أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبۡتُمۡ وَمِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَـكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الۡخَبِيۡثَ مِنۡهُ تُنۡفِقُوۡنَ وَلَسۡتُمۡ بِاٰخِذِيۡهِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِيۡهِ‌ؕ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيۡدٌ

ترجمہ:

اے ایمان والو ! (اللہ کی راہ میں) اپنی کمائی سے اچھی چیزوں کو خرچ کرو ‘ اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو ‘ جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں اور (اللہ کی راہ میں) ایسی ناکارہ اور ناقابل استعمال چیز دینے کا قصد نہ کرو جس کو تم خود بھی آنکھیں بند کیے بغیر لینے والے نہیں ہو ‘ اور یقین رکھو کہ اللہ بہت بےنیاز بہت تعریف کیا ہوا ہے

تفسیر:

صدقہ میں دیئے جانے والے مال کی صفات کا بیان :

اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے صدقات اور خیرات کے متعلق چھ آیتوں میں یہ بتایا تھا کہ صدقہ کرنے والے کی نیت میں اخلاص ہونا چاہیے اور لوگوں کو دکھانے اور سنانے کی غرض نہیں ہونی چاہیے اور صدقہ و خیرات کرنیکے بعد فقراء پر احسان جتانا چاہیے اور نہ طعنے دے کر انہیں اذیت پہچانی چاہیے اور محض صفاء باطن اور تز کہ نفس کے لیے صدقہ اور خیرات کرنی چاہیے اس کے بعد آنے والی آٹھ آیتوں (البقرہ : ٢٧٤۔ ٢٦٧) میں بتایا ہے کہ اللہ کی راہ میں جو مال دیا جائے اس مال کی صفت کیسی ہو ‘ وہ ردی ‘ ناکارہ اور ناقابل استعمال نہ ہو ‘ نیز یہ فرمایا ہے کہ اللہ تمہیں اچھا مال دینے کا جو حکم فرمارہا ہے ‘ اس میں اس کی کوئی غرض نہیں ہے اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے اور آخرت میں تم کو اس کا پورا پورا اجر دے دیا جائے گا بشرطیکہ تم صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے صدقہ اور خیرات کرو ‘ نام ونمود کے لیے نہیں ‘ نیز یہ فرمایا ہے کہ تمہارا صدقات کے اصل میں مستحق وہ فقراء ہیں جنہوں نے خود کو علم دین کے حصول کے لیے وقف کیا ہوا ہے جو باوجود سخت ضرورت اور بھوک وپیاس کے اپنی خودداری کی وجہ سے کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے اور ان کی اس روش کی وجہ سے ناواقف لوگ انہیں خوشحال سمجھتے ہیں ‘ نیز یہ فرمایا ہے کہ اگر نیت درست ہو تو علانیہ اور خفیہ ہر طرح صدقہ و خیرات کرنا درست ہے اور صدقہ و خیرات کرنے والے آخرت میں کسی خوف سے دوچار ہوں گے نہ غم سے۔

امام ترمذی کرتے ہیں :

حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے متعلق نازل ہوئی ‘ ہم لوگوں کے کھجوروں کے درخت تھے ‘ اور جس شخص کے پاس جتنی زیادہ یا کم کھجوریں درختوں سے اترتی تھیں وہ اسی حساب سے کھجوریں لاتا تھا ‘ کوئی شخص کھجوروں کا ایک گچھا لاتا کوئی دو گھچے لاتا اور ان کو مسجد میں لٹکا دیتے ‘ اور اہل الصفہ (وہ صحابہ جنہوں نے قرآن و حدیث کو محفوظ کرنے لیے خود کو وقف کرلیا تھا اور وہ دن رات مسجد میں نبوی میں رہتے تھے ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے ایک چبوترہ بنوا دیا تھا ‘ اس وجہ سے انکو اصحاب الصفہ کہا جاتا ہے ‘ صفہ کے معنی چبوترہ ہیں) کے پاس کھانا نہیں ہوتا تھا ‘ ان میں سے جب کسی کو بھوک لگتی تو وہ ان گچھوں پر لاٹھی مارتا تو ان سے آدھ پکی کھجوریں اور چھوارے گرجاتے اور وہ ان کو کھالیتے ‘ ادھر لوگوں کو صدقہ اور خیرات میں خاص رغبت نہیں تھی ‘ وہ کھجوروں کے ایسے گچھے لے کر آتے جن میں سوکھی ہوئی ردی اور بےکار کھجوریں ہوتیں ‘ اور وہ ان کو لا کر لٹکا دیتے ‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل کی : اے ایمان والو ! (اللہ کی راہ میں) اپنی پاکیزہ کمائی سے اچھی اور عمدہ چیزوں کو خرچ کرو ‘ اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں ‘ اور (اللہ کی راہ میں) ایسی ناکارہ اور ناقابل استعمال چیز دینے کا قصد نہ کرو جس کو تم خود بھی آنکھیں بند کیے بغیر لینے والے نہیں ہو۔ (جامع ترمذی ص ٤٢٥۔ ٤٢٤‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

اللہ تبار وتعالیٰ کی راہ میں اس چیز کو صدقہ کرنا چاہیے جو فی نفسہ حلال اور طاہر ہو ‘ اور وہ چیز حلال اور جائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہو ‘ جو چیز فی نفسہ حلال نہ ہو مثلا مردار یا حرام جانور ‘ اس کا صدقہ کرنا جائز نہیں ہے یا وہ چیز فی نفسہ حلال ہو لیکن ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہو مثلا سود ‘ رشوت یا کسب حرام سے جو پیسہ حاصل ہو اس سے کوئی چیز خرید کر صدقہ کی جائے۔

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا ‘ اور اللہ صرف پاکیزہ چیز ہی کو قبول فرماتا ہے ‘ تو اللہ اس صدقہ کو اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے ‘ پھر اللہ اس صدقہ کو پالتا (بڑھاتا) رہتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کو پالتا رہتا ہے حتی کہ وہ کھجور کا صدقہ پہاڑ جتنا ہوجاتا ہے۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ١٨٩ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! (اللہ کی راہ میں) اپنی کمائی سے اچھی چیزوں کو خرچ کرو۔ (البقرہ : ٢٦٧)

حلال کمائی کی مدح اور بربناء ضرورت اولاد کے مال سے کھانے کا جواز :

حافظ سیوطی بیان کرتے ہیں :

امام احمد نے حضرت ابوبردہ بن نیار (رض) سے روایت کرتے ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ سب سے اچھا کسب (کمائی) کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جائز تجارت اور اپنے ہاتھ سے کام کرنا۔

امام عبد بن حمید نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے ‘ حضرت عائشہ (رض) نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اپنی پاکیزہ کمائی سے کھاؤ ‘ اور تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی ہے ‘ تمہاری اولاد اور ان کے اموال تمہاری ملکیت ہیں۔

امام عبد بن حمید حضرت محمد بن منکدر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس مال بھی ہے اور اس کی اولاد بھی ہے ‘ اور میرا باپ کے پاس بھی مال ہے اور اس کی اولاد بھی ہے ‘ اور میرا باپ میرے مال سے لیتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم خود اور تمہارا مال تمہارے باپ کی ملکیت ہے۔

امام عبد بن حمید نے حسن سے روایت کیا ہے کہ والد اپنی اولاد کے مال سے جو چاہے لے سکتا ہے ‘ اسی طرح والدہ بھی ‘ اور اولاد کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے والد کے مال سے اس کی مرضی کے بغیر کوئی چیز لے۔

امام عبدالرزاق اور امام عبد بن حمید نے زہری سے روایت کیا ہے کہ کوئی شخص بغیر ضرورت کے اپنی اولاد کا مال بالکل نہ لے اور ضرورت کے وقت دستور کے مطابق لے ‘ اور ابراہیم سے روایت ہے کہ کھانے ‘ کپڑے اور لباس کے علاوہ اور کچھ نہ لے۔ (الدرالمنثور ‘ ج ١ ص ‘ ٣٤٧ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران)

