أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

عَلَّمَهٗ شَدِيۡدُ الۡقُوٰىۙ ۞

ترجمہ:

سخت قوتوں والے نے ان تک علم پہنچایا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سخت قوتوں والے نے ان تک علم پہنچایا۔ بہت زبردست نے پھر اللہ نے استواء فرمایا۔ اس وقت وہ (نبی یا جبریل) آسمان کے سب سے اونچے کنارے پر تھے۔ پھر وہ ( اللہ، نبی سے) قریب ہوا، پھر زیادہ قریب ہوا۔ تو وہ ( نبی، اللہ سے) وہ کمانوں کی مقدار ( قریب) ہوگئے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ پھر اللہ نے اپنے مقدس بندے کی طرف وحی فرمائی جو بھی وحی فرمائی۔ ( آپ کے) قلب نے اس کی تکذیب نہ کی جو آپ کی آنکھوں نے دیکھا۔ ( النجم : ١١۔ ٥)

حضرت جبریل کی شدید قوت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت جبریل کو دوبارہ دیکھنا

النجم : ٥۔ ٦ میں فرمایا : سخت قوتوں والے نے ان تک علم پہنچایا۔ بہت زبردست نے، تمام مفسرین کی تصریح کے مطابق اس سے مراد حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ہیں۔ حضرت جبریل امین کی شدت اور قوت کا یہ علم تھا کہ انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کو اپنے اپک پر کے اوپر اٹھا لیا پھر ان بستیوں کو اٹھا کر آسمان تک لے گئے، حتیٰ کہ آسمان والوں نے مرغوں کی بانگ اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنیں، پھر ان تمام بستیوں کو پلٹ کر زمین پر پھینک دیا اور ان کی شدت کی یہ کیفیت تھی کہ انہوں نے دیکھا کہ ابلیس، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ارض مقدسہ کی کسی گھاٹی میں کلام کر رہا ہے انہوں نے اپنے پر سے پھونک مار کر سر زمین ہند کے دور دراز پہاڑ پر پھینک دیا، اور ان کی شدت کا یہ عالم تھا کہ قوم ثمود جو بہت جسیم اور بہت طاقت ور تھی ان کی ایک چیخ سے وہ ہلاک ہوگئی اور یہ ان کی قوت تھی کہ وہ آسمان سے انبیاء (علیہم السلام) پر نازل ہوتے اور پلک جھپکنے سے پہلے واپس آسمان پر پہنچ جاتے اور ان کی عقل کی عظمت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی وحی پر امین بنایا۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٨٠۔ ٧٩)

اس کے بعد اللہ نے استواء فرمایا یعنی اپنی شان کے مطابق عرش پر جلوہ فرماہوا، یہ حضرت حسن بصری کی تفسیر ہے۔

اور ربیع بن انس، فزاء، سعید بن مسیب اور سعید بن جبیر نے یہ کہا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک علم پہنچانے کے بعد حضرت جبریل (علیہ السلام) آسمان کے بلند مقام پر پہنچے اور پھر اپنی صورت میں قائم ہوگئے جس صورت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا تھا۔

حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبریل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں صرف دوباردیکھا ہے، اس مرتبہ اس وقت جب آپ نے ان سے ان کی اصل صورت میں دیکھنے کا سوال کیا تو انہوں نے آسمان کے کنارے کو بھر لیا اور دوسری بار اس وقت جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت جبریل (علیہ السلام) کے ساتھ آسمان پر چڑھے اس وقت وہ افق اعلیٰ پر تھے۔ ( المعجم الکبیر رقم الدیث : ١٠٥٤٧، مسند احمد ج ١ ص ٤٠٧، کتاب العظمۃ ج ٢ ص ٧٩١)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 5