أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمۡ عَذَابًا مُّهِيۡنًا ۞

ترجمہ:

بیشک جو لوگ اللہ کو ایذاء پہنچاتے ہیں اور اس کے رسول کو ‘ اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت فرماتا ہے ‘ اور اس نے ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب تیار کررکھا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک جو لوگ اللہ کو ایذاء پہنچاتے ہیں اور اس کے رسول کو ‘ اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت فرماتا ہے ‘ اور اس نے ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اور جو لوگ ایمان والے مردوں کو اور ایمان والی عورتوں کو بلا خطاء ایذاء پہنچاتے ہیں ‘ تو بیشک انہوں نے بہتان کا اور کھلے ہوئے گناہ کا بوجھ اپنے سر پر اٹھایا۔ ( الاحزاب : ٥٨۔ ٥٧ )

اللہ تعالیٰ کی شان میں نازیبا اور گستاخانہ کلمات 

ایذاء کا معنی ہے تنگ کرنا ‘ ستانا ‘ دکھ پہنچانا ‘ اللہ تعالیٰ کو دکھ پہنچانا اور ستانا محال ہے ‘ اس لیے اس سے یہاں مراد ہے کہ وہ ایسے افعال کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند تھے اور ایسی باتیں کہتے تھے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث تھیں ‘ وہ ایمان نہیں لاتے تھے ‘ اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتے تھے اور اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ کے لیے شریک مانتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیز اس کے بیٹے ہیں ‘ اور فرشتوں کو اس کی بیٹیاں کہتے تھے ‘ مخلوق کے دوبارہ پیدا کرنے کو محال سمجھتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور اس کی صفات میں الحاد کرتے تھے ‘ زمانے کو برا کہتے تھے ‘ اپنے ہاتھوں سے بت تراشکر ان کو خدا کہتے تھے ‘ یہودیوں نے کہا اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ‘ نیز انہوں نے کہا اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں ‘ یہ اس زمانہ کے یہود ‘ نصاری اور مشرکین تھے جنہوں نے اللہ عزوجل کے متلعق ایسے گستاخانہ کلمات کہے ‘ ہمارے زمانہ میں ڈاکٹر اقبال نے اللہ عزوجل کے متعلق ایذاء دینے والے گستاخانہ کلمات کہے ‘ وہ کہتا ہے :

ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے 

بتا کیا تو میرا ساقی نہیں ہے 

سمندر سے ملے پیا سے کو شبنم 

بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے 

(بال جبریل ص ٢‘ کلیات اقبال ص ١٧١)

نیز ڈاکٹر اقبال نے کہا :

فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا 

یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک 

(کلیات اقبال ص ١٩٢)

ڈاکٹر اقبال کو خود بھی اعتراف تھا کہ وہ بار گاہ الوہیت میں گساخ ہے ‘ وہ کہتا ہے :

یارب یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن 

کیوں خوار ہیں مردان صفا کیش و ہنر مند 

حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مے گلگوں 

مسجد میں دھرا کیا ہے بجز موعظہ و پند 

فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا 

فرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند 

چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال 

کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند 

(کلیات اقبال ص ١٨٥۔ ١٨٤‘ ملتقطاً )

رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات 

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار نے شاعر ‘ کاہن اور مجنون کہا ‘ آپ کے صاجزادے حضرت عبداللہ یا قسم (رض) فوت ہوگئے تو عاص بن وائل نے آپ کو ابتر کہا ‘ ابتر کا معنی ہے مقطوع النسل ‘ آپ نے حضرت زینب بنت حجش (رض) کو اپنے حبالہ عقد میں لیا تو اس پر کفار اور منفقینطعنہ زن ہوئے کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سینکاح کرلیا ‘ منافقین میں سے عبد اللہ بن ابی نے کہا ہم مدینہ میں جب واپس جائیں گے تو عزت والے ذلت والوں کو نکال دیں گے اور ذلت والوں سے آپ کو مراد لیا ‘ آپ کی عزیز ترین حرم حضرت عائشہ (رض) پر بدکاری کی تہمت لگا کر آپ کو سخت اذیت پہنچائی ‘ ہمارے زمانہ میں بھی بعض لوگوں نے آپ کی شان میں دل آزار باتیں لکھیں :