حرام مال سے صدقہ کرنے کا وبال :

حافظ سیوطی بیان کرتے ہیں :

امام طبرانی نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس کی کمائی حرام ہے اس سے زکوۃ نہیں لی جائے گی۔

امام طبرانی نے ” معجم اوسط “ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کوئی شخص اپنی حلال کمائی سے حج کے لیے جاتا ہے اور سواری پر بیٹھ کر ندا کرتا ہے : ” اللہم لبیک “ تو آسمان سے فرشتہ ندا کرتا ہے ” اللہم وسعدیک “ تمہارا زاد حلال ہے اور تمہاری سواری حلال ہے ‘ تمہارا حج مبرور ہے ‘ اس میں گناہ نہیں ہے ‘ اور جب کوئی شخص حرام کمائی سے حج کیلیے جاتا ہے اور سواری پر بیٹھتا ہے اور ” لبیک اللہم لبیک “ کہتا ہے تو آسمان سے فرشتہ ندا کرتا ہے : تمہار ” لبیک “ کہنا مقبول نہیں ‘ تمہارا سفر خرچ حرام ہے ‘ تمہارا حج غیر مبرور ہے اور مقبول نہیں ہے۔

امام اصبہانی نے ” الترغیب “ میں حضرت عمر بن الخطاب (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے حرام سے حج کیا اور ’ لبیک ’ اللہم لبیک “ کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تمہارا ” لبیک “ کہنا مردود ہے ‘ تمہارا حج مردود ہے۔ (الدرالمنثور ‘ ج ١ ص ‘ ٣٤٧ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران)

امام ترمذی روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں کرتا اور چوری کے مال سے صدقہ قبول نہیں کرتا۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٢٦ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

اگر کسی شخص کے پاس ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ مال ہو اور اب اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ مال اصل مالکوں کو واپس کر دے ‘ اگر وہ فوت ہوچکے ہوں تو ان کے وارثوں کو واپس کردے ‘ اور اگر ان کو پتانہ چلے تو اس مال کو ان مالکوں کی طرف سے صدقہ کر دے اور یہ بہرحال جائز نہیں ہے کہ وہ مال حرام سے زکوۃ ادا کرے ‘ صدقات و خیرات اور حج اور عمرہ کرے ‘ علامہ شامی لکھتے ہیں :

جس نے کسی فقیر کو مال حرام سے کوئی چیز دی اور اس میں ثواب کی امید رکھی تو وہ کافر ہوجائے گا ‘ اور اگر فقیر کو معلوم ہو کہ اس کو مال حرام سے دیا ہے ‘ اور اس نے دینے والے کو دعا دی اور دینے والے نے آمین کہی تو دونوں کافر ہوجائیں گے لیکن تکفیر اس وقت ہو جب اس مال حرام کی حرمت قطعی ہو مثلا سود ‘ یا خمر اور زنا کی آمدنی۔ (رد المختار ج ٢ ص ٢٦ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! (اللہ کی راہ میں) اپنی کمائی سے اچھی چیزوں کو خرچ کرو اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں۔ (البقرہ : ٢٦٧)

عشر کا بیان :

اس آیت میں صدقات فرضیہ زکوۃ اور عشر ادا کرنے کا حکم دیا ہے ‘ امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

عبیدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) سے اس آیت کے متعلق پوچھا : اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں تو حضرت علی نے فرمایا : یعنی دانے (غلہ) پھل اور ہر وہ چیز جس پر زکوۃ ہے۔ (جامع البیان ج ٣ ص ٥٥۔ ٥٤‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

چونکہ اس آیت میں اصالۃ زمین کی پیداوار سے زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے ‘ اس لیے ہم زرعی پیدوار پر عشر میں مذاہب فقہاء بیان کر رہے ہیں۔

عشر کے نصاب میں فقہاء کے نظریات :

