۱۸ – باب متى يصح سماع الصغير

کم سن کا سماع حدیث کب صحیح ہوتا ہے؟

اس باب کی باب سابق کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ باب سابق میں حضرت ابن عباس اللہ کے حق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا ذکر تھا اس وقت حضرت ابن عباس کم سن تھے اور سن شعور کو پہنچ چکے تھے اور اس باب میں یہ ذکر ہے کہ جو لڑکا کم سن ہو اور وہ سن شعور کو پہنچ چکا ہو، وہ حدیث کا سماع کر سکتا ہے ۔

سماع حدیث کی عمر کے تعین کی تحقیق

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ ھ لکھتے ہیں:

امام بخاری نے اس عنوان سے امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے، یحیی بن معین نے کہا ہے کہ سماع حدیث کی مدت کم سے کم پندرہ سال ہے،  کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کو غزوۂ احد سے واپس کر دیا گیا تھا، کیونکہ اس وقت ان کی عمر پندرہ سال سے کم تھی، امام احمد نے کہا: جب لڑکا سن شعور کو پہنچ جائے اور وہ سنی ہوئی بات کو سمجھ سکے تو اس کے لیے   حدیث کا سماع صحیح ہے اور حضرت ابن عمر کو اس لیے واپس کیا گیا تھا کہ وہ جہاد اور قتال کا موقع تھا اور خطیب بغدادی نے بہ کثرت ایسی احادیث کو جمع کیا ہے، جن کو صحابہ نے کم عمر میں سنا تھا۔ حضرت البراء بن عازب بھی جنگ بدر میں پندرہ برس سے کم تھے اس لیے ان کو بھی واپس کر دیا گیا تھا، کیونکہ جنگ میں زیادہ قوت اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی حد پندرہ سال ہے، اور سماع حدیث کے لیے اتنی عمر کافی ہے، جس میں لڑکا بات کو سمجھ سکے ۔ (فتح الباری ج۱ ص 626، دار المعرفه بیروت 1426ھ )

حافظ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ۸۵۵ ھ لکھتے ہیں:

قاضی عیاض نے کہا ہے کہ اہل صفہ نے ۵ سال سماع حدیث کی حد مقرر کی ہے کیونکہ حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ  نے ۵ سال کی عمر میں حدیث سنی، اور اس کو روایت کیا اور ابن الصلاح نے کہا: تمام محدثین کے نزدیک ۵ سال کی عمر سماع حدیث کے لیے معیار ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ سماع حدیث کے لیے کسی سن کا تعین نہ کیا جاۓ، جب بھی لڑکے کی عمر اتنی ہو کہ وہ بات سمجھ سکے، اس کا سماع حدیث صحیح ہے خواہ اس کی عمر پانچ سال سے کم ہو ابراہیم بن سعد الجوہری نے کہا: مامون کے پاس ایک چار سال کا بچہ لایا گیا، جوقرآن پڑھتا تھا اور اس کو بھوک لگتی تو وہ روتا تھا اور ابو محمد عبداللہ بن محمد اصبہانی نے پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا اور ابوبکر بن المقری چار سال کی عمر میں حدیث کا سماع کرتے تھے اور حضرت محمود بن الربیع کی حدیث سماع حدیث کے تعین کی دلیل نہیں ہے ۔

٧٦- حدثنا إسماعيل بن أبي أويس قال حدثني مالك ، عن ابن شهاب، عن عبيدالله بن عبدالله بن عتبة، عن عبدالله بن عباس قال أقبلت راكبا علی حـمـار اتان، وأنا يومئذ قد ناهزت الإحتلام، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلى بمنى إلى غير جدار، فمررت بين يدى بعض الصف، وارسلت الاتـان تـرتـع، فدخلت في الصف، فلم ینكر ذلك علی اطراف الحدیث: ۴۹۳-861۔۱۸۵۷۔۴۴۱۲

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ ہمیں اسماعیل بن ابی اویس نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: مجھے امام مالک نے حدیث بیان کی از ابن شہاب از عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ از حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما انہوں نے کہا: میں گدھے( یا ) گدھی پر سوار تھا اور اس وقت میں بلوغت کے قریب تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منی میں بغیر کسی دیوار کی طرف منہ کیے ہوۓ نماز پڑھ رہے تھے، میں کسی صف کے سامنے سے گزرا اور میں نے گدھی کو چرنے چھوڑ دیا، پھر میں صف میں داخل ہو گیا تو کسی نے مجھ پر انکار نہیں کیا۔

