بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَتِمُّوا الۡحَجَّ وَالۡعُمۡرَةَ لِلّٰهِؕ فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَيۡسَرَ مِنَ الۡهَدۡىِ‌ۚ وَلَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَكُمۡ حَتّٰى يَبۡلُغَ الۡهَدۡىُ مَحِلَّهٗ ؕ فَمَنۡ كَانَ مِنۡكُمۡ مَّرِيۡضًا اَوۡ بِهٖۤ اَذًى مِّنۡ رَّاۡسِهٖ فَفِدۡيَةٌ مِّنۡ صِيَامٍ اَوۡ صَدَقَةٍ اَوۡ نُسُكٍۚ فَاِذَآ اَمِنۡتُمۡ فَمَنۡ تَمَتَّعَ بِالۡعُمۡرَةِ اِلَى الۡحَجِّ فَمَا اسۡتَيۡسَرَ مِنَ الۡهَدۡىِ‌ۚ فَمَنۡ لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ فِى الۡحَجِّ وَسَبۡعَةٍ اِذَا رَجَعۡتُمۡؕ تِلۡكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ  ؕ ذٰ لِكَ لِمَنۡ لَّمۡ يَكُنۡ اَهۡلُهٗ حَاضِرِىۡ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ‌ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ

اور حج اور عمرہ کو اللہ کے لیے پورا کرو ‘ سو اگر تم کو (حج یا عمرہ سے) روک دیا جائے تو جو قربانی تم کو آسانی سے حاصل ہو ‘ وہ بھیج دو ‘ اور جب تک قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے اس وقت تک اپنے سروں کو نہ منڈاؤ ‘ پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو تو وہ اس کہ بدلہ میں روزے رکھے یا کچھ صدقہ دے کر یا قربانی کرے ‘ سو جب تم حالت امن میں ہو تو جو شخص حج کے ساتھ عمرہ ملائے تو وہ ایک قربانی کرے تو جس کو وہ آسانی کے ساتھ کرسکے اور جو قربانی نہ کرے سکے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات روزے جب تم لوٹ آؤ ‘ یہ کامل دس (روزے) ہیں ‘ یہ (حج تمتع کا) حکم اس شخص کے لیے ہے جس کے اہل و عیال مسجد حرام (مکہ مکرمہ) کے رہنے والے نہ ہوں ‘ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ‘ اور جان لو کہ بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے

فرضت حج کی تاریخ اور حج کی اقسام :

علامہ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ یہ آیت ٦ ہجری میں نازل ہوئی۔ (علامہ کمال الدین بن ھمام متوفی ٥٦١ ھ ‘ فتح القدیر ج ٢ ص ٢٢٥‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ سکھر) ملاعلی قاری نے لکھا ہے کہ فرضیت حج کی تاریخ میں اختلاف ہے ‘ ٥ ہجری ‘ ٦ ہجری اور ٩ ہجری۔ ٨ ہجری فتح مکہ کے سال میں حضرت عتاب بن اسید نے مسلمانوں کو حج کرایا ‘ ٩ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور دس ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کرایا۔ (مرقات ج ٥ ص ٢٦٣‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ)

حج کا لغوی اور شرعی معنی ‘ حج کے فرائض ‘ واجبات ‘ سنن اور موانع ہم البقرہ : ١٥٨ میں بیان کرچکے ہیں ‘ اسی طرح عمرہ کے واجبات اور شرائط بھی ہم وہاں بیان کرچکے ہیں۔ حج کی تین قسمیں ہیں : (١) حج افراد : جس میں صرف مناسک حج ادا کیے جائیں اور اس سے پہلے عمرہ نہ کیا جائے ‘ یہ صرف مکہ مکرمہ میں رہنے والوں کے لیے ہے (٢) حج تمتع : میقات سے عمرہ کا احرام باندھ لیا جائے اور عمرہ کرنے کے بعد سر کے بال کٹوا کر یا منڈوا کر حلال ہوجائے اور پھر آٹھ تاریخ کو حج کا احرام باندھ لے ‘ اور مناسک حج ادا کرنے کے بعد حلال ہوجائے (٣) حج قران : میقات سے احرام باندھ لیا جائے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کو برقرار رکھا جائے ‘ پھر اسی احرام کے ساتھ حج کرے اور مناسک حج ادا کرنے کے بعد سر کے بال کٹوا کر یا منڈوا کر احرام کھول دے ‘ حج قران میں زیادہ مشقت ہے اور اس کا اجر بھی بہت زیادہ ہے ‘ اکثر روایات کے مطابق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو حج کیا تھا اور حج قران تھا ‘ حج تمتع یہ دونوں مکہ مکرمہ سے باہر کے رہنے کے لیے ہیں۔

احرام میں ممنوع کام :

مرد کے احرام کے لیے دو پاک صاف ‘ نئی دھلی ہوئی چادریں ہوں ‘ ایک چادر ‘ تہبند کی طرح باندھ لے اور دوسری چادر اوپر اوڑھ لے ‘ سرکھلارکھے اور عورت سلے ہوئے کپڑے پہنے ‘ سر اور پورا جسم ڈھانپ کر رکھے صرف چہرہ کھلا رکے ‘ احرام میں حسب ذیل پابندیاں ہیں۔

(١) محرم جماع کرنے سے یا اپنی بیوی سے جماع کا ذکر کرنے سے احتراز کرے گا ‘ اپن بیوی کو شہوت سے نہیں چھوئے گا نہ بوسہ دے گا۔

(٢) کسی قسم کا کوئی گناہ کرے گا۔

(٣) کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرے گا۔

(٤) خشکی کے جانوروں کو شکار نہیں کرے گا ‘ نہ ان کی طرف اشارہ کرے گا ‘ نہ ان کی طرف رہنمائی کرے گا (٥) قصدا یا بلاقصد خوشبو نہیں لگائے گا (خوشبو کا سونگھنا مکروہ ہے ‘ خوشبودار صابن سے نہانا یا شیمپو استعمال کرنا جائز نہیں) اگر خوشبودار چیز پکی ہوئی تھی تو حرج نہیں ‘ اگر کچھی ہو اور دوسری چیز سے مخلوط ہو اور خوشبو مغلوب ہو تو جائز ہے اگر غالب ہو تو جائز نہیں ‘ اگر بعینہ خوشبو دار چیز کھائی تو اس پر دم ہے۔

(٦) ناخن نہ کاٹے۔

(٧) چہرے کو نہیں ڈھانپے گا ‘ چہرہ کا بعض حصہ مثلا منہ یاٹھوڑی کو ہتھیلی سے نہیں ڈھانپے گا۔

(٨) سر کو نہیں ڈھانپے گا۔

(٩) ڈاڑھی نہیں کاٹے گا ‘ سر میں تیل نہیں ڈالے گا نہ بالوں میں خضاب لگائے گا ‘ نہ ہاتھوں پر مہندی لگائے گا۔

