٤ – باب

5- حدثنا موسى بن إسماعيل قال حدثنا ابو عوانة قال حدثنا موسى بن أبي عائشة قال حدثنا سعيد بن جبير، عن ابن عباس في قوله تعالى ( لا تحرك به لسانك لتعجل به) ( القيامة :16)، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعالج من التنزيل شدة وكان مما يحرك شفتيه فقال ابن عباس فـانـا أحركهما لكم كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحركهما وقال سعيـد أنـا أحركهما كما رايت ابن عباس يحركهما فحرك شفتيه فانزل الله تعالى (لا تحرك به لسانك لتعجل به (القيامه:16)، قال جمعة له في صدرك وتقراه فإذا قرأناه فاتبع قرانه ( القيامة : ۱۸ )، قال فاستمع له وأنصت( ثم إن علينا بيانه ( القيامة : 19 ) ثم إن علينا أن تقراه فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك إذا أتاه جبـريـل استمع، فإذا انطلق جبريل قراه النبي صلى الله عليه وسلم كما قراه۔

اطراف الحدیث : ۴۹۲۷ 4928 ۴۹۲۹ ۵۰۴۴ 7524

( صحیح مسلم : ۴۴۸ سنن ترمذی:٬۳۳۲۹ سنن نسائی :934

سنن الکبری للنسائی : ۷۹۷۸)

باب

امام بخاری نے کہا کہ ہمیں موسی بن اسماعیل نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا کہ ہمیں ابوعوانہ نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا کہ ہمیں موسی بن ابی عائشہ نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا کہ ہمیں سعید بن جبیر نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ’’ آپ قرآن کے ساتھ عجلت میں ( یاد کرنے کے لیے ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیں‘‘ ( القیامہ16) کی تفسیر میں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے حصول میں مشقت اٹھاتے تھے اور آپ اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے حضرت ابن عباس نے فرمایا: میں تمہارے لیے ہونٹوں کو ہلاتا ہوں جس طرح رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہونٹوں کو ہلاتے تھے اور سعید نے کہا: میں اس طرح ہونٹوں کو ہلاتا ہوں، جس طرح میں نے حضرت ابن عباس کو ہونٹ ہلاتے ہوۓ دیکھا ہے پھر انہوں نے اپنے ہونٹوں کو ہلا یا تو اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ” آپ قرآن کے ساتھ عجلت میں ( یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں ” ( القیامہ 16) حضرت ابن عباس نے کہا: یعنی اس قرآن کو آپ کے سینہ میں جمع کرنا اور آپ کا اس کو پڑھنا( ہمارے ذمہ ہے ) ۔’’ پس جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوۓ کی اتباع کر یں ‘‘(القیامہ :۱۸ ) حضرت ابن عباس نے کہا: ( جبریل کے پڑھنے کے دوران ) آپ سنیں اور خاموش رہیں ۔ پھر آپ کے لیے اس کو بیان کرنا ہمارے ذمہ سے 0‘‘( القیامہ :19 ) یعنی پھر آپ کا اس کو پڑھنا یہ ہمارے ذمہ ہے اس کے بعد جب حضرت جبریل آتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غور سے سنتے پھر جب حضرت جبریل چلے جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح قرآن پڑھتے جس طرح حضرت جبریل نے پڑھا تھا ۔

صحیح البخاری: 5 کے رجال کا تعارف خصوصاً حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ک تعارف

(۱) اس حدیث کے پہلے راوی میں ابوسلمہ موسی بن اسماعیل المنقری یہ بہت بڑے حافظ الحدیث میں یہ رجب 223ھ میں بصرہ میں فوت ہوئے تھے ان سے یحی بن معین بخاری ابوداؤد مسلم اور ترمذی نے احادیث روایت کی ہیں الداؤدی نے کہا: ہم نے ان سے ۳۵ ہزار احادیث لکھی ہیں