شیخ اسماعیل دہلوی متوفی 1246 ھ لکھتے ہیں :

اور شیخ یا اسی جیسے اور بزرگوں کی طرف خواہ جنات رسالت مآب ہی ہوں اپنی ہمت کو لگا دینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے زیادہ برا ہے۔ (صراط مستقیم مترجم ص ١٥٠ ملک سراج دین لاہور، صراط مستقیم (فارسی) ص ٨٦ المتکبہ السلفیہ لاہور)

مسروق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کے سامنے ذکر کیا گیا کہ نمازی کے سامنے سے کتا، گدھا اور عورت گذرے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے تو حضرت عائشہ نے فرمایا تم نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے مشابہ کردیا ہے ! اللہ کی قسم میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور میں آپ کے اور قبلہ کے درمیان تخت پر لیٹی ہوتی تھی، مجھے کوئی کام درپیش ہوتا، میں آپ کے سامنے بیٹھنیح کو ناپسند کرتی کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء دوں تو میں آپ کے پیروں کی جانب سے تخت سے نکلی جاتی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥١٤ صحیح مسلم رقم الحدیث بلا تکرار : ٥١٢ الرقم المسلسل : ١١٢٣ سنن النسائی رقم الحدیث ٧١٨ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٧١٣) 

حضرت عائشہ (رض) کو اس سے ایذاء پہنچی کہ عورت کا ذکر کتے اور گدھے کے ساتھ کیا تو انہوں نے فرمایا تم نے ہمیں کتے اور گدھے کے مشابہ کردیا حالانکہ بالخصوص حضرت عائشہ کا ذکر کتے اور گدھے کے ساتھ نہیں کیا گیا تھا، اگر بالخصوص حضرت عائشہ کا ذکر کتے اور گدھے کے ساتھ کیا جاتا تو حضرت عائشہ کو کس قدر ایذاء پہنچتی اور صراط مستقیم کی عبارت میں بالخصوص رسالت مآب کا ذکر بیل اور گدھے کے ساتھ کیا گیا ہے بلکہ نماز میں رسالت مآب کی طرف ہمت (توجہ) لگا دینے کو اپنے گدھے اور بیل کی صورت میں مستغرق ہونے سے زیادہ برا کہا گیا ہے، سوچیے کہ اس عبارت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس قدر ایذا پہنچی ہوگی !

اس طرح شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٤ ھ لکھتے ہیں :

پھر یہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کلب غیب، اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی کیا تخصیص ہے ایسا علم غیت تو زید عمرو بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے بھی حاصل ہے الخ۔ (حفظ الایمان ص ٧، مکتبہ تھانوی کراچی)

اس عبارت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کو صبی (بچوں) مجنوں (پاگلوں) اور حیوانات و بہائم (جانوروں) کے علم کے مشابہ قرار دیا ہے، اگر عالم عالم دین کے علم کو بھی پاگلوں اور جانوروں کے علم کے مشابہ کہا جائے تو اس کو ایذاء پہنچے گی تو ان کو اس تشبیہ سے کس قدر ایذاء پہنچی ہوگی جن کا مرتبہ اللہ کے بعد سب سے زیادہ ہے، جن کا احترام اتنا زیادہ ہے کہ اگر ان کی آواز پر آواز اونچی ہوجائے تو سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔

شیخ خلیل احمد سہارنپوری متوفی ١٣٤٧ ھ لکھتے ہیں :

الحاصل غور کرنا چاہیے کہ شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلادلل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے، شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کر کے ایک شرک کو ثابت کرتا ہے۔ (براہین قاطعہ میں ٥١ مطبع بلالی، ڈھک ہند)

نیز اسی کتاب میں لکھا ہے : اور ملک الموت سے افضل ہونے کی وہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کا علم ان امور میں ملک الموت کی برابر بھی ہوچہ جائیکہ زیادہ۔ (براہین قاطعہ ص ٥٢) 

ان عبارتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم سے شیطان اور ملک الموت کے علم کو زیادہ کہا گیا ہے اور یقینا یہ عبارات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دل آزادی اور آپ کی ایذاء کی موجب ہیں۔