(١٠) سر کے بال یابدن کے بال نہیں منڈائے گا۔

(١١) سلے ہوئے کپڑے نہیں پہنے گا۔

(١٢) عمامہ یاٹوپی نہیں پہنے گا۔

(١٣) چمڑے کے موزے نہیں پہنے گا البتہ اگر انکو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دیا جائے کہ پنڈلیاں اور ٹخنے کھلے رہیں تو جائز ہے (ایسی چپل پہن سکتا ہے جس سے وسط قدم چھپا ہوا ہو اور ٹخنے کھلے ہوئے ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن سکتا ہے) جرابیں پہننا جائز نہیں کیونکہ ان سے ٹخنے چھپ جاتے ہیں۔

(١٤) جس کپڑے کو ایسی چیز سے رنگا گیا ہو جس سے رنگنا کے بعد خوشبو آئے مثلا زعفران اور ورس وغیرہ اس کو نہ پہنے۔

(١٥) مکہ مکرمہ کے کسی درخت کو نہ کاٹے۔

احرام میں جائز کام :

محرم حمام میں داخل ہوسکتا ہے ‘ کسی مکان اور محمل کے سائے کو حاصل کرسکتا ہے۔ (مثلا چھتری استعمال کرسکتا ہے) لیکن کوئی چیز اس کے چہرہ یا سر کو مس نہ کرے ‘ پیسے رکھنے کے لیے ھمیان کمر میں باندھ سکتا ہے (احرام کی چادر پر چمڑے کی پٹی باندھ لی جاتی ہے جس میں پیسے رکھنے کے لیے بٹوہ ہوتا ہے وہ بھی اسی حکم میں ہے) منطقہ (کمر باندھنے کی پیٹی) بھی باندھ سکتا ہے ‘ بغیر خوشبو کا سرمہ لگا سکتا ہے ‘ ختنہ کرا سکتا ہے ‘ فصد لگوا سکتا ہے ‘ ڈاڑھ نکلوا سکتا ہے ٹوٹی ہوئی ہڈی جڑوا سکتا ہے ‘ سر یا کمر کو کھجا سکتا ہے لیکن اس احتیاط سے کہ بال نہ اکھڑیں ‘ اگر تین بال اکھڑ جائیں تو ایک مٹھی طعام صدقہ کردے۔ احرام باندھنے سے پہلے غسل کرنا اور بدن پر خوشبو لگانا جائز ہے خواہ بعد میں خوشبو آتی رہے۔

احرام میں مستحب کام :

محرم بہ کثرت تلبیہ پڑھے : ” لبیک اللہم لبیک ‘ لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک “۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٢١٠) جب نماز پڑھے یا جب کسی بلندی پر چڑھے یا کسی وادی سے اترے ‘ یا سواروں سے ملے ‘ یا سحری کا وقت ہو تو تلبیہ پڑھے۔ جب مکہ میں داخل ہو تو پہلے مسجد حرام میں باب السلام سے داخل ہو اور جب کعبہ کو دیکھے تو تین بار تکبیر اور کلمہ طیبہ پڑھے ‘ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی دعا کرے ‘ اس وقت کی دعا مقبول ہوتی ہے اور یہ دعا بھی کرے : اے اللہ ! ہمارے دلوں میں کعبہ کی محبت ‘ اس کی تعظیم اور اس کی ہیبت کو زیادہ کر۔

عمرہ کرنے کا طریقہ :

غیر مکی میقات سے عمرہ کا احرام باندھ لے ‘ پاکستان کے رہنے والے ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں اس لیے وہ اپنے گھر میں غسل کرکے احرام باندھ لیں ‘ اور ایئرپورٹ کے لاؤنج میں دو رکعت نماز پڑھ کر عمرہ کرلیں : اے اللہ ! میں عمرہ کے لیے حاضر ہوں ‘ اس کو میرے لیے آسان کردے اور میری طرف سے قبول فرما ‘ پھر راستہ میں بہ کثرت تلبیہ پڑھے : ” لبیک اللہم لبیک ‘ لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک “۔ مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کرے یعنی بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کرے ‘ اس طواف میں اضطباع کرے (احرام کی اوپر والی چادر کو دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے کئے اوپر ڈال دے) پہلے تین چکروں میں رمل کرے (کندھے ہلاہلا کر دوڑتے ہوئے طواف کرے) جب بھی حجر اسود کے سامنے سے گزرے تو اگر ممکن ہو تو اس کو بوسہ دے ‘ جب رکن یمانی کے پاس سے گزرے تو اس کو بھی چھو کر اس کی تعظیم کرے ‘ اس کو بوسہ دینے میں فقہاء احناف کے دو قول ہیں ‘ ایک قول منع کا ہے اور ایک جواز کا ‘ اگر اس کی تعظیم نہ کرسکے تو پھر اس کے قائم مقام ہاتھ سے اشارہ کرنا مشروع نہیں ہے۔ حجر اسود کی تعظیم کے ساتھ طواف کو ختم کرے ‘ پھر مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت طواف پڑھے۔ اس کے بعدسعی کے ساتھ چکر لگائے سعی صفا سے شروع کرے اور مروہ پر ختم کرے ‘ صفا پر چڑھ کر کعبہ کی طرف منہ کرکے ”۔ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر واللہ الحمد “۔ پڑھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوۃ پڑھے ‘ پھر دونوں ہاتھ بلند کر کے دعا کرے ‘ پھر مروہ کی طرف رواہ ہو ‘ راستہ میں دو سبز نشانوں کے درمیان سے دوڑتا ہوا گزرے ‘ طواف اور سعی کے دوران اس کو جو دعائیں اور اذکاریاد ہوں ان کو خضوع اور خشوع کے ساتھ پڑھتا رہے۔

صفا اور مروہ میں طواف مکمل کرنے کے بعد محرم سر کے بال کٹوالے یا منڈوالے ‘ اب اس کو عمرہ مکمل ہوگیا اور وہ احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوگیا لیکن پھر بھی کوئی گناہ نہ کرے ‘ فحش باتیں نہ کرے اور کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرے ‘ آٹھ ذوالحجہ تک حسب استطاعت عمرے کرتا رہے اور مسجد حرام میں زیادہ سے زیادہ طواف کرتا رہے ‘ عمرہ اور طواف میں طواف کی زیادہ فضیلت ہے ‘ مسجد حرام میں کم از کم ایک بار قرآن مجید ختم کرنا چاہیے۔

حج کرنے کا طریقہ :

