أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ

ترجمہ:

اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور باقی ماندہ سود کو چھوڑ دو اگر تم مؤمن ہو۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور باقی ماندہ سود کو چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ پس اگر تم ایسا نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے اصل مال تمہارا حق ہیں ‘ نہ تم ظلم کرو نہ تم ظلم کیے جاؤ گے۔ (البقرہ : ٢٧٩۔ ٢٧٨)

سودی کاروبار ترک نہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم :

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اے ایمان والو ! سود حرام قرار دیئے جانے کے بعد لوگوں کے اوپر جو تمہاری سودی رقوم ہیں ان کو چھوڑ دو ‘ اور ان سے صرف اپنی اصل رقم وصول کرو ‘ امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

سدی بیان کرتے ہیں کہ یہ آیات حضرت عباس بن عبدالمطلب اور بنومغیرہ کے ایک شخص کے متعلق نازل ہوئی ہیں ‘ وہ دونوں زمانہ جاہلیت میں شریک تھے ‘ جس وقت وہ مسلمان ہوئے تو لوگوں کے اوپر ان کے سود کی بڑھی بھاری رقمیں تھیں ‘ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ زمانہ جاہلیت میں جو سود تھا اس کو وصول مت کرو۔

ابن جریر نے بیان کیا ہے کہ ثقیف نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات پر صلح کرلی کہ ان کا جو سود لوگوں پر ہے اور لوگوں کا جو سود ان پر ہے وہ سب چھوڑ دیا جائے گا ‘ فتح مکہ کے بعد حضرت عتاب بن اسید مکہ مکرمہ کے عامل بنائے گئے اس وقت بنوعمرہ بن عمیر بن عوف ‘ بنو مغیرہ سے سود لیتے تھے اور بنو مغیرہ ان کو جاہلیت میں سود ادا کرتے تھے ‘ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان پر بہت زیادہ سود کی رقمیں واجب الاداتھیں ‘ بنو عمرو نے آکر ان سے اپنے سود کا مطالبہ کیا ‘ بنومغیرہ نے مسلمان ہونے کے بعد ان کو سود ادا کرنے سے انکار کردیا ‘ یہ مقدمہ حضرت عتاب بن اسید (رض) کے پاس پیش کیا گیا ‘ حضرت عتاب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس معاملہ کا حکم معلوم کرنیکے لیے خط لکھا ‘ تو یہ آیت نازل ہوگئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عتاب اسید کو جواب لکھا کہ اگر بنو عمرو ‘ سود کو چھوڑنے پر راضی نہ ہوں تو ان سے اعلان جنگ کردو۔ (جامع البیان ج ٣ ص ٧١‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی تو ثقیف سود لینے سے باز آگئے اور کہا : ہم اللہ اور رسول سے جنگ کی طاقت نہیں رکھتے۔

علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ جو لوگ سود لینے کو ترک نہ کریں ان سے اسی طرح جنگ کی جائے گی جس طرح مرتدین اور باغیوں سے جنگ کی جاتی ہے۔ جمہور مفسرین کا یہی مختار ہے۔ (روح المعانی ج ٣ ص ‘ ٥٣ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)

سود پر وعید کے متعلق احادیث :

حافظ سیوطی بیان کرتے ہیں :

امام مسلم اور امام بیہقی حضرت جابر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سود کھانے والے ‘ سود کھلانے والے ‘ سود پر گواہی دینے والے اور سود کے لکھنے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا : یہ سب برابر ہیں۔

اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ بینک سے سود وصول کرکے غریبوں کو کھلانا جائز نہیں ہے ‘ اور نہ بینک کی ملازمت کرنا جائز ہے۔

امام حاکم نے تصحیح سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ چار آدمیوں کو جنت میں داخل نہ کرے اور ان کو جنت کی نعمتیں نہ چکھائے ‘ عادی شرابی ‘ سود خور ‘ ناحق مال یتیم کھانے والا اور ماں باپ کا نافرمان۔

امام طبرانی نے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انسان سود کا جو ایک درہم وصول کرتا ہے وہ اللہ کے نزدیک اسلام میں تینتیس بار زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔

امام طبرانی نے ” معجم اوسط “ میں حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سود کے بہتر درجے ہیں اور سب سے کم درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے۔

امام ابویعلی نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس قوم میں زنا اور سود کی کثرت ہوجاتی ہے ‘ اس قوم پر اللہ کا عذاب حلال ہوجاتا ہے۔

امام احمد نے حضرت عمرو بن العاص (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس قوم میں سود کی کثرت ہوتی ہے اس قوم پر قحط مسلط کردیا جاتا ہے ‘ اور جس قوم میں رشوت کی کثرت ہوتی ہے ‘ اس پر رعب طاری کردیا جاتا ہے۔

امام احمد نے حضرت عمرو بن العاص (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس قوم میں سود کی کثرت ہوتی ہے اس قوم پر قحط مسلط کردیا جاتا ہے ‘ اور جس قوم میں رشوت کی کثرت ہوتی ہے ‘ اس پر رعب طاری کردیا جاتا ہے۔

امام ابوداؤد ‘ امام ابن ماجہ اور امام بیہقی اپنی سنن میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ کوئی شخص سود کھانے سے نہیں جو شخص سود نہیں کھائے گا اس جو کو سود کا غبار پہنچے گا (الدرالمنثور ‘ ج ١ ص ٣٦٧‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران)

امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس رات مجھے معراج کرائی گئی مجھے ایک ایسی قوم کے پاس سے گزارا گیا جس نے پیٹ کوٹھڑیوں کی طرح تھے ان کے پیٹوں میں باہر سے سانپ دکھائی دے رہے تھے میں نے پوچھا : اے جبرائیل یہ کون ہیں ؟ کہا : یہ لوگ سود کھانے والے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سود کے ستر گناہ ہیں اور ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے (سنن ابن ماجہ ص ‘ ١٦٥۔ ١٦٤ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صبح کو اپنا خواب بیان فرمایا کہ مجھے جبرائیل اور میکائیل لے گئے میں نے دیکھا کہ خون کا ایک دریا ہے جس کے وسط میں ایک شخص کھڑا ہوا ہے اور دریا کے کنارے ایک شخص ہاتھ میں پتھر لیے ہوئے کھڑا ہے، جب دریا میں کھڑا ہوا شخص کنارے کی طرف آنے کی کوشش کرتا ہے تو کنارے پر کھڑا ہوا شخص اس کے منہ پر پتھر مارتا ہے اور اس کو پھر دریا کے وسط میں دھکیل دیتا ہے اور وہ جب بھی دریا میں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اس کے ساتھ یہی ہوتا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا ‘ مجھے جبرائیل اور میکائیل نے بتایا کہ خون کے دریا میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ سود خور تھے۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ١٨٥‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث میں سود خوروں کے عذاب قبر کا بیان ہے اور چونکہ یہ لوگ دنیا میں غریبوں کی رگوں سے خون نچوڑتے تھے اس لیے ان کو خون کے دریا میں ڈبویا گیا۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 278