شیخ رشید احمد گنگوہی متوفی ١٣٢٣ ھ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

سوال نمبر 30 شاعر جو اپنے اشعار میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صنم یابت یا آشوب ترک فتنہ عرب باندھتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب : یہ الفاظ قبیح بولنے والا اگرچہ معنی حقیقیہ بمعانی ظاہر خود مراد نہیں رکھتا، بلکہ معنی مجازی مقصود لیتا ہے، مگر تاہم ایہام گستاخی اہانت و اذیت ذات پاک حق تعالیٰ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خالی نہیں، یہی سبب ہے کہ حق تعالیٰ نے لفظ راعنا بولنے سے صحابہ کو منع فرمایا انظرنا کا لفظ عرض کرنا ارشاد کیا (الیٰ قولہ) پس ان کلمات کفر کے لکھنے والے کو منع کرنا شدید چاہیے اور مقدور ہو اگر باز نہ آوے تو قتل کرنا چاہیے کہ موذی و گستاخ شان جناب کبریا تعالیٰ اور اس کے رسول نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ کامل مبوب ص 71-72 مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی)

ظاہر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صنم کہنے پر میں اتنی کھلی ہوئی توہین نہیں ہے جتنی آپ کے علم کو پاگلوں اور جانوروں کے مشابہ کہنے میں یا آپ کے علم کو شیطان اور ملک الموت کے علم سے کم کہنے میں ہے۔

علامہ قرطبی کا حضرت اسامہ کو امیر بنانے پر حضرت عیاش بن ربیعہ …

کی شکایت کو اس آیت کی تفسیر میں ذکر کرنا 

علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی نے آپ کو ایذاء پہنچانے میں یہ مثال بھی ذکر کی ہے :

ہمارے علماء نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید (رض) کو امیر بنانے پر اعتراض کیا تھا اس سے بھی آپ کو ایذاء پہنچی، حدیث صحیح میں ہے حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر بھیجا اور حضرت اسامہ بن زید (رض) کو اس لشکر کا امیر بنادیا تو لوگوں نے اس کی امارت پر طعن کیا پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑے ہو کر فرمایا :

اگر تم اس کو امیر بنانے پر طعن کر رہے ہو تو اس سے پہلے تم اس کے باپ کی امارت پر طعن کر رہے تھے اور اللہ کی قسم ! وہ بیشک ضرور امارت کے لائق تھے اور وہ بیشک میرے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے اور ان جے بعدم جھے یہ (حضرت اسامہ) لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٣٠ صحیح مسلم رقم الدیث : ٢٤٢٦ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨١٦) (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص ٢١٦، دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

ہمارے نزدیک علامہ قرطبی کا اس مثال کو ان لوگوں کے بیان میں ذکر کرنا صحیح نہیں ہے، جن لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچائی تھی، کیونکہ اس حدیث میں جن اعتراض کرنے والوں کا ذکر ہے ان میں حضرت عیاش بن ابی ربیعہ تھے جو صحابی رسول تھے اور سابقین اولین میں سے تھے۔

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفر کے آخر میں غزوہ روم کے لئے صحابہ کو طلب کیا تھا اور حضرت اسامہ (رض) کو بلا کر فرمایا تم وہاں جائو جہاں تمہارے باپ کو شہید کیا گیا تھا میں نے تم کو اس لشکر کا امیر بنادیا ہے، اس وقت حضرت اسامہ کی عمر فرمایا تم وہاں جائو جہاں تمہارے باپ کو شہید کیا گیا تھا، میں نے تم کو اس لشکر کا امیر بنادیا ہے اس وقت حضرت اسامہ کی عمر اٹھارہ سال تھی، جن لوگوں کو اس لشکر کے لئے بلایا تھا ان میں مہاجرین اور انصار میں سے اکابر صحابہ تھے، ان میں حضرت ابوبکر حضرت عمر، حضرت ابوعبیدہ حضرت سعد، حضرت قتادہ بن النعمان اور حضرت سلمہ بن اسلم تھے، بعض صحابہ نے اس کیشکایت کی ان میں حضرت عیاش بن ابی ربیعہ بھی تھے، حضرت عمر نے ان کا رد کیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعہ کی خبر دی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح فرمایا جس طرح امام بخاری کی روایت میں ہے کہ اگر تم اس کو امیر بنانے پر طعن کر رہے ہو تو اس سے پہلے تم اس کے باپ کی امارت پر طعن کر رہے تھے، اس لشکر کے روم روانہ ہونے سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوگیا تھا، پھر حضرت ابوبکر نے اس لشکر کو روانہ کیا تھا۔ (فتح الباری ج ٨ ص ٥٠٢، دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ کتاب المغازی للواقدی ج ٣ ص ١١٨ عالم الکتب بیروت، ١٤٠٤ ھ)