حج کرنے والا آٹھ ذوالحجہ کو صبح کی نماز مسجد حرام میں ادا کرے ‘ حج کی نیت سے غسل کرکے احرام باندھے ‘ دو رکعت نماز پڑھے اور یہ دعا کرے : اے اللہ ! میں حج کا ارادہ کرتا ہوں تو اس کو میرے لیے آسان کردے اور قبول فرما ‘ اور فجر کی نماز کے بعد مکہ سے منی کے لیے روانہ ہوجائے اور ظہر کی نماز وہاں پہنچ کر پڑھے ‘ حج کی سعی کو طواف پر مقدم کرنا جائز ہے ‘ اس لیے آسانی اس میں ہے کہ سات ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ لے اور حج کی سعی کرلے اور آٹھ تاریخ کی فجر کی نماز کے بعد منی روانہ ہوجائے ‘ اور بقیہ نمازیں منی میں ادا کرے اور طلوع فجر کے بعد منی سے عرفات کے لیے روانہ ہو ‘ اگر امام کے ساتھ نماز پڑھے تو ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر دونوں نمازوں کو جمع کرکے پڑھے ‘ ورنہ ہر نماز اپنے وقت میں پڑھے ‘ اس کے بعد جبل رحمت کے قریب جا کر قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو اور بلند آواز سے گڑ گڑا کر دعا مانگے اور زندگی کے تمام گناہوں سے توبہ کرے ‘ تاہم کھڑا ہونا شرط یا واجب نہیں ہے ‘ اگر بیٹھ کر دعا کی پھر بھی جائز ہے۔ اس جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وقوف فرمایا تھا ‘ یہ جگہ میدان عرفات کے وسط میں ہے ‘ اگر یہاں موقع نہ ملے تو وادی عرنہ کے سوا تمام میدان عرفات موقف ہے ‘ میدان عرفات میں جس جگہ بھی کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر دعا کرلی ‘ حج ہوجائے گا ‘ غروب آفتاب تک میدان عرفات میں رہنا واجب ہے ‘ غروب آفتاب کے بعد میدان عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہو ‘ راستہ میں ”۔ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد “۔ پڑھتا رہے۔ پیدل جانا مستحب ہے ‘ مزدلفہ میں مغرب کی نماز عشاء کے وقت میں پڑھے ‘ مغرب میں ادا کی نیت کرے اور اس کی سنتوں کو ترک کردے ‘ اس رات کو جاگ کر عبادت کرنا لیلۃ القدر میں جاگنے سے افضل ہے ‘ اسی رات میں رمی کے لیے ستر اسی کنکریاں چن لے ‘ طلوع فجر کے بعد صبح کی نماز منہ اندھیرے پڑھے ‘ اس کے بعد وقوف کرے (کھڑے ہو کر دعا کرے) وقوف کا وقت طلوع فجر سے لے کر طلوع شمس تک ہے ‘ خواہ اس وقت چل رہا ہو وقوف ہوجائے گا ( ”۔ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد “۔ ) پڑھے ‘ تلبیہ پڑھے ‘ درود شریف پڑھے اور دعا کرے ‘ اور جب خوب روشنی پھیل جائے تو منی کے لیے منی کے لیے روانہ ہو اور جمرہ عقبہ کو رمی کرے ‘ پانچ ہاتھ کے فاصلہ سے سات کنکریاں مارے ‘ ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہے ‘ رمی کے بعد قربانی کرے ‘ پھر سر کے بال منڈوالے یا کٹوالے ‘ منڈوانا افضل ہے ‘ اگر بال کٹوائے تو ایک پور کے برابر کٹوائے ‘ چوتھائی سر کے بال کٹوانا واجب ہے اور پورے سر کے بالوں کو کٹوانا مستحب ہے ‘ سر منڈوانے کے بعد وہ حلال ہوگیا اور بیوی سے جماع کے علاوہ اس پر ہر چیز حلال ہوگئی ‘ پھر ایام نحر کے تین دنوں میں سے کسی ایک دن مکہ جا کر طواف زیارت کرلے اگر پہلے سعی کرچکا ہے تو اس طواف میں رمل نہیں کرے گا ‘ اور اگر پہلے سعی نہیں کی تو پہلے تین چکروں میں رمل کرے گا اور سات چکر پورے کرے ‘ دو رکعت نماز طواف پڑھے گا اور اس کے بعد سعی کرے گا ‘ طواف زیارت کے بعد اس پر بیوی بھی حلال ہوجائے گی۔ اگر اس نے طواف زیارت کو قربانی کے تین دنوں کے بعد کیا تو یہ فعل مکروہ تحریمی ہے اور اس پر دم لازم آئے گا (طواف زیارت کا وقت ساری عمر ہے) وقوف عرفات اور طواف زیارت کرنے کے بعد حج کے فرائض ادا ہوگئے ‘ وقوف مزدلفہ حج کی سعی اور رمی جمرات واجب ہیں ‘ ان میں سے کسی ایک کے بھی ترک سے دم لازم آئے گا ‘ دس ذوالجہ کو طواف زیارت کرنے کے بعد منی لوٹ آئے اور رات وہاں گزارے ‘ اور گیارہ تاریخ کو زوال کے بعد تینوں جمرات پر رمی کرے اور ہر جمرہ پر سات سات کنکریاں مارے ‘ پھر بارہ تاریخ کو اسی طرح کنکریاں مارے۔ دس تاریخ کو رمی کا وقت فجر سے غروب تک ہے اور گیارہ اور بارہ تاریخ کو زوال سے لے کر غروب تک ہے ‘ تیرہ تاریخ کو طلوع فجر سے پہلے منی سے مکہ روانہ ہوسکتا ہے اور اگر تیرہ تاریخ کی فجر کو پالیا تو پھر اس دن کی رمی کرنی ہوگی۔ جب مکہ مکرمہ سے روانہ ہونے کا ارادہ کرے تو الوداعی طواف کرے ‘ اس کو طواف صدر کہتے ہیں ‘ یہ طواف واجب ہے ‘ افتتاحی طواف کو طواف قدوم کہتے ہیں ‘ یہ مستحب ہے ‘ طواف زیارت فرض ہے اور طواف صدر یا طواف وداع واجب ہے۔ طواف وداع کرنے کے بعد حج کے تمام ارکان اور واجبات ادا ہوگئے اور حج مکمل ہوگیا ‘ اس کے بعد مدینہ منورہ کا سفر کرے اور وہاں آٹھ یا نو دن کے قیام میں کوشش کرے کہ مسجد نبوی میں نمازوں کا اجر وثواب :

امام احمد روایت کرتے ہیں :

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے میری مسجد میں چالیس نمازیں پڑھیں اور اس کی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی اس کے لیے جہنم سے برأت اور عذاب سے نجات لکھ دی جائے گی اور وہ نفاق سے بری ہوجائے گا۔ (مسند احمد ج ٣ ص ‘ ١٨٨ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

حافظ منذری نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح ہیں اور اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح ہیں اور اس حدیث کو امام طبرانی نے ” اوسط “ میں روایت کیا ہے۔ (الترغیب والترہیب ج ٢ ص ٢١٥‘ مطبوعہ دارالحدیث ‘ قاہرہ ‘ ١٤٠٧ ھ)

حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو امام احمد اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی روای ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ٤ ص ٨‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

