۱۷ – باب قول النبي صلى الله عليه وسلم اللهم علمه الكتاب

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد : اے اللہ ! اس کو کتاب کا علم سکھا۔

 

اس باب کی باب سابق کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ باب سابق میں حضرت ابن عباس کی حر بن قیس کے ساتھ علمی بحث کا ذکر تھا اور اس باب میں حضرت ابن عباس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کا ذکر ہے جس کی طرف عنوان میں اشارہ کیا ہے ۔

٧٥- حدثنا أبو معمر قال حدثنا عبد الوارث قال حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس قال ضمنی رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال اللهم علمہ الكتاب . [ اطراف الحديث : ۱۴۳۔3757۔۷۲۷۰]

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ ہمیں ابو عمر نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں عبد الوارث نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں خالد نے حدیث بیان کی، از عکرمہ از حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سینہ سے لگایا اور آپ نے دعا کی : اے اللہ! اس کو کتاب کا علم سکھا۔

( صحیح مسلم : ۲۴۷۷، سنن ترمذی: ۳۸۲۴،سنن ابن ماجه :۱۶۶ مسند احمد ج ۱ ص ۵۹ ۳ طبع قدیم،  مسند احمد : ۳۳۷۹۔ ج ۵ ص ۷۲ ۳ مؤسسہ الرسالة بیروت)

اس حدیث کی باب کے عنوان کے ساتھ مطابقت بالکل واضح ہے کیونکہ اس حدیث میں وہی دعا مذکور ہے، جو عنوان میں ہے۔

حدیث مذکور کے رجال کا تعارف

(۱) ابو معمر عبداللہ بن عمرو البصری ،یہ حافظ اور حجت ہیں، انہوں نے عبدالوارث الدراوردی وغیرہ سے سماع کیا ہے ان سے ابوحاتم رازی اور امام بخاری وغیرہ نے سماع کیا ہے، یحیی بن معین نے کہا: یہ ثقہ اور عاقل اور منکر تقدیر تھے،  ۲۲۹ھ میں فوت ہو گئے تھے

(۲) عبدالوارث بن سعید التیمی العنبری ،یہ ایوب سختیانی وغیرہ سے روایت کرتے ہیں ابن سعد نے کہا: یہ ثقہ اور حجت تھے، یہ بصرہ میں محرم ۱۸۰ ھ میں فوت ہو گئے.

(۳) خالد بن مہران الحذاء ( موچی ) یہ موچیوں کے ساتھ بیٹھتے تھے لیکن انہوں نے یہ کام نہیں کیا، یہ تابعی ہیں، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی زیارت کی ہے ابوحاتم رازی نے کہا: ان کی حدیث لکھی جاتی ہے،  اس سے استدلال نہیں کیا جاتا، یحیی اور احمد نے کہا: یہ ثقہ ہیں یہ ۱۴۱ھ میں فوت ہوگئے تھے، ان سے بہت بڑی جماعت نے احادیث روایت کی ہیں.

(۴) عکرمہ ابوعبداللہ المدنی، یہ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام ہیں، بر بر اہل مغرب سے ہیں انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر اور بہت سے صحابہ سے سماع کیا ہے یہ اپنے زمانہ کے بہت بڑے علماء میں سے ہیں، ان سے خالد الحذاء اور بہت لوگ روایت کرتے ہیں، کہا گیا ہے کہ ان کی راۓ خوارج کے موافق تھی، نافع وغیرہ نے ان کو جھوٹا کہا امام بخاری نے ان پر اعتماد کیا ہے، ان کی احادیث روایت کرنے کی وجہ سے امام بخاری پر عیب لگایا گیا ہے، تاہم ان کی تعدیل میں بہت اقوال ہیں.

( ۵ ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ان کا تعارف ہوچکا ہے ۔ (عمدۃ القاری ج ۲ ص ۹۹۔ ۹۸)

حضرت ابن عباس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجوہ

اس حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے ساتھ لپٹایا اور میرے لیے یہ دعا کی : اے اللہ! اس کو کتاب کا علم عطا فرما۔

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۵ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

امام بخاری نے فضائل صحابہ میں یہ حدیث روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے مجھے اپنے سینہ کے ساتھ لپٹایا اور یہ دعا کی : اے اللہ ! اس کو حکمت کا علم عطا فرما۔ (صحیح البخاری:3756)

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس اس وقت سمجھ دار لڑ کے تھے اور اس سے یہ ثابت ہوا کہ اپنے رشتہ دار بچہ کوشفقت سے سینہ کے ساتھ لگانا جائز ہے ۔

اس دعا کا سبب امام بخاری نے’’ کتاب الطهارة ‘‘ میں یہ بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا: نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  بیت الخلاء گئے، تو میں نے آپ کے لیے پانی رکھ دیا۔ آپ نے پوچھا: یہ پانی کس نے رکھا ہے؟ آپ کو خبر دی گئی تو آپ نے دعا کی: اے اللہ! اس کو دین میں سمجھ عطا فرما۔ (صحیح البخاری: ۱۴۳ اور صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے: جب آپ بیت الخلاء سے باہر آۓ تو آپ نے پوچھا: یہ پانی کس نے رکھا ہے؟ حضرت ابن عباس نے کہا: میں نے تو آپ نے دعا کی : اے اللہ ! اس کو سمجھ عطا فرما۔( صحیح مسلم : ۲۴۷۷)

نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم جائز اور صحیح ہے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوش ہونا ۔۔۔۔۔ اور شیخ اسماعیل دہلوی کی گستاخانہ عبارت کارد

حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: اس دعا کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابن عباس نے اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شب کے معمولات دیکھنے کے لیے ایک رات گزاری جیسا کہ ان شاءاللہ عنقریب آۓ گا اس میں امام احمد نے یہ روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور اس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ آپ نے مجھ سے فرمایا: کیا سبب ہے کہ میں تمہیں اپنے آگے کرتا تھا اورتم میرے پیچھے ہو جاتے تھے؟ تو میں نے کہا: کیا کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ نماز میں آپ کے آگے ہو جائے حالانکہ آپ اللہ کے رسول ہیں جب آپ نے میرے لیے یہ دعا کی کہ اللہ میرے علم اور فہم میں اضافہ فرماۓ ۔ (فتح الباری ج۱ ص 625 دارالمعرفہ بیروت ۱۴۲۶ھ )

حافظ ابن حجر عسقلانی نے امام احمد کی جس روایت کا حوالہ دیا ہے اس کا متن اس طرح ہے:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں رات کے آخری حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی،  آپ نے مجھے (بائیں جانب سے دائیں جانب کھڑا کرنے کے لیے)  میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گھسیٹا اور مجھے اپنے آگے کیا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے لگے تو میں پیچھے آ گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد مجھ سے فرمایا: اس کا کیا سبب ہے کہ میں تمہیں اپنے آ گے کرتا تھا تو تم میرے پیچھے ہو جاتے تھے؟ میں نے کہا: یارسول اللہ! کیا کسی شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ نماز میں آپ سے آگے ہو جاۓ حالانکہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ کو اللہ نے اتنا مرتبہ عطا کیا ہے! میرے اس جواب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوۓ اور میرے لیے یہ دعا کی کہ اللہ میرے علم اور فہم کو زیادہ فرماۓ ۔الحدیث

شعیب الارنؤط نے کہا ہے : اس حدیث کی سند صحیح ہے اور امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق ہے ۔( حاشیہ مسند احمد ج ۵ ص ۱۷۸)

(مسند احمد ج۱ ص۳۳۰ طبع قدیم مسند احمد :٬3060 ج۵ ص ۱۷۸ مؤسسة الرسالة بيروت )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کرنا جائز اور صحیح ہے، اس عمل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوۓ اور آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے دعا کی اور شیخ اسماعیل دہلوی متوفی 1246ھ  کا یہ لکھنا قطعاً باطل اور مردود ہے :

اور شیخ یا اسی جیسے اور بزرگوں کی طرف خواہ جناب رسالت مآب ہی ہوں، اپنی ہمت کو لگادینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے زیادہ برا ہے، کیونکہ شیخ کا خیال تو تعظیم اور بزرگی کے ساتھ انسان کے دل میں چمٹ جاتا ہے اور بیل اور گدھے کے خیال کو نہ تو اس قدر چسپیدگی ہوتی ہے اور نہ تعظیم بلکہ حقیر اور ذلیل ہوتا ہے اور غیر کی یہ تعظیم اور بزرگی جو نماز میں ملحوظ ہو، وہ شرک کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے ۔ ( صراط مستقیم اردو ص ۱۵۰ ملک سراج دین لاہور، صراط مستقیم فارسی ص ۸۶ المکتبۃ السلفیہ لا ہور ۔ ۲)

نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کے متعلق یہ حدیث بھی ہے:

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے اس دوران نماز کا وقت آ گیا تو مؤذن کی درخواست پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانی شروع کر دی، اثناء نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور آپ صفوں سے گزر کر پہلی صف میں کھڑے ہو گئے،  پھر لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارے اور حضرت ابوبکر نماز میں ادھر ادھر توجہ نہیں کرتے تھے،  جب لوگوں نے بہت زیادہ ہاتھ پر ہاتھ مارے تو حضرت ابوبکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا۔ پس رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ تم کھڑے رہو حضرت ابوبکر نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ پھر حضرت ابوبکر پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھادی،  نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا: اے ابوبکر ! جب میں نے تم کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا، تم کو کس چیز نے منع کیا تھا ؟ حضرت ابوبکر نے کہا: ابوقحافہ کے بیٹے کے لیے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہو جاۓ ۔

(صحیح البخاری: 684،  صحیح مسلم :۴۲۱ الرقم المسلسل : ۹۲۴،سنن ابوداؤد :۰ ۹۴ سنن نسائی: ۷۸۴)

