15 – باب الاغتباط في العلم والحكمة

علم اور حکمت میں رشک کرنا

 

باب سابق اور اس باب میں یہ مناسبت ہے کہ باب سابق علم کی فہم میں تھا اور جس شخص میں جس قدر زیادہ علم کی فہم ہوتی ہے وہ اس قدر زیادہ قابل رشک ہوتا ہے ۔

وقال عمر رضي الله عنه تفقهوا قبل أن تسودوا۔

امام بخاری کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا: سیادت (منصب)کے حصول سے پہلے فقہ حاصل کرو۔

حضرت عمر کا یہ ارشاد اس سند سے مروی ہے:

ابن عون از ابن سیرین از احنف انہوں نے کہا کہ حضرت عمر نے فرمایا: سیادت کے حصول سے پہلے فقہ حاصل کرو ۔( مصنف ابن ابی شیبہ: 26107،  ج ۵ ص 285 دار الکتب العلمیہ بیروت 1416ھ )

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لیے فرمایا کہ سیادت حاصل کرنے کے بعد آدمی کو علم حاصل کر نے سے شرم آۓ گی اور اگر بغیر علم کے منصب پر بیٹھے گا تو غلط فیصلہ کرے گا اس لیے حصول منصب سے پہلے اس کا علم حاصل کرے، ہمارے ملک میں سینٹ اور قومی اسمبلی کے ممبران اسلامی قانون بناتے ہیں اور ان کو اسلام کے اصول اور فروع کا کوئی علم نہیں ہوتا، اور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز احکام شرعیہ کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، حالانکہ وہ مختصر القدوری سے بھی نابلد ہوتے ہیں ۔

قال أبو عبدالله وبعد أن تسودوا وقد تعلم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في كبر سنهم ۔

امام ابوعبد اللہ ( بخاری ) نے کہا: اور حصول منصب کے بعد عم حاصل کرو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے بڑی عمر کے بعد بھی علم حاصل کیا۔

۷۳- حدثنا الحميدي قال حدثنا سفيان قال حدثني إسماعيل بن أبي خالد على غير ما حدثناہ الزهري قال سمعت قيس بن ابی حازم قال سمعت عبدالله بن مسعود قال قال النبي صلى الله عليه وسلم لا حسد إلا في إثنتين رجل آتاه اللہ مالاً فسلط على هلكته في الحق ، ورجل آتاه اللہ الحكمة فهو يقضى بها ويعلمها. اطراف الحدیث :۱۴۰۹۔۷۱۴۱-7316

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ ہمیں حمیدی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں سفیان نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے اسماعیل بن ابی خالد نے حدیث بیان کی، اس کے سوا جو ہم کو زہری نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوۓ سنا،  وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: حسد ( رشک) صرف دو آدمیوں میں کیا جاۓ ،ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال دیا ہو اور وہ اس کو مصارف حق میں خرچ کرے، دوسرا وہ شخص جس کو اللہ نے حکمت عطا کی ہو اور وہ اس حکمت ( علم ) کے مطابق فیصلہ کرے اور لوگوں کو تعلیم دے۔

( صحیح مسلم؛816، سنن ابن ماجه: ٬۴۲۰۸ مسند الحمیدی: ۹۹ السنن الکبری للنسائی 5840، مسند ابویعلی : ۵۰۷۸ صحیح ابن حبان : ۹۰ المعجم الاوسط :۱۷۳۳ حلیۃ الاولیاء ج ۷ ص  363،  سنن بیہقی ج۱۰ص ۸۸ شعب الایمان : ۷۵۲۸ شرح السنه : ۸ ۱۳ مسند ابوداؤد الطیالسی :369،  مسند احمد ج ۱ ص ۳۸۵ طبع   قدیم مسند احمد :۶۵۱ ۳- ج ۶ ص ۱۶۲ مؤسسة الرسالة بیروت )

اس حدیث کی باب کے عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ باب کا عنوان ہے : علم میں رشک کرنا اور حدیث میں بھی اسی کا بیان ہے۔

حدیث مذکورہ کے رجال کا تعارف

اس حدیث کے تمام رجال کا تعارف ہو چکا ہے ۔ ( عمدة القاری ج ۲ ص ۸۴ )

حسد اور رشک کا معنی

اس حدیث میں حسد کا لفظ ہے، حسد کا معنی ہے کہ کوئی شخص کسی میں کوئی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرے کہ اس شخص کی یہ نعمت زائل ہو جاۓ، خواہ اس کو وہ نعمت ملے یا نہ ملے اس کے مقابلہ میں الغبطة‘‘ ( رشک کرنا ہے ) اس کا معنی ہے کہ کوئی شخص کسی میں کوئی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرے کہ اس کے پاس بھی یہ نعمت برقرار ہے اور اس کو بھی یہ نعمت مل جائے اور اس کا معنی صاحب نعمت اور صاحب کمال کی تعریف اور تحسین کرنا ہے حسد کرنا حرام اور رشک کرنا مستحسن ہے ۔

قرآن مجید میں ہے:

ومن شر حاسد إذا حسد (الفلق: 5 )

حسد کی مذمت میں احادیث

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تم حسد کرنے سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے، جس طرح آگ لکڑیوں کو اور خشک گھاس کو کھا جاتی ہے ۔ ( سنن ابوداؤد : ۴۹۰۳ )

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا تم سوار ہو کر مناظر سفر سے عبرت حاصل نہیں کرتے، مسلمانوں نے کہا: جی ہاں! پھر وہ سب سوار ہو کر گئے انہوں نے ایسے مکان دیکھے جن کے رہنے والے فنا ہو چکے تھے اور ان کے مکان ان کی چھتوں پر گرے ہوۓ تھے آپ نے پوچھا: کیا تم ان مکانوں کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: میں ان مکانوں کو اور ان کے رہنے والوں کو نہیں پہچانتا آپ نے فرمایا: یہ وہ لوگ تھے جن کو بغاوت اور حسد نے ہلاک کر دیا بے شک حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے اور بغاوت اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب کرتی ہے اور آ نکھ زنا کرتی ہے (یعنی اس پر ابھارتی ہے ) اور ہاتھ پیر جسم اور زبان اس کی تصدیق کرتے ہیں یا تکذیب کر تے ہیں ۔ ( سنن ابوداؤد : ۴۹۰۴)

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو،  ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھو، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے ۔ ( صحیح البخاری: ۲۰۶۵ صحیح مسلم :۲۵۵۹، سنن ترمذی: ۱۹۳۵ سنن ابوداؤد : ۴۹۱۰)

باب مذکور کی حدیث شرح صحیح مسلم : ۹۳ ۱۷ ۔ ج ۲ ص ۵۹۲ پر مذکور ہے اور اس کی شرح میں صرف رشک اور حسد کا معنی بیان کیا گیا ہے۔