حضرت ابودرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ایک لاکھ نمازوں کا اجر ہے اور میری مسجد میں نماز پڑھنے کا ایک ہزار نمازوں کا اجر ہے اور مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کا پانچ سو نمازوں کا اجر ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ” معجم کبیر “ میں روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ٤ ص ٨‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

حافظ المنذری لکھتے ہیں :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر ایک شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ لے تو اس کو ایک نماز کا اجر ملتا ہے اور اگر محلہ کی مسجد میں نماز پڑھے تو پچیس نمازوں کا اجر ملتا ہے اور اگر جامع مسجد میں نماز پڑھے تو پانچ سو نمازوں کا اجر ملتا ہے اور میری مسجد میں نماز پڑھنے سے پچاس ہزار نمازوں کا اجر ملتا ہے اور مسجد اقصی میں نماز پڑھنے سے پچاس ہزار نمازوں کا اجر ملتا ہے ‘ اور مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے ایک لاکھ نمازوں کا اجر ملتا ہے ‘ اس حدیث کو ائمہ ستہ میں صرف امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ (الترغیب والترہیب ج ٢ ص ٢١٥‘ مطبوعہ دارالحدیث ‘ قاہرہ)

علامہ شامی نے لکھا ہے کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ ثواب میں اضافہ مسجد حرام کے ساتھ نہیں ہے بلکہ پورے حرم مکہ میں کسی جگہ بھی نماز پڑھی جائے تو اتنا ہی ثواب ہوگا۔ (رد المختار ج ٢ ص ‘ ١٨٨‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا طریقہ :

علامہ شرنبلالی لکھتے ہیں :

جو شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کا قصد رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ آپ پر درود شریف پڑھے ‘ کیونکہ آپ خود بھی درود شریف کو سنتے ہیں اور فرشتے بھی آپ کے پاس درود شریف پہنچاتے ہیں ‘ جب زائر مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھے تو درود شریف پڑھ کر یہ کہے :

اے اللہ ! یہ تیرے نبی کا حرم ہے اور تیری وحی کے نازل ہونے کی جگہ ہے ‘ تو مجھے یہاں حاضر ہونے کی نعمت عطا فرما اور یہاں کی حاضری کو میرے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ بنا دے اور مجھے قیامت کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے بہرہ مند فرما اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں حاضر ہونے سے پہلے غسل کرے ‘ اچھا لباس زیب تن کرے ‘ خوشبو لگائے ‘ پھر انتہائی تواضع اور انکسار کے ساتھ آپ کے روضہ کی طرف روانہ ہو اور درود شریف پڑھتا ہو اور اپنی مغفرت کی دعائیں مانگتا ہوا چلتا رہے اور یہ پڑھے : ” بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ رب ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک “ پھر مسجد شریف میں داخل ہو ‘ اور دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے ‘ آپ کی قبر شریف اور منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ‘ اس جگہ دو رکعت بہ طور شکر پڑھے ‘ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبر شریف سے چار ہاتھ کے فاصلہ پر ادب سے کھڑا ہو ‘ آپ کے مواجہ شریف (شر اور چہرہ) کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پیٹھ کرے اور یوں سلام عرض کرے : ” السلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ السلام علیک یا نبی اللہ ‘ السلام علیک یا حبیب اللہ ‘ السلام علیک یا نبی الرحمۃ ‘ السلام علیک یا شفیع الامۃ ‘ السلام علیک یا سید المرسلین ‘ السلام علیک یا خاتم النبیین ‘ السلام علیک یا مزمل ‘ السلام علیک یا مدثر ‘ السلام علیک وعلی اصولک الطیبین ‘ واھل بیتک الطاھرین “ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ‘ آپ نے فریضہ رسالت کو ادا کردیا اور امانت کو پہنچا دیا اور امت کی خیرخواہی کی اور واضح دلائل بیان کیے ‘ اور اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کیا ‘ اور دین کو قائم کیا حتی کہ آپ رفیق اعلی سے واصل کی خیر خواہی کی اور واضح دلائل بیان کیے ‘ اور اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کیا ‘ اور دین کو قائم کیا حتی کہ آپ رفیق اعلی سے واصل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر صلوۃ وسلام نازل فرمائے ‘ جس جگہ آپ اپنے جسد اطہر کے ساتھ تشریف فرما ہیں وہ جگہ تمام جگہوں سے افضل جگہ ہے ‘ اللہ تعالیٰ آپ پر اور اس جگہ پر ہمیشہ اتنی بار صلوۃ وسلام نازل فرمائے جس کا عدد اللہ ہی کے علم میں ہے ‘ یا رسول اللہ ! یا رسول اللہ ! ہم آپ کے حرم مقدس اور آپ کی عظیم بارگاہ میں حاضر ہیں ‘ ہم دور دراز کے علاقوں سے آپ کے حضور میں آپ کی شفاعت کی امید سے آئے ہیں ‘ آپ ہمارے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں ‘ گناہوں کے بوجھ سے ہماری کمر ٹوٹ رہی ہے ‘ آپ ہی ایسے شفاعت کرنے والے جن سے شفاعت کبری ‘ مقام محمود اور وسیلہ کا وعدہ کیا گیا ہے اور اللہ نے فرمایا :

(آیت) ” ولو انہم اذ ظلموا انفسھم جآءوک فاستغفروا اللہ واستغفرلھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما “۔۔ (النساء : ٦٤)

ترجمہ : اور اگر یہ اپنی جانوں پر ظلم کر گزریں ‘ تو آپ کے پاس آئیں اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور رسول بھی ان کی شفاعت کریں ‘ تو یہ بیشک اللہ تعالیٰ کو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بہت رحم کرنے والا پائیں گے۔۔

اور بیشک ہم اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ کے پاس آئے ہیں اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں ‘ سو آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کیجئے اور اللہ سے دعا کیجئے کہ آپ کی سنت پر خاتمہ فرمائے اور آپ کے دین میں ہمیں قیامت کے دن اٹھائے اور ہمیں آپ کے حوض کوثر پروارد کرے اور بغیر کسی شرمندگی اور رسوائی کے ہمیں آب کوثر پلائے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفاعت فرمائیے یا رسول اللہ ! شفاعت فرمائیے ‘ یا رسول اللہ، شفاعت فرمائیے (تین بارک ہے) اے اللہ ! ہماری مغفرت فرما ‘ اور جو ہم سے پہلے فوت ہوگئے ہیں ان کی مغفرت فرما اور مسلمانوں کے خلاف ہمارے دلوں میں کینہ نہ رکھ ‘ اے رب ! تو رؤف رحیم ہے ‘ پھر جن لوگوں نے آپ کو سلام پہنچانے کی درخواست کی تھی ‘ ان کا سلام پیش کرے اور کہے : یا رسول اللہ ! فلاں فلاں کی طرف سے آپ کو سلام ہو ‘ یا رسول اللہ ! وہ آپ سے شفاعت کے طلب گار ہیں ‘ ان کی شفاعت فرمائیے پھر درود شریف پڑھ کر جو چاہے دعا کرے۔

اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے سر کے بالمقابل کھڑا ہو اور کہے : السلام علیک یا خلیفۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ السلام علیک یا صاحب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انیسہ فی الغار ورفیقہ فی الاسفار وامینہ فی الاسرار “ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے ‘ آپ نے بہترین نیابت کی ‘ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ پر قائم رہے ‘ اور آپ کے طریقہ کے مطابق کار خلافت انجام دیئے ‘ آپ نے مرتدین اور مبتدعین سے قتال کیا اور اسلام کے قلعہ کو مضبوط کیا ‘ آپ بہترین امام تھے ‘ آپ تادم حیات دین کی خدمت کرتے رہے ‘ آپ اللہ سبحانہ ‘ سے دعا کریں کہ کہ وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ آپ کی محبت رکھے اور قیامت کے دن ہمیں آپ کی جماعت میں اٹھائے اور ہماری زیارت کو قبول فرمائے ‘ السلام علیک ورحمۃ اللہ۔

اس کے بعد حضرت عمر فاروق (رض) کے سر کے بالمقابل کھڑا ہو اور یوں سلام عرض کرے۔ ” السلام علیک یا امیر المومنین ‘ السلام علیک یا مظہر الاسلام ‘ السلام علیک یا مکسر الاصنام “ اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے ‘ آپ نے اسلام اور مسلمانوں کی نصرت فرمائی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بڑے بڑے شہروں کو فتح کیا۔ یتیموں کی کفالت کی اور صلہ رحمی کی ‘ اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وزیرو ! رفیقو ! مشیرو ! اور دین قائم کرنے میں آپ کی معاونت کرنے والو ! اور آپ کے بعد مسلمانوں کی بہتری کیلیے کارہائے نمایاں کرنے والو ! آپ دونوں پر سلام ہو ‘ اللہ آپ کو ہماری طرف سے تمام مسلمانوں کی طرف بہترین جزا عطا فرمائے ‘ ہم آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کریں کہ حضور ہماری شفاعت فرمائیں اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرمائیں کہ وہ ہماری اس حج اور زیارت کو قبول فرمائے ‘ ہمیں آپ کے دین پر زندہ رکھے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے اور آپ کی جماعت میں ہمارا حشر فرمائے ‘ پھر اپنے لیے دعا کرے ‘ اپنے والدین کے لیے دعا کرے اور جنہوں نے دعا کی درخواست کی تھی ان کے لیے دعا کرے ‘ پھر تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرے ‘ پھر دوبارہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مواجہہ شریف میں جا کر کھڑا ہو ‘ اس طرح سلام پیش کرے اور آپ سے شفاعت کی درخواست کرے اور اسی طرح دعا کرے۔

حضرت ابولبابہ (رض) کے ستون کے پاس نماز پڑھے ‘ اور دیگر متبرک مقامات پر نمازیں پڑھے ‘ بقیع شریف میں جائے شہداء احد کی قبروں پر جائے حضرت سیدنا امیر حمزہ (رض) کی قبر پر فاتحہ پڑھے ‘ حضرت عثمان (رض) حضور کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم (رض) ‘ ازواج مطہرات اور دیگر شہداء کی قبروں پر حاضر ہو اور تمام مزارات پر آیۃ الکرسی پڑھے ‘ گیارہ بار سورة اخلاص پڑھے اور اگر یاد ہو تو سورة یسین پڑھے۔ وہاں دور رکعت نماز پڑھنے کا اجر عمرہ کے برابر ہے۔ (سنن کبری ج ٥ ص ٢٤٨) مسجد قبلتین ‘ مساجد سبع اور تمام مشاہد کی زیارت کرے۔ (مراقی الفلاح ص ٤٥١۔ ٤٤٨‘ مخلصا ‘ مطبوعہ مصطفیٰ البابی واولادہ مصر ‘ ١٣٥٦ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور حج اور عمرہ کو اللہ کے لیے پورا کرو۔ (البقرہ : ١٩٦)

اس کا معنی یہ ہے کہ حج اور عمرہ کے تمام شرائط ‘ فرائض اور واجبات کو ادا کرو ‘ کہ یہ کامل ہوں ناقص نہ رہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو اگر تم کو (حج یا عمرہ سے) روک دیا جائے تو جو قربانی تم کو آسانی سے حاصل ہو وہ بھیج دو اور جب تک قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے اس وقت تک اپنے سروں کو نہ منڈواؤ۔ (البقرہ : ١٩٦)

یعنی اپنے احرام پر برقرار رہو اور حلالی نہ ہو۔

احصار (حج یا عمرہ کے سفر میں پیش آنے والی رکاوٹ) کی تعریف میں مذاہب ائمہ :

ائمہ ثلاثہ کے نزدیک اگر دشمن سفر حج پر نہ جانے دے اور راستہ میں کسی جگہ روک لے تو یہ احصار ہے ‘ اب محرم حرم میں قربانی بھیج دے اور جب قربانی ذبح ہوجائے گی تو وہ حلالی ہوجائے گا ‘ امام ابوحنیفہ کے نزدیک راستہ میں دشمن کے روکنے کے علاوہ راستہ میں بیمار ہوجانا اور سفر کے قابل نہ رہنا بھی احصار ہے اور لغت میں احصار اسی کو کہتے ہیں اور احادیث بھی اس کی مؤید ہیں ‘ علماء مذاہب کی تصریحات حسب ذیل ہیں :

اگر دشمن حج یا عمرہ کے لیے جانے نہ دے تو یہ احصار (روک دینا) حضرت ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضرت ابن عمر ‘ اور حضرت انس بن مالک کا یہی قول ہے اور یہی امام شافعی کا مذہب ہے (النکت والعیون ج ١ ص ٢٥٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)

علامہ ابن عربی مالکی لکھتے ہیں :

احصار دشمن کو منع کرنے اور روکنے کے ساتھ خاص ہے ‘ حضرت ابن عباس ‘ حضرت ابن عمر اور حضرت انس بن مالک کا یہی قول ہے اور امام شافعی کا یہی مذہب ہے ‘ لیکن اکثر علماء لغت کی رائے یہ ہے کہ ” احصر “ کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی شخص کو مرض عارض ہو اور وہ اس کو کسی جگہ جانے سے روک دے۔ (احکام القرآن ج ١ ص ١٧٠‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٠٨ ھ)

علامہ ابن جوزی حنبلی لکھتے ہیں :

احصار صرف دشمن کے روکنے سے ہوتا ہے مریض کو محصر نہیں کہتے حضرت ابن عمر ‘ حضرت ابن عباس اور حضرت انس کا یہی قول ہے ‘ امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد کا یہی مذہب ہے ‘ لیکن ابن قتیبہ نے یہ کہا ہے کہ جب مرض یا دشمن سفر کرنے سے روک دیں تو یہ احصار ہے۔ (زادالمیسر ج ١ ص ٢٠٤‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ)