غلہ اور پھلوں کی زکوۃ (عشر) کے نصاب میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل حدیث مذکور کی روشنی میں غلہ اور پھلوں کے لیے پانچ وسق (بتیس من) کو نصاب قرار دیتے ہیں۔ جس شخص کے کھیتوں اور باغات سے پانچ وسق یا اس سے زائد پیداوار حاصل ہوجائے اس پر عشر واجب ہوگا جس شخص کی پیداوار پانچ وسق سے کم ہو اس پر عشر واجب نہیں ہوگا

۔ اس کے برخلاف امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ زمین کی پیداوار کے لیے کوئی نصاب مقرر نہیں ہے۔ غلہ پھل اور سبزیوں کی زمین سے جس قدر پیداوار بھی حاصل ہو اس پر عشر یا نصف عشر دینا واجب ہوگا۔

عشر کے نصاب میں ائمہ ثلاثہ کا نظریہ :

علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں : امام مالک ‘ امام ثوری ‘ امام اوزاعی ‘ امام ابن ابی لیلی ‘ امام شافعی ‘ امام ابویوسف ‘ امام محمد اور تمام اہل علم کا قول یہ ہے کہ پھلوں اور غلہ میں زکوۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب ان کی مقدار پانچ وسق کو پہنچ جائے البتہ امام ابوحنیفہ اور مجاہد کہتے ہیں کہ قلیل اور کثیر سب میں زکوۃ واجب ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بالعموم فرمایا ہے : جس زمین کو بارش سیراب کرے اس میں عشر ہے ‘ اور چونکہ زمین کی پیداوار میں سال گزرنے کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہے اس لیے اس کا کوئی نصاب مقرر نہیں اور ہماری دلیل یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پانچ وسق سے کم میں زکوۃ نہیں ہے یہ حدیث خاص ہے اور امام ابوحنیفہ کی پیش کردہ حدیث عام ہے جس کی اس حدیث سے تخصیص کرنا واجب ہے۔ (المغنی ج ٢ ص ٢٩٦‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤٠٥ ھ)

عشر کے نصاب میں امام ابوحنیفہ کا نظریہ :

امام ابوحنیفہ کا نظریہ یہ ہے کہ زرعی پیداوار کا کوئی نصاب نہیں ہے اور زمین سے جس قدر بھی پیداوار حاصل ہو اس پر عشر یا نصف عشر واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

(آیت) ” کلوا میں ثمرہ اذا اثمروا توا حقہ یوم حصادہ “۔ (الانعام : ١٤١)

ترجمہ : درخت کا پھل جب پھل دے تو اس سے کھاؤ اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو۔

اس آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پھلوں سے زکوۃ ادا کرنے کے لیے پھلوں کا کوئی نصاب نہیں بیان کیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ درخت کے پھلوں پر مطلقا عشر واجب ہے ‘ خواہ ان کی مقدار کثیر ہو یا قلیل ‘ نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

(آیت) ” یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ماکسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض “۔ (البقرہ : ٢٦٧)

ترجمہ : اے ایمان والو ! اپنی کمائی سے اچھی چیزوں کو خرچ کرو اور جو کچھ زمین سے ہم نے تمہارے لیے نکالا ہے اس میں (اللہ کی راہ میں خرچ کرو)

امام ابوحنیفہ استدلال یوں ہے کہ اس آیت میں ” ما “ عام ہے جس کا تقاضا ہے : زمین سے ہم نے جو بھی تمہارے لیے نکالا ہے اس میں سے خرچ کرو اور پانچ وسق والی حدیث خبر واحد ہے اور خبر واحد سے قرآن مجید کے عام کو خاص نہیں کیا جاسکتا کیونکہ خبر واحد ظنی ہے اور قرآن مجید کو عموم قطعی ہے اور ظنی دلیل سے قطی کی تخصیص کرنا صحیح نہیں ہے۔