صحیح مسلم:٬۵۰۴ سنن ابوداؤد: ۷۱۵ سنن ترمذی: 337، سنن نسائی:۷۵۱، سنن ابن ماجہ : ۷ ٬۹۴ مسند الحمیدی: ۴۷۵ مصنف ابن ابی شیبہ ج ا ص ۲۷۸ منتقی ابن الجارود : ۱۷۸ مسند ابویعلی : ۲۳۸۲ صحیح ابن خزیمہ: ۸۳۳ مسند ابوعوانه ج ۲ ص ۵۴ سنن بیہقی ج ۲ ص276 مصنف عبدالرزاق:۲۳۵۷ صحیح ابن خزیمہ : ۸۳۹ مسند احمد ج ۱ ص ۲۱۹ طبع قدیم، مسند احمد :۱۸۹۱ ج ۳ ص ۳۷۹ مؤسسة الرسالة بیروت 

اس حدیث کی باب کے عنوان کے ساتھ مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابن عباس کی اس روایت کی وجہ سے بعض علماء نے بغیر سترہ کے نمازی کے آگے سے گزرنے کو جائز قرار دیا ہے اور یہ حضرت ابن عباس کے بچپن کا وقت تھا، اس سے معلوم ہوا کہ جب بچہ کسی حدیث کو بلوغ سے پہلے سنے اور بالغ ہونے کے بعد اس حدیث کو روایت کرے تو وہ روایت صحیح ہے۔

حدیث مذکور کے رجال کا تعارف

اس حدیث کے پانچ رجال میں :

(۱) اسماعیل بن عبداللہ ،جو ابن ابی اویس کے نام سے مشہور ہیں۔

( ۲ ) امام مالک ۔

(۳) ابن شہاب۔

( ۴ ) عبیداللہ بن عبدالله۔

(۵) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما،  ان سب کا تعارف ہو چکا ہے ۔ (عمدۃ القاری ج ۲ ص ۱۰۳۔ ۱۰۲)

حدیث مذکور کے معانی اور مسائل

اس حدیث میں مذکور ہے: میں گدھے، گدھی پر سوار تھا’ دراصل حضرت ابن عباس نے پہلے گدھے کہا پھر ان کو خیال آیا کہ وہ گدھی تھی، اس کو اصطلاح میں’’ بدل الغلط ‘‘ کہتے ہیں ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کم سن کا حدیث کو سننا اور اس کی روایت کرنا صحیح ہے اور جس طرح بچہ کم عمر میں کوئی حدیث سنے اور بڑا ہو کر اسے بیان کر سکتا ہے اسی طرح کافر کوئی حدیث سنے اور اسلام لانے کے بعد اس کو بیان کرے تو وہ بھی صحیح ہے جیسے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے حالت کفر میں ھرقل سے جو مکالمہ کیا اس کو اسلام لانے کے بعد روایت کر دیا۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر انسان کوئی غلط کام کرے اس کے بعد کوئی درست کام کرے تو اس کا تدارک ہوجاتا ہے حضرت ابن عباس کا نمازیوں کی صف کے آگے سے گدھی پر سوار ہو کر گزرنا غلط کام تھا اور جب وہ نماز کی صف میں داخل ہو گئے تو یہ درست کام تھا اور اس سے پہلی غلطی کا تدارک ہو گیا اس لیے کسی نے ان پر انکار نہیں کیا۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نمازی کے آگے سے گدھا گزرجاۓ تو اس سے اس کی نماز نہیں ٹوٹتی اور اس سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ نمازی کے آگے سے عورت یا کتا یا گدھا گز ر جاۓ تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے، اور اس حدیث کی زیادہ سے زیادہ یہ تاویل ہوسکتی ہے کہ اس سے نمازی کا خشوع منقطع ہوجاتا ہے نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب بغیر سترہ کے نماز پڑھ ر ہے تھے،  اس صورت میں بغیر سترہ کے نمازیوں کے آگے سے گزرنا جائز نہیں ہے اور حضرت ابن عباس کو کسی نے اس لیے منع نہیں کیا کہ ہو سکتا ہے کہ آپ پر ان کی نظر نہ پڑی ہو۔

* باب مذکور کی یہ حدیث شرح صحیح مسلم:1026۔ ج۱ ص ۱۳۱۷ پر مذکور ہے اور اس کی شرح میں سترہ کی تعریف اور اس کا حکم بیان کیا ہے۔