اور تمام دنیا کے مسلمان جب نماز کے تشہد میں’السـلام عـليك ايها النبي ورحمة الله وبرکاتہ‘‘ کہتے ہیں تو نماز میں آپ کی تکریم کرتے ہیں، کیونکہ علامہ شامی متوفی ۱۲۵۲ھ نے لکھا ہے کہ آپ کو سلام کرنے کے قصد سے نماز میں آپ کو سلام کرے، نہ کہ حکایت معراج کے قصد سے اور سلام تعظیم کے لیے کیا جاتا ہے ۔( ردالمحتار ج ۲ ص ۱۹۳ داراحیاء التراث العربی بیروت )

” سنن ترمذی‘‘اور’’ سنن ابن ماجہ” میں حضرت ابن عباس کے لیے جو دعا کی ہے۔۔۔۔۔۔اور صحیح بخاری‘‘ میں جو دعا کی ہے ان کا فرق

اس حدیث میں مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے ان کے لیے کتاب کے علم کے حصول کی دعا کی، اس کتاب سے مراد قرآن مجید ہے، یعنی ان کو قرآن مجید کے معانی اور دین کے احکام کا علم عطا فرما۔

اس پر یہ اعتراض ہے کہ امام ترمذی متوفی ۲۷۹ھ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے دو مرتبہ یہ دعا کی ہے کہ اللہ مجھے حکمت عطا فرمائے ۔ ( سنن ترمذی: ۳۸۲۳)

اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ متعدد واقعات ہوں، ایک مرتبہ آپ نے ان کے لیے کتاب کے علم کی دعا فرمائی ہو اور دوسری بار دو مرتبہ حصول حکمت کے لیے دعا فرمائی، اور کتاب سے مراد قرآن ہو اور حکمت سے مراد سنت ہو، یعنی جن کاموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے عمل کے لیے معین فرمادیا، قرآن مجید کے علم سے مراد یہ ہے کہ جن کاموں کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حلال یا حرام فرما دیا اور جن کاموں کا اللہ تعالی نے حکم دیا یا ان سے منع فرمادیا ان کا علم اور حکمت سے مراد ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا علم اور آپ نے قرآن مجید کے جن مجمل احکام کی تفصیل بیان فرمائی ہے ان کا علم۔

امام ابن ماجہ متوفی ۷۳ ۲ھ نے اس حدیث کو اس طرح روایت کیا ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینہ سے لگا کر یہ دعا کی : اے اللہ ! اس کو حکمت کا اور کتاب کی تاویل کا علم عطا فرما۔ (سنن ابن ماجہ :166)

کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس کے حق میں دعا قبول نہ ہوئی ہو؟

اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول نہ ہوئی ہو؟ میں کہتا ہوں کہ یہ ممکن نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی عام اللہ کے ولی کی دعا کو بھی ضرور بالضرور قبول فرماتا ہے حدیث میں ہے: وان سئلني لاعطينہ  اگر میرا بندہ مقرب مجھ سے سوال کرے تو میں اس کوضرور به ضرور عطا فرماتا ہوں ۔

( صحیح البخاری: 6502،  صحیح ابن حبان : ۳۴۷، کتاب الاسماء والصفات :۴۹۱ مسند احمد ج 6 ص۲۵۶ مسند ابویعلی : ۲۰۸۷،سنن بیہقی ج ۳ ص۳۴۶ المعجم الاوسط : 613،  حلیۃ الاولیاء، ج۱ ص ۱۵ صفوة الصفوۃ ج ۱ ص ۱۵ مشکوۃ:2266،))

اور جب اللہ تعالی عام عباد مقربین کی دعا کو بھی رد نہیں فرماتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی اپنے محبوب اور سید الانبیاء کی دعا کو قبول نہ فرماۓ جب کہ اللہ ہر نبی کی دعا کو قبول فرماتا ہے حدیث میں ہے:۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھ قسم کے لوگوں پر میں نے لعنت کی ہے اور اللہ نے لعنت کی ہے اور ہر نبی کی دعا مقبول ہوتی ہے: (۱) اللہ کی کتاب میں زیادتی کرنے والا (۲) اللہ کی تقدیر کی تکذیب کرنے والا (۳) جبر سے حکومت پر قبضہ کرنے والا، تاکہ ان کو عزت دے جن کو اللہ نے ذلیل کیا اور ان کو ذلیل کرے جن کو اللہ نے عزت دی ہے (۴) اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرنے والا ( ۵ ) اور میری اولاد میں جن چیزوں کو اللہ نے حرام کیا ہے ان کو حلال کرنے والا (۲ ) اور میری سنت کو ( اہانتا ) ترک کرنے والا ۔ ( سنن ترمذی: 2154،  المجم الاوسط : 1688،  المعجم الکبیر: ۲۸۸۳)

اور چونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوگئی تھی، اسی وجہ سے حضرت ابن عباس قرآن مجید کے عالم ہیں، حبر الامت اور بحرعلم میں رئیس المفسرین اور ترجمان القرآن ہیں اور قرآن اور سنت کے علماء راسخین میں سے ہیں ۔

اس باب کی حدیث مذکور شرح صحیح مسلم:6446، ۔ ج۶ ص ۱۱۴۳ پر مذکور ہے اور وہاں اس کی شرح کا عنوان ہے:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی سوانح ۔