خبر واحد سے قرآن مجید کے عام کو خاص نہ کرنا ‘ امام ابوحنیفہ کا مشہورہ قاعدہ ہے ‘ اور یہ انتہائی دقت نظر اور باریک بینی پر مبنی ہے ‘ اس قاعدہ میں فرق مراتب ملحوظ رکھا گیا ہے اور قرآن مجید سے ثابت شدہ چیز کو حدیث شریف سے ثابت شدہ چیز پر ترجیح اور فوقیت دی گئی ہے۔ فقہ حنیفہ کے متعدد احکام اس قاعدہ پر موقوف ہیں اور یہ صرف فقہ حنفی کی خصوصیت ہے جب کہ دیگر ائمہ ثلاثہ اس اصول کو پیش نظر نہیں رکھتے اور قرآن مجید کے عموم قطعی کی احادیث غیر متواترہ سے تخصیص کرکے قرآن مجید کو حدیث کے تابع کردیتے ہیں ‘ اسی وجہ سے وہ آیت کریمہ ” اخرجنا لکم من الارض “ کی پانچ وسق والی حدیث سے تخصیص کردیتے ہیں۔

علامہ وشتانی ملکی لکھتے ہیں :

ہم آیت کریمہ کے عموم کے مقابلہ میں پانچ وسق والی حدیث سے استدلال کرتے ہیں اور قرآن کریم کے عموم کی خبر واحد سے تخصیص کرنے میں اختلاف ہے۔ (اکمال اکمال المعلم ج ٣ ص ١١٠‘ مطبوعہ دالکتب العلمیہ ‘ بیروت)

قرآن مجید کے علاوہ احادیث صححہ میں بھی زمین کی پیداوار پر زکوۃ ادا کرنے کا حکم عام ہے ‘ امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو زمین بارش یا چشموں سے سیراب ہو یا دریائی پانی سے سیراب ہو اس پر عشر (١٠۔ ١) ہے اور جس زمین کو کنویں کے پانی سے اونٹوں کے ذریعہ سیراب کیا جائے اس پر نصف عشر ہے (یعنی ٢٠۔ ١) ۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٢٠١ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قلیل اور کثیر کا فرق کیے بغیر مطلقا زمین سے حاصل شدہ پیداوار پر عشر یا نصف عشر کا حکم عائد فرمایا اور یہ حدیث عموم قرآن کے مطابق ہے ‘ نیز امام مسلم روایت کرتے ہیں :

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس زمین کو دریا یا بارش سیراب کرے اس پر عشر (١٠۔ ١) ہے اور جس زمین کو کنوئیں کے پانی سے اونٹوں کے ذریعہ سیراب کیا جائے اس پر نصف عشر (٢٠۔ ١ بیسواں حصہ) ہے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٣١٦‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

امام ابوداؤد نے بھی اپنی اسانید کے ساتھ حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت جابر (رض) کی ان دونوں روایات کو ذکر فرمایا ہے۔ (سنن ابوداؤد ج ١ ص ‘ ٢٢٥ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)

امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس زمین کو بارش یا چشمے سیراب کریں اس میں عشر ہے اور جس کو اونٹوں کے ذریعہ کنویں سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر ہے۔ (سنن ابن ماجہ ص ‘ ١٣٠ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

اس حدیث کے بعد امام ابن ماجہ نے حضرت جابر کی حدیث کو بھی اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

امام عبدالرزاق بن ہمام نے اپنی ” مصنف “ میں اس مضمون کی انیس احادیث روایت کی ہیں ‘ ہم ان میں سے چند کا ذکر کر رہے ہیں۔

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ معمر نے کہا : میں نے تمام (معتبر) لوگوں کے پاس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لکھا ہوا فرمان دیکھا کہ جس زمین کو رسیوں اور ڈولوں کے ذریعہ کنویں کے پانی سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر ہے (معمر کہتے ہیں کہ میرے علم میں اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے) اور جس زمین کو بارش یا دریائی پانی سے سیراب کیا جائے اس میں عشر ہے ‘ معمر کہتے ہیں کہ میرے علم میں اس بات میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ (المصنف ج ٤ ص ١٣٤ مطبوعہ ‘ اسلامی بیروت الطبعۃ الاولی ‘ ١٣٩٠ ھ)