علامہ ابوبکر جصاص حنفی لکھتے ہیں :

کسائی ‘ ابوعبیدہ اور اکثر اہل لغت نے یہ کہا ہے کہ مرض اور زاد راہ گم ہوجانے کی وجہ سے جو سفر جاری نہ رہ سکے اس کو احصار کہتے ہیں ‘ اور اگر دشمن سفر نہ کرنے دے تو اس کو حصر کہتے ہیں ‘ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس میں دشمن اور مرض برابر ہیں۔ ایک دم (ھدی کے قربانی کا جانور) بھیج کر محرم حلالی ہوجائے گا جب کہ اس جانور کو حرم میں ذبح کردیا جائے ‘ امام ابوحنیفہ ‘ امام ابویوسف ‘ امام محمد ‘ امام زفر اور ثوری کا یہی مذہب ‘ علامہ جصاص کہتے ہیں کہ جب لغت سے ثابت ہوگیا کہ احصار کا معنی مرض کا روکنا ہے تو اس آیت کا حقیقی معنی یہی ہے کہ جب کوئی مرض تم کو حج یا عمرہ سے روک دے اور دشمن کا روکنا اس میں حکما داخل ہے۔ (احکام القرآن ج ١ ص ٢٦٨‘ مطبوعہ سہیل اکیڈمی ‘ لاہور ‘ ١٤٠٠ ھ)

امام ابوحنیفہ کے مؤقف پرائمہ لغت کی تصریحات :

یہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ ائمہ لغت میں سے ابن قتبیہ ‘ ابو عبیدہ اور کسائی نے یہ کہا ہے کہ سفر میں مرض کا لاحق ہونا احصار ہے ‘ اسی سلسلہ میں مشہور امام لغت فراء لکھتے ہیں :

جو شخص سفر میں خوف یا مرض کے لاحق ہونے کی وجہ سے حج یا عمرہ کو پورا نہ کرسکے اس کے لیے عرب احصار کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ (معانی القرآن ج ١ ص ١١٧‘ مطبوعہ بیروت)

علامہ حماد جوہری لکھتے ہیں :

ابن السکیت نے کہا : جب کسی شخص کو مرض سفر سے روک دے تو کہتے ہیں ” حصرہ المرض “ اخفش نے کہا : جب کسی شخص کو مرض روک دے تو کہتے ہیں : ” احصرنی مرضی “۔ (الصحاح ج ٢ ص ٦٣٢‘ مطبوعہ دارالعلم بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ)

امام ابوحنیفہ کے مؤقف پر احادیث سے استدلال :

احادیث میں تصریح ہے کہ جب کوئی شخص مرض لاحق ہونے کی وجہ سے حج یا عمرہ کا سفر جاری نہ رکھ سکے تو اگلے سال اس کی قضاء کرے۔ امام ابوداؤد روایت کرتے ہیں :

حضرت حجاج بن عمرو انصاری کہتے ہیں کہ جس شخص کی ہڈی ٹوٹ گئی یا ٹانگ ٹوٹ گئی تو وہ حلال ہوگیا اور اس پر اگلے سال حج ہے ایک اور سند سے روایت ہے : یا وہ بیمار ہوگیا۔ (سنن ابوداؤد ج ١ ص ٢٥٧‘ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)

اس حدیث کو امام ترمذی۔ ١ (امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ ‘ جامع ترمذی ص ١٥٦ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

امام ابن ماجہ۔ ٢ (امام ابو عبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ، سنن ابن ماجہ ص ٢٢٢ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی)

اور امام ابن ابی شیبہ نے بھی روایت کیا ہے۔ ٣ (امام ابوبکر احمد بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ ‘ المصنف ج ١۔ ٤ ص ١٣٩۔ ١٣٨‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ)

امام بخاری لکھتے ہیں :

عطاء نے کہا : ہر وہ چیز جو حج کرنے سے روک دے وہ احصار ہے۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٢٤٣‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

نیز امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) عنہنے فرمایا : جس شخص کوئی عذر حج کرنے سے روک دے یا اس کے سوا اور کوئی چیز مانع ہو تو وہ حلال ہوجائے اور رجوع نہ کرے اور جس وقت وہ محصر ہو تو اگر اس کے پاس قربانی ہو اور وہ اس کو حرم میں بھیجنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہی ذبح کردے ‘ اور اگر وہ اس کو حرم میں بھیجنے کی استطاعت رکھتا ہو تو جب تک وہ قربانی حرم میں ذبح نہیں ہوگی وہ حلال نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٢٤٤۔ ٢٤٣ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث میں عذر کے لفظ سے استدلال ہے جو عام ہے اور دشمن کے منع کرنے اور بیمار پڑنے دونوں کو شامل ہے۔

امام ابوحنیفہ کے مؤقف پر آثار صحابہ سے استدلال :

امام ابی شیبہ روایت کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) فرماتے ہیں : جس شخص نے حج کا احرام باندھا ‘ پھر وہ بیمار ہوگیا یا کوئی اور رکاوٹ پیش آگئی تو وہ وہاں ٹھہرا رہے حتی کہ ایام حج گزر جائیں ‘ پھر عمرہ عمرہ کرکے لوٹ آئے اور اگلے سال حج کرے۔ (المصنف ج ١۔ ٤ ص ١٤١‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ)

عبدالرحمان بن یزید بیان کرتے ہیں کہ ہم عمرہ کرنے گئے جب ہم ذات السقوف میں پہنچے تو ہمارے ایک ساتھی کو (سانپ یا) بچھو نے ڈس لیا ‘ ہم راستہ میں بیٹھ گئے تاکہ اس کا شرعی حکم معلوم کریں ‘ ناگاہ ایک قافلہ میں حضرت ابن مسعود آپہنچے ہم نے بتایا کہ ہمارا ساتھی ڈسا گیا ہے ‘ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : اس کی طرف سے ایک قربانی حرم میں بھیجو اور ایک دن مقرر کرلو ‘ جب وہ ھدی حرم میں ذبح کردی جائے تو یہ حلال ہوجائے گا۔ (المصنف ج ١۔ ٤ ص ١٤١‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ)

امام ابوحنیفہ کے مؤقف پر اقوال تابعین سے استدلال :

امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

مجاہد بیان کرتے ہیں : جس شخص کو حج یا عمرہ کے سفر میں کوئی رکاوٹ درپیش ہو خواہ مرض ہو یا دشمن وہ احصار ہے۔ (جامع البیان ج ٢ ص ١٢٤‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

عطاء نے کہا : ہر وہ چیز جو سفر سے روک دے وہ احصار ہے۔ (جامع البیان ج ٢ ص ١٢٤‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

قتادہ نے کہا : جب کوئی شخص مرض یا دشمن کی وجہ سے سفر جاری نہ رکھ سکے تو وہ حرم میں ایک قربانی بھیج دے اور جب وہ قربانی ذبح ہوجائے گی تو وہ حلال ہوجائے گا، (جامع البیان ج ٢ ص ١٢٤‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