(۲) دوسرے راوی ابوعوانہ ہیں ان کا نام الوضاح بن عبد اللہ الیشکری ہے انہوں نے حسن بصری اور ابن سیرین کی زیارت کی ہے اور محمد بن المنکدر سے ایک حدیث کا سماع کیا ہے اور شعبہ وکیع ابن مھدی اور بہت تابعین اور تبع تابعین سے احادیث روایت کی ہیں، ابن ابی حاتم نے کہا: ان کی لکھی ہوئی احادیث صحیح ہیں اور جب وہ اپنے حافظہ سے احادیث بیان کریں تو ان میں بہت اغلاط ہوتی ہیں، یہ بہت صادق تھے ان کی وفات ۱۷۵ھ یا 176ھ میں ہوئی ہے۔

( ۳) تیسرے راوی موسی بن ابی عائشہ ابوالحسن الکوفی الھمدانی ہیں، انہوں نے بہ کثرت مشہور تابعین سے احادیث کو روایت کیا ہے سفیان ثوری یحیی بن معین بخاری اور ابوحبان نے ان کی توثیق کی ہے ان کا نام معروف نہیں ہے

( ۴ ) چوتھے راوی سعید بن جبیر ہیں علم اور عبادت میں ان کی امامت مجمع علیہ ہے ۹۵ ھ میں ان کو حجاج نے شہید کردیا تھا ان کی شہادت کے چند دن بعد حجاج بھی فوت ہو گیا تھا ان کے بعد وہ کسی کو قتل نہیں کر سکا انہوں نے بہت سے صحابہ سے احادیث سنی ہیں ان میں حضرت ابن مسعود حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ عنہم شامل ہیں اور بہت سے تابعین سے بھی سماع حدیث کیا ہے، ان میں زہری بھی ہیں

(۵) پانچویں راوی حضرت عبداللّٰہ بن عباس بن عبد المطلب بن ہشام بن عبد مناف ہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زاد تھے ان کی والدہ حضرت ام الفضل لبابہ الکبری بنت الحارث ہیں، حضرت ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں ان کے عظیم علم کی وجہ سے ان کوحبر الامۃ اور ترجمان القرآن کہا جاتا ہیں یہ چار عبادلہ میں سے ایک ہیں یعنی عبداللہ بن عباس عبد اللہ بن عمر عبد اللہ بن عمرو بن العاص اور عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالی عنہم،امام احمد نے کہا: چھ صحابہ نے رسول اللہ سی نام سے زیادہ روایات کی ہیں : ابو ہریرہ، ابن عباس، ابن عمر،حضرت ام المؤمنین عائشہ، جابر بن عبداللہ اور انس رضی اللہ تعالی عنہم۔ حضرت ابن عباس بنی اللہ نے 1660 احادیث روایت کی ہیں ان میں سے ۹۵ احادیث پر بخاری اور مسلم متفق ہیں اکیس حادیث کے ساتھ بخاری منفرد ہیں اور ۴۹ احادیث کے ساتھ مسلم منفرد ہیں ۔ حضرت ابن عباس ہجرت سے تین سال پہلے شعب ابو طالب میں پیدا ہوئے اور نبی سلم کی وفات کے وقت ان کی عمر تیرہ سال تھی وہ 68 ھ میں طائف میں فوت ہوگئے صحیح قول یہ ہے کہ اس وقت ان کی عمر 71 سال تھی اور اس وقت حضرت ابن الزبیر کی مکہ میں حکومت تھی، حضرت ابن عباس آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے محمد بن حنفیہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تھی ۔ (عمدۃ القاری ج ۱ ص ۱۲۵)

سورۃ القیامۃ :۱۹۔۱۶ کی تفسیر

ایک سوال یہ ہے کہ قرآن مجید میں زبان کو ہلانے کا ذکر ہے جب کہ حضرت ابن عباس نے ہونٹوں کے حرکت دینے کا ذکر کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی تعارض نہیں ہے زبان کی حرکت کو ہونٹوں کی حرکت لازم ہے اور زبان کو حرکت دینے کی ممانعت کا معنی یہ ہے کہ ہونٹوں کو بھی حرکت نہ دیں ۔

القیامۃ :۱۶ میں فرمایا: ( آپ قرآن کو یاد کرنے کے لیے ) عجلت کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں

حضرت ابن عباس رضی التعالی عنہم بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ پر قرآن مجید کی کوئی آیت نازل ہوتی تو آپ جلدی جلدی اپنی زبان کو حرکت دیتے آپ حضرت جبریل میں علیہ السلام کے ساتھ اس آیت کو دہراتے رہتے تھے آپ کا ارادہ یہ ہوتا تھا کہ آپ اس

آیت کو حفظ کر لیں تب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی : آپ ( قرآن کو یاد کرنے کے لیے ) عجلت کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ

دیں آپ اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے سفیان نے اپنے ہونٹوں کو حرکت دے کر دکھایا امام ابوعیسی ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے

القیامۃ : ۱۷ میں فرمایا: بے شک اس کو ( آپ کے سینہ میں جمع کرنا اور آپ کا اس کو پڑھنا ہمارے ذمہ ہے

حضرت ابن عباس نے فرمایا: یعنی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اس قرآن کو آپ کے سینہ میں جمع کر میں پس جب ہم قرآن کی کوئی آیت نازل کریں تو آپ غور سے سنیں، پھر یہ ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اس قرآن کو آپ کی زبان سے پڑھوائیں اس کے بعد جب حضرت جبریل آتے تو آپ سر جھکا کا کر بیٹھ جاتے، پھر جب وہ چلے جاتے تو آپ قرآن مجید کی ان آیتوں کو اسی طرح پڑھ لیتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے وعد وفر مایا تھا ۔ ( صحیح البخاری : 4920 صحیح مسلم : 448 سنن ترمذی:۳۳۲۹)

مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت جبریل دوبارہ آپ کے پاس آئیں اور آپ کے سامنے دوبارہ ان آیات کو پڑھیں اور آپ سن کر ان کو دہرائیں حتی کہ آپ کو وہ آیات حفظ ہوجائیں ۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ اے محمد صلی اللہ علیہوسلم! ہم یہ آیات آپ سے اس طرح پڑھوا ئیں گے کہ آپ ان کو نہیں بھولیں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

سنقر نك فلا تنسى. ( الاعلى :6)

ہم عنقریب آپ کو پڑھائیں گے سوآپ نہیں بھولیں گے ۔

(تفسیر کبیر ج۱۰ص ۷۲۸ داراحیاء التراث العربی بیروت 1415ھ )

القیامۃ : ۱۸ میں فرمایا: سو جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو آپ پڑھے ہوۓ کی اتباع کریں 0

اس آیت میں اللہ تعالی نے حضرت جبریل علیہ السلام کے پڑھنے کو اپنا پڑھنا قرار دیا ہے اور یہ آیت حضرت جبریل علیہ السلام کے شرف عظیم پر دلالت کرتی ہے، ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسی متعدد آیات میں جن میں اللہ تعالی نے آپ کے فعل کو اپنا فعل قرار دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر انصار سے ان کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا تھا اللہ تعالی نے فرمایا:

إن الله اشترى من المؤمنين أنفسهم وأموالهم بأن لهم الجنة (التوبہ :111)

 

بے شک اللہ نے مؤمنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا ۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو اپنے ہاتھ پر بیعت کرنا قراردیا:

إن الذين يبايعونك إنما يبايعون اللہ له يد اللہ فوق ایدیهم . ( الفتح:۱۰)

بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ یقینا اللہ سے بیعت کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے ۔

حالانکہ ان کے ہاتھوں پر آپ کا ہاتھ تھا ۔ اسی طرح فرمایا:

وما رميت إذ رميت ولكن الله رمى ( الانفال : ۱۷ ) اور آپ نے (حقیقت میں ) کنکریاں نہیں ماریں جب آپ نے ( بہ ظاہر ) کنکریاں ماری تھیں لیکن وہ کنکر یاں اللہ نے ماری تھیں۔

اسی طرح یہ آیت ہے:

من يطع الرسول فقد أطاع الله (النساء:۸۰) جس نے رسول کی اطاعت کر لی۔ اس نے اللہ کی اطاعت کرلی۔

حضرت جبریل کے پڑھنے کی اتباع کا معنی

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب حضرت جبریل میں قرآن پڑھیں تو آپ ان کے پڑھنے کی اتباع کریں ۔

قتادہ نے کہا: اس کا معنی یہ ہے کہ آپ قرآن کے حلال اور حرام میں اس کی اتباع کر یں ۔