اس حدیث کو امام بیہقی نے بھی اپنی ” سنن “ میں روایت کیا ہے۔ (سنن کبری ج ٤ ص ‘ ١٣٠ مطبوعہ نشرالسنۃ ‘ ملتان)

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتین ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے فرمایا : جس زمین کو دریائی پانی ‘ بارش اور چشمے سیراب کریں اس میں عشر ہے اور جس کو رسیوں کے ذریعہ کنویں کے پانی سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر ہے۔ (المصنف ج ٤ ص ١٣٤ مطبوعہ ‘ اسلامی بیروت الطبعۃ الاولی ‘ ١٣٩٠ ھ)

عاصم بن ضمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : جس زمین کو بارش سیراب کرے اس میں عشر ہے اور جس زمین کو ڈول کے ذریعہ کنوئیں سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر ہے (المصنف ج ٤ ص ١٣٣ مطبوعہ ‘ اسلامی بیروت الطبعۃ الاولی ‘ ١٣٩٠ ھ)

مجاہد بیان کرتے ہیں : زمین جس چیز کو بھی نکالے خواہ قلیل ہو یا کثیر اس میں عشر یا نصف عشر ہے (المصنف ج ٤ ص ١٣٩ مطبوعہ ‘ اسلامی بیروت الطبعۃ الاولی ‘ ١٣٩٠ ھ)

حماد کہتے ہیں : ہر وہ چیز جس کو زمین نکالے اس میں عشر ہے یا نصف عشر ہے۔ (المصنف ج ٤ ص ١٣٩ مطبوعہ ‘ اسلامی بیروت الطبعۃ الاولی ‘ ١٣٩٠ ھ)

ابراہیم کہتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس کو زمین نکالے اس میں زکوۃ ہے (المصنف ج ٤ ص ١٣٩ مطبوعہ ‘ اسلامی بیروت الطبعۃ الاولی ‘ ١٣٩٠ ھ)

ائمہ ثلاثہ جو پانچ وسق سے کم میں زکوۃ کو واجب نہیں قرار دیتے قرآن کریم کی عمومی آیت اور ان تمام احادیث اور آثار کے تارک ہیں اور عمومی دلائل کے پیش نظر ان کا نظریہ صحیح نہیں ہے۔

پانچ وسق والی احادیث کی احناف یہ توجیہ کرتے ہیں کہ یہ احادیث اموال تجارت پر محمول ہیں کیونکہ اس وقت پانچ وسق (بارہ سوکلوگرام) دوسودرہم کے برابر ہوتے تھے اس لیے فرمایا کہ پانچ وسق سے کم میں صدقہ نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب :

عشری اور خراجی اراضی کی تعریفیں :

جو زمین عشری ہو اس سے عشر (زمین کی پیداوار کا دسواں حصہ) لیا جاتا ہے اور جو زمین خراجی ہو اس سے خراج لیا جاتا ہے ‘ عشر کی ادائیگی عبادت ہے اور یہ صرف مسلمانوں سے وصو کیا جاتا ہے ‘ اور خراج اصالۃ غیر مسلموں سے لیا جاتا ہے اور اس کی مختلف پیداوار کے اعتبار سے ادائیگی کی مختلف شرح ہے جس کی تفصیل انشاء اللہ عنقریب آرہی ہے ‘ اگر مسلمان کسی خراجی زمین کو خریدلے تب بھی اس سے حسب سابق خراج ہی وصول کیا جائے گا ‘ عشری اور خراجی زمین کے بیان میں علامہ المرغینانی لکھتے ہیں :

