوگوں میں سے تھے جس کے لیے کسی نبی کی بعثت نہیں تھی اور وہ کسی حکم شرعی کے مکلف نہیں تھے) اور اہل فترت پر عذاب نہیں ہوتا ‘ سو صحیح مسلم کی اس حدیث سے ان کا بھی رد ہوجاتا ہے۔ حافظ سیوطی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کی نجات کے متعلق تین رسالے لکھے ہیں اور ان میں جانبین کے دلائل کا ذکر کیا ہے۔ جو اس مسئلہ کی تفصیل جاننا چاہتاہو اس کو ان رسائل کا مطالعہ کرنا چاہیے۔(مرقات ج ٤ ص ٣١١‘ مطبوہ مکتبہ امدادیہ ملتان ‘ ٠٩٣١ ھ)

ہم کو حافظ سیوطی کے سات رسائل دستیاب ہوئے جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کریمین کے ایمان پر دلائل دے گئے ہیں سابقہ اوراق میں ہم نے ان کا ترجمہ اور خلاصہ پیش کیا ہے۔

ملا علی قاری کے دلائل پر مصنف کا تبصرہ 

ملاعلی قاری کی نصیحت کے مطابق نہ صرف ہم نے ان رسائل کا مطالعہ کیا بلکہ ان رسائل کا خلاصہ عام قارئین کے لیے بھی پیش کردیا ‘ کیونکہ عام مسلمان تو الگ رہے خواص اور علماء کی دسترس میں بھی یہ رسائل نہیں ہیں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کے ایمان کی نفی پر ملا علی قاری اور دیگر مفکرین کی قوی ترین دلیل صحیح مسلم کی حدیث ٥٠١ ہے جس میں مذکور ہے کہ آپ نے اپنی والدہ کے لیے استغفار کی اجازت مانگی تو آپ کو اس کی اجازت نہیں دی گئی اور آپ نے ان کی قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی تو آپ کو اس کی اجازت دی گئی۔

ہم اس کا جواب ذکر کرچکے ہیں کہ استغفار کی اجازت نہ دینے کا واقعہ پہلے کا ہے ‘ اور آپ کے والدین کا زندہ کیا جانا اور ان کا ایمان لانا بعد کا واقعہ ہے ‘ جو حجۃ الوداع کے موقع کا ہے اور اسی وجہ سے امام ابن شاہین اور دیگر ائمہ اور محققین نے اس حدیث کو صحیح مسلم کی حدیث کے لیے نا سخ قرار دیا ہے ‘ ثانیا ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ کو اپنی والدہ کے لیے استغفار سے اس لیے منع فرمایا کہ اگر غیر معصوم کے لیے استغفار کیا جائے تو اس کے متعلق گناہ کا وہم ہوتا ہے تو آپ کو حضرت آمنہ کے لیے استغفار کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی کہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ وہ گنہگار تھیں اس لیے آپ نے ان کے لیے استغفار کیا اور یہ وجہ نہیں کہ وہ معاذ اللہ مشرکہ تھیں ‘ کیونکہ قبل از بعثت ان کا شرک بالکل ثابت نہیں وہ اصحاب فترت میں سے تھیں بلکہ وہ ملت ابراہیم پر تھیں ‘ اور ہم یہ کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی حدیث میں بھی آپ کے ایمان پر دلیل ہے کیونکہ اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ آپ کو حضرت آمنہ کی قبر زیارت کی اجازت دی گئی اور کافروں کی قبر کی زیارت کی آپ کو اجازت نہیں ہے بلکہ ان کی قبروں پر کھڑے ہونے کی بھی آپ کو اجازت نہیں ہے قرآن مجید میں ہے :

ولاتصل علی احد منہم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ ط انہم کفروا باللہ ورسولہ وما توا وھم فسقون۔ (التوبۃ : ٤٨ )

اور ان میں سے کوئی مرجائے تو آپ اس کی ہرگز نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں ‘ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور فسق کی حالت میں مرگئے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت آمنہ (رض) معاذ اللہ کافرہ نہیں تھیں ورنہ ان کی قبر پر کھڑے ہونے کی اور ان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت نہ دی جاتی۔

اگر یہ کہا جائے کہ اگر حضرت آمنہ پہلے ہی مومنہ تھیں تو پھر حجۃ الوداع کے موقع پر ان کو قبر میں زندہ کرنے کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی کیا تو جیہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ پہلے صرف توحید پر ایمان لائی تھیں اور زندہ کیے جانے کے بعد سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور آپ کی مکمل شریعت پر ایمان لائیں۔

ملاعلی قاری نے یہ تو لکھا ہے کہ مسلم کی اس حدیث سے ان لوگوں کا بھی رد ہوجاتا ہے جو کہتے ہیں کہ آپ کی والدہ اہل فترت سے تھیں ‘ ہم پوچھتے ہیں کیا حضرت آمنہ اہل فترت سے نہیں تھیں ! کیا انہوں نے کسی نبی کی بعثت کا زمانہ پایا تھا ! اور جب انہوں نے کسی نبی کی بعثت کا زمانہ نہیں پایا تو ان کو معذب ماننا کیا قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف نہیں ہے :