اور حافظ ابن حجر عسقلانی حضرت عیاش بن ابی ربیعہ کے متعلق لکھتے ہیں :

یہ سابقین اولین میں سے ہیں، انہوں نے دو ہجرتیں کی تھیں ابو جہل نے ان کو دھوکے سے قید کرلیا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قنوت نازلہ میں ان کی رہائی کی دعا فرماتے تھے (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٠٦) یہ جنگ یمامہ یا جنگ یرموک میں شہید ہوے۔ (الاصابہ رقم الحدیث : ٦١٣٨، دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٥ٌ اسد الغابہ رقم الحدیث : ١٤٤٥ ج ٤ ص ٣٠٨ الطبقات الکبریٰ ج ٤ ص ٩٦ طبع جدید، ١٤١٨ ھ تاریخ ومشق الکبیرج ٥٠ ص 160-170 داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)

اور اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچانے والوں پر اس وعید کا ذکر فرمایا ہے : اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت فرماتا ہے اور اس نے ان کے لئے رسوال کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

حضرت عیاش بن ابی ربیعہ اور دیگر صحابہ کی شکایات کی توجیہات 

اگر علامہ قرطبی کی تفسیر کے مطابق حضرت عیاش بن ابی ربیعہ بھی آپ کو ایذا پہنچانے والے تھے تو ان پر بھی یہ وعید منطبق ہوگی حالانکہ حضرت عیاش بن ابی ربیعہ سابقین اولین میں سے ہیں، اس لئے علامہ قرطبی کا ان کو ایذاء پہنچانے والوں میں درج کرنا صحیح نہیں ہے، باقی رہا یہ کہ حضرت عیاش نے حضرت اسامہ کی امارت پر جو طعن کیا تھا پھر اس کا کیا محمل ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس طعن کا یہ معنی نہیں ہے کہ حضرت عیاش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض کیا تھا کہ آپ کا حضرت اسامہ کو لشکر کا امیر بنانا درست نہیں ہے، بلکہ ان کو طبعی طور پر یہ چیز ناگوار گزری تھی کہ تجربہ کار اور اکابر صحابہ کے ہوتے ہوئے ایک نوجوان اور نوخیز صحابی کو لشکر کا امیر بنادیا جائے اور انہوں نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا تھا اور اس کی شکایت کی تھی اس شکایت پر اصرار نہیں کیا تھا اور آپ کے فیصلہ کو طیب خاطر سے قبول کرلیا تھا، بشری تقاضوں سے ایسا ہوجاتا ہے اور اس کی صحابہ میں بہت مثالیں ہیں، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھانے کا ارادہ کیا تو حضرت عمر نے آپ کو منع کیا اور اس پر بہت اصرار کیا، خود فرماتے ہیں مجھے بعد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی اس جرأت پر سخت تعجب ہوتا تھا (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٦٦) جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ میں مشرکین سے صلح کی شرائط طے کیں تو حضرت عمر نے اس پر بھی سخت اعتراضات کئے (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٣٢-٢٧٣١) مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس دن ہدیے پیش کرے تھے جس دن آپ حضرت عائشہ کی باری میں حضرت عائشہ کے گھر ہوتے تھے، اس پر حضرت ام سلمہ اور ان کی حامی دیگر ازواج کو سخت اعتراض تھا حتیٰ کہ انہوں نے حضرت فاطمہ (رض) کو اپنا سفارشی بنا کر یہ کہلوایا کہ آپ ابوبکر کی بیٹی کے معاملہ میں عدل سے کام لیں، اسی طرح حضرت زینب بنت حجش نے بھی آپ سے یہی کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتی ہوں کہ آپ ابن ابی قحافہ کی بیٹی کے معاملہ میں عدل کریں (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٨١) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زینب بنت حجش (رض) کے پاس جاتے تھے وہ آپ کو شہید پل اتی تھیں دیگر ازواج کو یہ ناگوار گذرا اور انہوں نے کہا آپ سے مغافیر کی بو آتی ہے (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٦٧) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھوازن کا مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے، آپ نے قریش کے بعض لوگوں کو سو سو اونٹ دیئے، انصار کے بعض نوجوانوں کو یہ ناگوار گذرا انہوں نے کہا اللہ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مغفرت فرمائے وہ قریش کو عطا کرتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں، حالانکہ ہماری تلواروں سے خون ٹپک رہا ہے، حضرت انس نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا دی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ان لوگوں کو دیتا ہوں جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں، کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ لوگ مال لے کر جائیں اور تم اپنے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لے کر جائو (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣١٤٧) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ بنت قیس کو مشورہ دیا کہ وہ حضرت اسامہ سے نکاح کرلیں تو انہوں نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا پھر آپ کے اصرار سے نکاح کرلیا اور خوش ہوئیں۔ (تاریخ دمشق الکبیر رقم الحدیث : ٢٠٢٤، داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)