ہر وہ زمین جہاں کے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہو جس زمین کو جنگ فتح کر کے مال غنیمت حاصل کرنے والوں (مجاہدین) میں تقسیم کردیا ہو وہ زمین عشری ہے اور ہر وہ زمین جس کو جنگ سے فتح کیا گیا ہو اور وہاں کے رہنے والوں کو اسی زمین پر برقرار رکھا گیا ہو وہ زمین خراجی ہے اور اسی طرح اس زمین کا حکم ہے جہاں کے رہنے والوں سے صلح کرکے اس پر قبضہ کیا ہو ‘ اور مکہ مکرمہ اس قاعدہ سے مستثنی ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو جنگ اور غلبہ سے فتح کیا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہیں رہنے دیا اور ان پر خراج مقرر نہیں کیا ‘ اور ” جامع صغیر “ میں مذکور ہے کہ ہر وہ زمین جس کو جنگ سے فتح کیا گیا ہو اور اس میں دریاؤں کا پانی پہنچتا ہو تو وہ خراجی زمین ہے اور اگر اس تک دریاؤں کا پانی نہ پہنچتا ہو اور اس زمین سے چشمہ نکالا جائے تو وہ عشری زمین ہے ‘ کیونکہ عشر کا تعلق اس زمین سے ہوتا ہے جس میں نشوونماہو ‘ اور نشو و نما کا تعلق اس زمین کے پانی سے ہے اس لیے عشر کے پانی یا اخراج کے پانی سے سیرابی کا اعتبار کیا جائے گا۔

جس شخص نے کسی غیر آباد زمین کو آباد کیا تو امام ابویوسف کے نزدیک اس زمین کے عشری یا خراجی ہونے میں اس کے قرب کا اعتبار کیا جائے گا ‘ اگر وہ خراجی کے قریب ہے تو خراجی ہے اور اگر عشری زمین کے قریب ہے تو عشری ہے ‘ اور امام محمد نے کہا : اگر اس نے اس زمین میں کنواں کھود کر اس کے پانی کو سیراب کیا ہے یا اس زمین کے چشمہ سے اس کو سیراب کیا ہے یا ان بڑے بڑے دریاؤں سے اس کو سیراب کیا ہے جن کا کوئی مالک نہیں ہے تو وہ زمین عشری ہے ‘ اسی طرح اگر اس زمین کو بارش کے پانی سے سیراب کیا ہے تو بھی وہ زمین عشری ہے اور اگر اس زمین کو عجمیوں کی کھودی ہوئی نہروں سے سیراب کیا ہے تو وہ زمین خراجی ہے۔ (ہدایہ اولین ٥٩١۔ ٥٩٠‘ مطبوعہ شرکت علمیہ ملتان)

خراج کی مقدار کا بیان :

حضرت عمر (رض) نے عراق کو فتح کرنیکے بعد جریب (تیس گز زمین) پر ایک صاع (چار کلو گرام غلہ) اور ایک درم مقرر کیا تھا بہ شرطی کہ اس زمین میں پانی پہنچتا ہو ‘ اور جس زمین میں ککڑی ‘ خربوزے اور بیگن وغیرہ سبزیوں کی کاشت ہو اس میں ہر جریب پر پانچ درہم مقرر کیے اور جس انگور کی بیلیں لگی ہوں یا کھجور کے درخت ہوں اس میں ہر جریب پر دس درہم مقرر کیے ‘ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کی جماعت کے سامنے یہ شرح مقرر کی اور کسی نے اس پر انکار نہیں کیا ‘ اس لیے اس پر اجماع ہوگیا ‘ نیز اس لیے کہ کاشتکاری میں کم وبیش مشقت ہوتی ہے ‘ انگوروں کی بیل لگانے میں سب سے کم مشقت اور غلہ اگانے میں سب سے زیادہ مشقت ہے اور سبزیوں کی کاشت میں درمیانی مشقت ہے اور مشقت کے فرق کی وجہ سے وظیفہ خراج میں بھی تفریق کی گئی اور انگوروں کی بیل میں سب سے زیادہ یعنی دس درہم فی جریب وظیفہ مقرر کیا گیا اور غلہ کی کھیتی باڑی میں سب سے کم یعنی ایک صاع غلہ اور ایک درہم فی جریب مقرر کیا گیا اور سبزیوں کی کاشت میں درمیان وظیفہ یعنی پانچ درہم فی جریب مقرر کیا گیا ‘ ان کے علاوہ زراعت کی دیگر اجناس مثلا زعفران اور باغات (جن کے گرد چار دیواری ہو) میں کاشتکاری کی مشقت کے اعتبار سے خراج مقرر کیا جائے گا اور یہ امام کے اجتہاد پر موقوف ہے ‘ ہمارے مشائخ نے یہ کہا ہے کہ ان زمینوں سے پیداوار کے نصف سے زیادہ خراج نہ لیا جائے کیونکہ کاشتکار نصف پیداوار سے زیادہ ادا کرنے کا متحمل نہیں ہوگا ‘ اگر کاشتکار امام کے مقرر کردہ خراج کو ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھے تو پھر امام کو اس کی مقدار میں کمی کردینی چاہیے۔ (ہدایہ اولین ٥٩٢۔ ٥٩١‘ مطبوعہ شرکت علمیہ ملتان)