صحیح یہ ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ آپ کا پڑھنا حضرت جبریل کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ نہیں ہونا چاہیے بلکہ واجب ہے کہ جب تک حضرت جبریل پڑھتے رہیں، آپ خاموشی سے ان کے پڑھنے کو سنتے رہیں، حتی کہ جب حضرت جبریل اپنے پڑھنے

سے فارغ ہو جائیں تو اس کے بعد آپ پڑھنا شروع کریں اور پڑھنے کی اتباع کا یہی معنی ہے اور حلال اور حرام میں قرآن مجید کی

اتباع کا یہ کوئی مقام نہیں ہے جیسا کہ اس سے پہلے’’ صحیح بخاری‘‘ کی روایت سے گزر چکا ہے کہ جب حضرت جبریل علیہ السلام قرآن مجید کی کسی آیت کو لے کر نازل ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر جھکا کر سنتے رہتے تھے اور جب حضرت جبریل چلے جاتے تو پھر آپ پڑھنا شروع کرتے ۔

القیامۃ :19 میں فرمایا: پھر اس کا معنی بیان کرنا ہمارے ذمہ ہے

حضرت جبریل سے قرآن مجید کے معانی پوچھنے کی ممانعت

 

امام رازی فرماتے ہیں: یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبریل کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پڑھتےتھے اور ان کے پڑھنے کے درمیان میں قرآن مجید کے مشکل مباحث اور اس کے معانی کے متعلق حضرت جبریل سے پوچھتے رہتے تھے تو اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں باتوں سے منع کیا اور فرمایا: آپ حضرت جبریل کے ساتھ ساتھ نہ پڑھیں بلکہ ان کے پڑھنے کے بعد پڑھیں اور قرآن مجید کے معانی کے متعلق آپ پریشان نہ ہوں، نہ حضرت جبریل سے اس کے معنی کے متعلق پوچھیں، اس کا معنی بیان کرنا ہمارے ذمہ ہے ۔ ( تفسیر کبیر ج۱۰ص ۷۲۹ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۴۱۵ھ )

امام ابو منصور محمد بن محمد بن محمود ماتریدی سمرقندی حنفی متوفی ۳۳۳ھ اس بحث میں لکھتے ہیں:

اس آیت کا معنی ہے : جن آیات کو ہم نے اجمالا نازل کیا ہے ان کا بیان کرنا ہم پر لازم ہے پس اس کے بیان سے اس کا اتمام کردیا جاۓ گا اور یہ بتایا جاۓ گا کہ وہ کام جائز ہے یا مستحسن ہے کیونکہ فرائض کی کئی شاخیں ہوتی ہیں ان میں ارکان لوازم اور

آداب ہوتے ہیں اور اس میں یہ دلیل ہے کہ خطاب کے وقت سے بیان کو مؤخر کرنا جائز ہے اور فرمایا: ہم پر بیان کرنا لازم ہے یعنی اس میں یہ کنایہ ہے کہ اس کا تعلق اصول کے ساتھ ہے یا فروع کے ساتھ ہے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اصول اور کنایات کو بیان کیا جاۓ گا اور بعد میں جو مجتہد میں ان آیات میں غور وفکر کریں گے ان پر ان آیات کے مقاصد کھول دیئے جائیں گے ۔

( تاویلات اہل السنۃ ج ۵ ص ۳۳۹ مؤسسة الرسالة ناشرون ۱۴۲۵ھ )

اس حدیث کی شرح ہم نے’’ شرح صحیح مسلم‘‘ میں بھی کی ہے وہاں ان امور میں سے کسی چیز کا ذکر نہیں ہے وہاں ہم نے اس

مسئلہ کی مفصل تحقیق کی ہے کہ جب قرآن مجید پڑھا جاۓ تو اس کو سننا فرض عین ہے یا فرض کفایہ۔ (دیکھئے: شرح صحیح مسلم : ۹۰۸۔ ج ۱ ص 1242) قرآن مجید سننے کی تحقیق ہم نے اپنی تفسیر میں بھی کی ہے ۔ (دیکھئے: تبیان القرآن ج ۴ ص 516 – ۵۱۵ ۱۷ الاعراف: ۲۰۴)