ابراہیم نخعی نے کہا : مرض ہو یا ہڈی ٹوٹ جائے یا دشمن نہ جانے دے ‘ یہ سب احصار ہیں۔ (جامع البیان ج ٢ ص ١٢٤‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

امام ابوحنیفہ حنیفہ کے مؤقف کی ہمہ گیری اور معقولیت :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد آثار صحابہ اور اقوال تابعین ‘ ائمہ لغت کی تصریحات ان سب سے امام ابوحنیفہ کا مسلک ثابت ہے کہ احصار دشمن کے روکنے اور مرض کے خارج ہونے دونوں کو شامل ہے اور اس میں یسر اور سہولت ہے ‘ اسلام ہر مسئلہ کا حکم پیش کرتا ہے ائمہ ثلاثہ کے مؤقف پر یہ اشکال ہوگا کہ جو شخص حج یا عمرہ کے سفر میں کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوجائے جس کی وجہ سے وہ اپنا سفر جاری نہ رکھ سکے تو اس کے لیے اسلام میں کیا حل ہے ؟ ہرچند کہ اب ہوئی جہاز کے ذریعہ بیشتر حجاج کرام حج اور عمرہ کا سفر کرتے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے علاقوں سے لوگ سڑک کے ذریعہ سفر کرتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٦ ہجری میں اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ منورہ سے سے مکہ مکرمہ عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تھے جب آپ مقام حدیبیہ پر پہنچے تو کفار نے آپ کو مکہ جانے سے روک دیا۔ امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن عمر کے دو بیٹے سالم اور عبید اللہ بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں حجاج نے حضرت ابن الزبیر پر مکہ میں حملہ کیا ہوا تھا ‘ ان دنوں میں حضرت ابن عمر نے حج کا ارادہ کیا ‘ ان کے بیٹوں نے منع کیا کہ اس سال آپ حج نہ کریں ‘ ہمیں خدشہ ہے کہ آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا جائے گا ‘ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان کفار حائل ہوگئے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قربانی کی اونٹنی کو نحر کیا اور اپنا سرمونڈ لیا اور میں تم کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ لازم کرلیا ہے ‘ میں انشاء اللہ روانہ ہوں گا ‘ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو میں عمرہ کروں گا اور اگر کوئی رکاوٹ پیش آئی تو میں طرح کروں گا جس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا تھا پھر انہوں نے عمرہ کا احرام باندھا ‘ پھر کچھ دور چل کر کہا : احصار میں عمرہ اور حج دونوں برابر ہیں ‘ میں عمرہ کے ساتھ حج کی نیت کرتا ہوں ‘ پھر یوم نحر کو قربانی کر کے وہ حلال ہوگئے۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٢٤٣ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

ہر چند کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو احصار پیش آیا تھا ‘ وہ دشمن کی وجہ سے تھا لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرض کی وجہ سے رکاوٹ کو بھی یہ حل بیان فرمایا ہے اس لیے دلائل شرعیہ کی قوت ‘ یسر ‘ ہمہ گیری اور معقولیت کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کے مؤقف کی بہ نسبت امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک راجح ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو اگر تم کو (حج یا عمرہ سے) روک دیا جائے تو جو قربانی تم کو آسانی سے حاصل ہو وہ بھیج دو ‘ اور جب تک قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے اس وقت تک اپنے سروں کو نہ منڈواؤ۔ (البقرہ : ١٩٦)

محصر کے لیے قربانی کی جگہ کے تعین میں امام ابوحنیفہ کا مسلک :

امام ابوحنیفہ کے جو شخص راستہ میں مرض یا دشمن کی وجہ سے رک جائے وہ کسی اور شخص کے ہاتھ قربانی (اونٹ ‘ گائے یا بکری) یا اس کی قیمت بھی دے اور ایک دن مقرر کرلے کہ فلاں دن اس قربانی کو حرم میں ذبح کیا جائے گا اور اس دن وہ اپنا احرام کھول دے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اس وقت تک سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے اور قربانی کی جگہ حرم ہے۔ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک جس جگہ کسی شخص کو رک جانا پڑے وہی قربانی کر کے احرام کھول دے ‘ کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حدیبیہ میں رک جانا پڑا تھا اور آپ نے حدیبیہ میں ہی قربانی کی ‘ اور امام بخاری نے لکھا ہے کہ حدیبیہ حرم سے خارج ہے۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٢٤٤‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

علامہ بدر الدین عینی اس دلیل کے جواب میں فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کا بعض حصہ حرم سے خارج ہے اور بعض حصہ حرم میں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ کے جس حصہ میں رکے تھے وہ حرم میں تھا ‘ اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابن ابی شیبہ نے ابو عمیس سے روایت کیا ہے کہ عطاء نے کہا ہے کہ حدیبیہ کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام حرم میں تھا۔ (عمدۃ القاری ج ١٠ ص ‘ ١٤٩ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ)

علامہ ابوحیان اندلسی لکھتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس جگہ روک دیا گیا تھا آپ نے وہیں قربانی کی تھی وہ جگہ حدیبیہ کی ایک طرف تھی جس کا نام الربی ہے اور یہ اسفل مکہ میں ہے اور وہ حرم ہے ‘ زہری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اونٹ کو حرم میں نحر کیا تھا ‘ واقدی نے کہا : حدیبیہ مکہ سے نومیل کے فاصلہ پر طرف حرم میں ہے۔ (البحر المحیط ج ٢ ص ‘ ٢٥٧ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حتی کہ قربانی اپنے محل میں پہنچ جائے۔ (البقرہ : ١٩٦)

محصر کے لیے قربانی کی جگہ کے تعین میں ائمہ ثلاثہ کا مذہب :

علامہ ابن جوزی حنبلی لکھتے ہیں :

محل کے متعلق دو قول ہیں ‘ ایک یہ کہ اس سے مراد حرم ہے ‘ حضرت ابن مسعود ‘ حسن بصری ‘ عطاء ‘ طاؤس ‘ مجاہد ‘ ابن سیرین ‘ ثوری اور امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ جگہ ہے جد جگہ محرم کو رکاوٹ پیش آئی وہ اس جگہ قربانی کا جانور ذبح کرکے احرام کھول دے ‘ امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد کا یہی مذہب ہے۔ (زادالمیسر ج ١ ص ‘ ٢٠٥ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ)

علامہ ماوردی شافعی۔ ١ (علامہ ابوالحسن علی بن حبیب شافعی مادردی بصری متوفی ٤٥٠ ھ ‘ النکت والعیون ج ١ ص ٢٥٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)

اور علامہ ابن العربی۔ ٢ (علامہ ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی مالکی متوفی ٥٤٣ ھ ‘ (احکام القرآن ج ١ ص ١٧٦‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٠٨ ھ) مالکی نے بھی یہی لکھا ہے۔