ایک درہم ٣٠٦ گرام چاندی کے برابر ہے اور پانچ درہم ٣ ء ١٥ گرام چاندی کے برابر ہیں اور دس درہم ٦، ٣٠ گرام چاندی کے برابر ہیں۔

اراضی پاکستان کے عشری ہونے کا بیان :

جو زمینیں پاکستان کے زمینداروں کی ملکیت میں ہیں ان پر قطعیت کے ساتھ عشری یا خراجی ہونے کا حکم لگانا بہت مشکل ہے ‘ کیونکہ جب سلاطین اسلام نے ابتداء ہندوستان کے اس حصہ کو فتح کیا تھا تو یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان سلاطین نے کون سی صورت اختیار کی تھی ‘ بعض صورتیں عشری زمین کی ہیں اور بعض خراجی زمین کی ‘ اور جو زمینیں مسلمانوں کے زیر تصرف ہوں اور ان کے متعلق عشری یا خراجی ہونا یقینی اور متحقق نہ ہو ان کو عشری زمین پر محمول کیا جائے گا۔

علامہ شمس الدین سرخسی لکھتے ہیں :

ہر وہ شہر جس کے رہنے والے بہ خوشی مسلمان ہوئے اس کی زمین عشری ہے ‘ کیونکہ مسلمانوں کے مسلمانوں پر وظیفہ (زمین کا محصول) مقرر کرنے کی ابتداء خراج سے نہیں کی جائے گی تاکہ مسلمان کو ذلت سے محفوظ رکھا جائے ‘ لہذا ان پر عشر ہوگا (المبسوط ج ٣ ص ٧ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

لہذا جب پاکستان بنا اور مسلمان مسلمانوں پر حاکم ہوئے تو یہاں کے کاشتکاروں سے زمین میں زراعت کرنے کے وظیفہ کی ابتداء بھی عشر سے کیا جائے گی نہ کہ خراج سے ‘ کیونکہ عشر اصالۃ مسلمانوں کا فریضہ ہے اور خراج اصالۃ کافروں پر ہے۔

علامہ کا سانی لکھتے ہیں :

زمین وظیفہ (محصول یا ٹیکس) کی ادائیگی سے خالی نہیں ہیں اور یہ وظیفہ یا عشر ہوگا یا خراج اور مسلمانوں کے زیر تصرف زمین میں عشر سے ابتداء کرنا اولی ہے کیونکہ عشر میں عبادت کا معنی ہے ‘ خراج میں ذلت کا معنی ہے۔ (بدائع الصنائع ج ٢ ص ٥٧ مطبوعہ ایچ۔ ایم سعید ‘ کراچی ‘ ١٤٠٠ ھ)

اسی طرح حکومت پاکستان نے جو زمینیں مسلمانوں کو الاٹ کردیں یا ان کو بہ طور عطیہ دیں ‘ یا کسی کار گزاری یا خدمت کے معاوضہ میں دیں وہ بھی عشری ہیں ‘ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں :

جس زمین کو مال غنیمت حاصل کرنے والوں (مجاہدین) کے غیر میں ہماری حکومت تقسیم کرے اور وہ بھی عشری ہے کیونکہ مسلمان پر ابتداء خراج مقرر نہیں کیا جاتا۔ (رد المختار ج ٣ ص ‘ ٢٥٤ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 267