۱۲- باب من جعل لأهل العلم اياما معلومة

جس شخص نے اہل علم کے لیے معین دن مقرر کیے

اس باب کی باب سابق کے ساتھ اس طرح مناسبت ہے کہ اس باب میں علم اور نصیحت کے معاملہ میں مسلمانوں کی رعایت کرنے کا بیان تھا، تاکہ وہ اکتا نہ جائیں اور اس باب میں معین دنوں میں ان کی تعلیم کا ذکر ہے، تاکہ ہر روز تعلیم دینے سے وہ اکتا نہ جائیں ۔

۷۰- حدثنا عثمان بن أبي شيبة قال حدثنا  جرير، عن منصور، عن أبي وائل قال كان عبد اللہ يذكر الناس في كل خميس، فقال له رجل يا أبا عبدالرحمن ، لوددت أنك ذكرتنا كل يوم، قال أما إنـه يمنعنى من ذلك أني أكره أن أملكم وانی اتـخـولـكـم بالموعظة ، كما كان النبي صلی اللہ عليه وسلم يتخولنا بها، مخافة السامة علينا ۔

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ ہمیں عثمان بن ابی شیبہ نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں: ہم کو جریر نے حدیث بیان کی از منصور از ابی وائل انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لوگوں کو ہر جمعرات کے دن نصیحت کرتے تھے،  ان سے ایک شخص نے کہا: اے ابوعبدالرحمان! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں ہر روز نصیحت کیا کریں، حضرت ابن مسعود نے کہا: لیکن مجھے جو چیز اس سے باز رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ میں تمہیں ملال اور اکتاہٹ میں مبتلا کرنے کو ناپسند کرتا ہوں اور میں نصیحت کرنے میں تمہاری اس طرح حفاظت اور رعایت کرتا ہوں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکتاہٹ اور ملال کے خدشہ سے ہماری حفاظت اور رعایت کرتے تھے ۔

سوئم اور چہلم وغیرہ کا جواز

اس حدیث کی اطراف اور تخریج حدیث : 68 میں دیکھ لی جائیں اور اس کی شرح بھی وہیں دیکھ لی جاۓ ۔ اس حدیث کی باب کے عنوان سے مطابقت بھی ظاہر ہے کیونکہ حضرت ابن مسعود ہر روز نصیحت نہیں کر تے تھے تا کہ لوگ اکتا نہ جائیں اور انہوں نے وعظ اور نصیحت کے لیے جمعرات کا دن مقرر کر لیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نفلی عبادات کے لیے اپنی سہولت سے دن مقرر کرنا جائز ہے اور یہ تعیین عرفی ہے، تعین شرعی نہیں ہے، جیسے آج کل پانچ نمازوں کے اوقات گھڑیوں کے حساب سے مقرر کر لیے جاتے ہیں، اسی طرح نفلی صدقہ اور خیرات کے لیے مسلمان اپنی سہولت کے لیے سوئم، چالیسویں اور بری کا تعین کرلیں یا محفل میلاد کے انعقاد کے لیے یا حضرت غوث اعظم کو ایصال ثواب کے لیے کوئی دن معین کرلیں یا نکاح اور ولیمہ کے لیے یا ختم بخاری اور دستار فضیلت کے جلسہ کے لیے اپنی سہولت کے لیے کوئی تاریخ مقرر کرلیں تو یہ جائز ہے اور یہ تعین عرفی ہے اور اس کو ناجائز اور بدعت کہنا خود ناجائز ہے، تاہم ان تاریخوں کو ضروری اور تعیین شرعی جاننا اور دوسری تاریخوں میں ان کاموں کو ناجائز جاننا بدعت اور حرام ہے ۔