قوت دلائل کے اعتبار سے ابوحنیفہ کا مسلک راجح ہے اور یسر اور سہولت کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا مسلک راجح ہے کیونکہ بیمار یا دشمن میں گھرے ہوئے آدمی کے لیے اس وقت تک انتظار کرنا جب تک قربانی حرم میں ذبح ہو بہت مشکل اور دشوار ہوگا اس کے برعکس موضع احصار میں قربانی کر کے احرام کھول دینے میں اس کے لیے بہت آسانی ہے جب کہ اس طریقہ کو محصر کی آسانی ہی کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو تو وہ اس کے بدلہ میں روزے رکھے یا کچھ صدقہ دے یا قربانی کرے۔ (البقرہ : ١٩٦)

ضرورت کی وجہ سے منی میں پہنچنے سے پہلے سر منڈانے کی رخصت :

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

عبداللہ بن معقل بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت کعب بن عجرہ (رض) کے پاس مسجد کوفہ میں بیٹھا ہوا تھا ‘ میں نے ان سے روزہ کے فدیہ کے متعلق سوال کیا انہوں نے کہا : مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے جایا گیا درآں حالیکہ میرے منہ پر جوئیں ٹپک رہی تھیں آپ نے فرمایا : میں تم پر کیسی مصیبت دیکھ رہا ہوں ‘ کیا تمہارے پاس (قربانی کیلیے) ایک بکری نہیں ہے ؟ میں نے کہا : نہیں ‘ آپ نے فرمایا : تین دن کے روزے رکھو ‘ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ‘ ہر مسکین کو نصف صاع (دو کلو گرام) طعام (گندم) دو ‘ اور اپنا سرمنڈا دو یہ آیت خاص میرے متعلق نازل ہوئی ہے لیکن تمہارے لیے بھی عام ہے۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٦٤٢ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

ملا جیون حنفی لکھتے ہیں :

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ تم میں سے جو شخص مریض ہو اور اس کو فورا سرمنڈانے کی حاجت ہو ‘ یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو مثلا کوئی زخم ہو یا جوئیں ہوں ‘ تو پھر اس کے لیے منی پہنچنے اور قربانی کرنے تک سر منڈانے کو موقوف کرنا ضروری نہیں ہے ‘ البتہ سر منڈانے کے بعد اس پر فدیہ دینا واجب ہوگا ‘ قربانی کرے ‘ تین دین کے روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے قربانی کو حرم میں ذبح کرنا ضروری ہے اور روزہ رکھنا یا مسکینوں کو کھانا کھلانا حرم میں ضروری نہیں ہے۔ (تفسیرات احمدیہ ص ٨٨‘ مطبوعہ مطبع کریمی ‘ بمبئی)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو جب تم حالت امن میں ہو تو جو شخص حج کے ساتھ عمرہ ملائے تو وہ ایک قربانی کرے جس کو وہ آسانی کے ساتھ کرسکے ‘ اور جو قربانی نہ کرسکے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات روزے جب تم لوٹ آؤ ‘ یہ کامل دس (روزے) ہیں یہ (حج تمتع کا) حکم اس شخص کے لیے جس کے اہل و عیال مسجد حرام (مکہ مکرمہ) کے رہنے والے نہ ہوں۔ (البقرہ : ١٩٦)

حج تمتع کا بیان :

اس آیت کی ایک تفسیر تو یہ ہے کہ اس آیت میں زمانہ امن میں حج تمتع کا بیان فرمایا ہے ‘ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے مسلمانو ! اگر تم سفر حج میں روک دیئے جاؤ تو تم کو جو قربانی سہولت سے حاصل ہو وہ قربانی کرکے احرام کھول دو ‘ اور جب تم سے دشمن کا خوف جاتا رہے یا مرض دور ہوجائے اور تم حج کے ساتھ عمرہ ملاؤ تو ایک قربانی کرو جس کو آسانی کے ساتھ کرسکو۔

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں تمتع کیا اور قرآن (اس کے موافق) نازل ہوچکا تھا ‘ پھر ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہا۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٢١٣‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس قول میں حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) کی طرف تعریض ہے جو تمتع کرنے سے تنزیہا منع کرتے تھے اکابر علماء صحابہ نے ان کی مخالفت کی اور اس کا انکار کیا اور حق ان ہی کے ساتھ ہے۔

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سے حج تمتع کے متعلق سوال کیا گیا انہوں نے فرمایا : مہاجرین اور انصار اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج اور ہم نے حجۃ الوداع میں احرام باندھا ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جن لوگوں نے قربانی کے جانوروں کے گلے میں ہار ڈال دیا ہے۔ ١ (کیونکہ قربانی کے گلے میں ہار ڈالنے سے حج کی نیت ہوگئی اور جنہوں نے ہار نہیں ڈالا تھا ان کی نیت نہیں ہوئی تھی ‘ ان کو آپ نے عمرہ کرنے کی نیت کا حکم دیا) ان کے سوا باقی لوگ حج کے احرام میں عمرہ کی نیت کرلیں ‘ سو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا ‘ صفا اور مروہ میں سعی کی ‘ اور (احرام کھول کر) اپنی اپنی ازواج سے مقاربت کی اور سلے ہوئے کپڑے پہن لیے ‘ اور جن لوگوں نے اپنی قربانی کے جانوروں میں قلادہ (ہار) ڈال دیا تھا وہ (عمرہ کرنے کے بعد بھی) بہ دستور اپنے احرام پر برقرار رہے ‘ کیونکہ جب تک ان کی قربانی اپنی جگہ پر ذبح نہ ہوجاتی وہ احرام نہیں کھول سکتے تھے ‘ پھر آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ لیں ‘ سو جب ہم عرفات اور مزدلفہ کے وقوف سے فارغ ہوگئے تو ہم نے بیت اللہ میں آ کر طواف (زیارت) کیا ‘ اور صفا اور مروہ میں سعی کی تو ہمارا حج مکمل ہوگیا اور ہم پر ایک قربانی لازم تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” فما استیسرمن الھدی “۔ (البقرہ : ١٩٦) اور ایک بکری کی قربانی کافی ہے “ سو ان لوگوں نے ایک سال میں حج اور عمرہ کی دو عبادتیں جمع کرلیں ‘ اس حکم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے اور یہ اس کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے اور اس تمتع کو مکہ والوں کے سوا باقی تمام مسلمانوں کے لیے مشروع فرمایا ہے ‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجدالحرام “۔ (البقرہ : ١٩٦) اور حج کے جن مہینوں کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے وہ شوال ‘ ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں ‘ سو جو شخص ان مہینوں میں تمتع کرے اس پر قربانی لازم ہے یا روزے (صحیح بخاری ج ١ ص ٢١٤۔ ٢١٣‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو حج کیا وہ حج قران تھا اور یہی سب سے افضل حج ہے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 196