کتب احادیث میں اور بھی بہت مثالیں ہیں کہ بعض صحابہ کو طبعی تقاضوں سے کوئی بات ناگوار گزری اور انہوں نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا اور شکایت کی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا تھا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کو عدل کے خلاف کہتے تھے، کسی وجہ سے انہیں آپ کے فیصلہ کی حکمت سمجھ نہ آتی تو وہ شکا یت کر کے آپ کے فیصلہ کی حکمت جاننا چاہتے تھے اور جب انہیں اس حکمت کا پتا چل جاتا تو ان کی شکایت زائل ہوجاتی اور وہ مطمئن ہوجاتے اور حضرت عیاش بن ابی ربیعہ کو بھی جب حضرت اسامہ کو امیر بنانے کی حکومت معلوم ہوگئی تو وہ مطمئن ہوگئے، اور اکابر صحابہ کے ہوتے ہوئے حضرت اسامہ کو لشکر کا امیر بنانے کی حکمت یہ تھی کہ مسلمانوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کو امیر بنانا جائز ہے اور سن رسیدہ اور تجربہ کار لوگوں کے ہوتے ہوئے کم سن اور ناتجربہ کار کو لشکر کا امیر بنانا جائز ہے، اور آزاد کردہ غلام کے بیٹے کو بھی لشکر کا امیر بنانا جائز ہے، اور اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ مسلمانوں کو یہ بتایا جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے غلاموں اور خدا موں کو بھی اتنا نوازا کہ ان کو اس لشکر کا امیر بنایا جس میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ایسے لوگ تھے اور یہ کہ اسلام میں رنگ اور نسب کی اہمیت نہیں ہے، اسلام غلاموں کو بھی امیر بناتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ کفار اور منافقین ایسی اہانت آمیز باتیں کہتے تھے جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچتی تھی اور ان کے متعلق یہ وعید فرمائی کہ ان پر اللہ عزوجل دنیا اور آخرت میں لعنت فرماتا ہے اور اس نے انکے لئے رسوا کرنے والے عذاب کو تیار کر رکھا ہے اور صحابہ کرام نیک بھی بشریٰ تقاضے سے جو شکوہ کیا وہ آپ کے کسی ارشاد کی حکمت سمجھنے کے لئے تھا اس لئے حضرت عیاش بن ابی ربیعہ نے حضرت اسامہ کو امیر بنانے کی جو شکایت کی تھی وہ بھی حکمت سمجھنے کے لئے تھی اور وہ کوئی ایسا طعن نہیں تھا جو اہانت آمیز ہو اور آپ کی ایذا کا باعث ہو، اس لئے علامہ قرطبی کا ان کی شکایت کو اس آیت کی تفسیر میں درج کرنا صحیح نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت فرماتا ہے، اس کا معنی ہے اللہ نے ان کو دنیا اور آخرت میں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 57