وماکنا معذبین حتی نبعث رسولا۔ (بنی اسرائیل : ٥١) ہم اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں ہیں حتی کہ ہم رسول بھیج دیں۔ (بنی اسرائیل : ٥١ )

اور علماء امت کا اس پر اجماع ہے کہ اصحاب فترت غیر مکلف اور غیر معذب ہیں۔

ملاعلی قاری کے افکار پر ان کے استاذ ابن حجر مکی کا تبصرہ 

علامہ عبدالعزیز پر ھاروی لکھتے ہیں :

اسانید ضعیفہ سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد اور آپ کی والدہ کو زندہ کردیا۔ اور وہ دونوں آپ پر ایمان لائیں اس لیے تھا کہ ان کو یہ کرامت بھی حاصل ہو ‘ اور محقق جلال الدین سیوطی نے ان کے ایمان کے اثبات میں چھ رسالے لکھے ہیں۔ ملا علی قاری نے ایک رسالہ میں ان کا کفر ثابت کیا ہے۔ پھر ان کے استاذ علامہ ابن حجر مکی نے خواب میں دیکھا کہ ملا علی قاری چھت سے گرپڑے اور ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی ‘ اور کہا گیا کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کی توہین کی سزا ہے ‘ پھر جس طرح انہوں نے خواب دیکھا تھا ویسا ہی ہوگیا ‘ جو اس مسئلہ پر بصیرت حاصل کرنا چاہیے وہ علامہ سیوطی کے رسائل کا مطالعہ کرے۔ (نبراس ص ٦٢٥ ذ شاہ عبدالحق اکیڈمی بند یال ‘ ٧٩٣١ ھ)

ملاعلی قاری پر علامہ آلوسی کا تبصرہ 

الذی یرک حین تقوم۔ وتقلبک فی السجدین۔ (الشعرائ : ٩١٢۔ ٨١٢)

اس کی تفسیر یہ ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ مومنین کی پشتوں میں منتقل ہوتے رہے ہیں اور اس آیت سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کریمین کے ایمان پر استدلال کیا گیا ہے اور بہ کثرت اجلہ اہل سنت کا یہی مذہب ہے ‘ اور مجھے اس شخص کے اوپر کفر کا خطرہ ہے جو الدین کریمین کو کافر کہتا ہے ‘ ملا علی قاری او ان جیسے لوگوں کی ناک کو خاک میں لتھیڑتے ہوئے لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ یہ آیت اس مذہب پر دلیل قطعی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دیکھنے سے ایسا دیکھنا مراد ہے جو اس کی شان کے لائق ہے اور عارفین کے نزدیک اللہ تعالیٰ موجود اور معدوم خارجی دونوں کو دیکھتا ہے اس لیے یہ نہ کہا جائے کہ جب آپ متقدمین کی پشتوں میں اپنے وجود خارجی کے ساتھ نہیں تھے تو اللہ تعالیٰ آپ کو کیسے دیکھتا تھا ! اور انہوں نے کہا کہ معدوم کو اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کی مثال ایسے ہے جیسے ہم خواب میں قیامت وغیرہ کو دیکھیں ( میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کی کوئی مثال نہیں ہے ‘ سعیدی غفرلہ) اور بہ کثرت علماء نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کا تعلق معدوم کے ساتھ نہیں ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ جو آپ کو ساجدیں کی پشتوں میں دیکھ رہا تھا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم ہے۔(روح المعانی جز ٩١ ص ٧١٢‘ مطبوہ دارالفکر بیروت : ٧١٤١ ھ)

ملاعلی قاری نے لکھا ہے کہ والدین کریمین کے ایمان پر حافظ سیوطی کے تین رسائل ہیں ‘ علامہ عبدالعزیز پر ھاروی نے لکھا ہے کہ چھ رسائل ہیں لیکن درحقیقت یہ سات رسائل ہیں جن کا خلاصہ ہم نے یہاں ذکر کردیا ہے اس کے خلاصہ میں ہم نے مکرر دلائل اور مکرر عبارت کو حذف کردیا ہے اور دوراز کا رابحاث بھی حذف کردی ہیں۔

میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کریمین کے ایمان کی بحث اس تفسیر میں تین جگہ پر کی ہے پہلی بار البقرہ : ۱۱۹ میں یہ بحث کی ہے۔ یہ بحث تبیان القرآن ج ١ ص ٣٤٥۔ ٠٤٥ میں ہے ‘ اور دوسری بارالانعام : ۷۵‘ میں یہ بحث کی ہے یہ بحث تبیان القرآن ج ٣ ص ٤٧٥۔ ٣٥٥ میں ہے اور تیسری مرتبہ یہاں (الشعرائ : ۲۱۹) میں یہ بحث کی ہے۔ اور یہاں پر سب سے زیادہ مفصل اور مدلل گفتگو کی ہے ‘ نبر اس کے محشی نے لکھا ہے کہ ملاعلی قاری نے مرنے سے پہلے والدین کریمن کے ایمان کے انکار سے رجوع کرلیا تھا ‘ اس مسئلہ میں جن لوگوں کو بھی لغزش ہوئی ان سب کے متعلق ہم یہی حسن ظن رکھتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاف فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 218