اَلَّذِيۡنَ يَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِىَّ الۡاُمِّىَّ الَّذِىۡ يَجِدُوۡنَهٗ مَكۡتُوۡبًا عِنۡدَهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ يَاۡمُرُهُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهٰٮهُمۡ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيۡهِمُ الۡخَبٰۤئِثَ وَيَضَعُ عَنۡهُمۡ اِصۡرَهُمۡ وَالۡاَغۡلٰلَ الَّتِىۡ كَانَتۡ عَلَيۡهِمۡ ؕ فَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِهٖ وَعَزَّرُوۡهُ وَنَصَرُوۡهُ وَ اتَّبَـعُوا النُّوۡرَ الَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ مَعَهٗ ۤ ۙ اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۞- سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 157
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَ لَّذِيۡنَ يَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِىَّ الۡاُمِّىَّ الَّذِىۡ يَجِدُوۡنَهٗ مَكۡتُوۡبًا عِنۡدَهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ يَاۡمُرُهُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهٰٮهُمۡ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيۡهِمُ الۡخَبٰۤئِثَ وَيَضَعُ عَنۡهُمۡ اِصۡرَهُمۡ وَالۡاَغۡلٰلَ الَّتِىۡ كَانَتۡ عَلَيۡهِمۡ ؕ فَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِهٖ وَعَزَّرُوۡهُ وَنَصَرُوۡهُ وَ اتَّبَـعُوا النُّوۡرَ الَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ مَعَهٗ ۤ ۙ اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۞
ترجمہ:
جو اس عظیم رسول نبی امی کی پیروی کریں گے جس کو وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو ان کو نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا جو ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرے گا اور ناپاک چیزوں کو حرام کرے گا جو ان سے بوجھ اتارے گا، اور ان کے گلوں میں پڑے ہوئے طوق اتارے گا، سو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی تعظیم کی اور اس کی نصرت اور حمایت کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جو اس عظیم رسول نبی امی کی پیروی کریں گا جس وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہو اپاتے ہیں ‘ جو ان کو نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا جو ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کا حلال کرے گا اور ناپاک چیزوں کو حرام کرے گا جون ان سے بوجھ اتار دے گا ‘ اور انکے گلوں میں پڑے ہوئے طوق اتارے گا ‘ سو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی تعظیم کی اور اس کی نصرت اور حمایت کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (الاعراف : ١٥٧ )
اس آیت میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواد صاف ذکر کیے گئے ہیں (١) نبی (٢) رسول (٣) امی (٤) آپ کا تو رات میں مکتوب ہونا (٥) آپ کا انجیل میں مکتوب ہونا (٦) امر بالمعروف کرنا اور نہی عن المنکر کرنا (٧) پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرنا (١٨) ان سے بوجھ اتارنا (٩) ان کے گلے میں پڑے ہوئے طوق اتارنا۔
نبی اور رسول کے معنی
علامہ مسعود بن عمر تفتازانی متوفی ٧٩١ ھ لکھتے ہیں۔
رسول وہ انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی طرف تبلیغ کے لیے بھیجا اور کبھی اس میں کتاب کی شرط بھی لگائی جاتی ہے۔ اس کے بر خلاف نبی عام ہے خواہ اس کے پاس کتاب ہو یا نہ۔ (شرح عقائد صفی ‘ ص ١٤)
اس تعریف پر یہ اعتراض ہے کہ رسول تین سو تیرہ ہیں اور کتابیں اور صحائف ملا کر ایک سو چودہ ہیں۔ اور باقی رسولوں کے پاس کتاب نہیں تھی۔ اس لیے علامہ آلو سی نے لکھا ہے کہ تحقیق یہ ہے کہ نبی وہ انسان ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی بغیر کسی بشر کے واسطے کے خبر دے اور ان امور کی خبر دے جن کو محض عقل سے نہیں جانا جاسکتا۔ اور رسول وہ ہے جو ان اوصاف کے علاوہ مرسل الیہم کی اصلاح پر بھی مامور ہو۔ (روح المعانی جز ٩‘ ص ٧٩) لیکن یہ فرق بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی بھی انسانوں کی اصلاح پر مامور ہوتا ہے۔ اس لیے صحیح جواب یہ ہے کہ رسول کے پاس کتاب ہونا ضروری ہے خواہ کتاب جدید ہو یا کسی سابق رسول کی کتاب ہو۔ دوسرافرق یہ ہے کہ رسول کے لیے ضروری ہے کہ اس پر فرشتہ وحی لائے اور نبی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے یہ جائز ہے کہ اس کے دل پر وحی کی جائے۔ یا خواب میں اس پر وحی کی جائے۔
اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواوصاف میں سے ایک تیسرا وصف امی ذکر فرمایا ہے ‘ ہم یہاں لفظ امی کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید کی حسب ذیل آیات میں اللہ تعالیٰ نے لفظ امی کا ذکر فرمایا ہے۔
قرآن اور سنت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر امی کا اطلاق
الذین یتبعون الرسول النبی الامی (الاعراف : ١٥٧ )
جو لوگ اس رسول ‘ نبی امی کی پیروی کریں۔
فامنو باللہ ورسولہ النبی الامی (الاعراف : ١٥٨ )
اللہ پر ایمان لائو اور اس کے رسول پر جو نبی امی ہیں۔
نیز قرآن مجید میں ہے۔
و منھم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی (البقرہ : ٧٨)
اور ان میں بعض لوگ ان پڑھ ہیں جو زبان سے لفظوں کو پڑھنے کے سوا (اللہ کی) کتاب (کے معانی) کا کچھ علم نہیں رکھتے۔
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ھوالذی بعث فی المیین رسولا منھم (الجمعہ : ٢)
جس نے ان پڑ لوگوں میں انہیں میں سے ایک عظیم رسول بھیجا۔
ان کے علاوہ سورت آل عمران میں دو جگہ (٧٥‘ ٢٠) امیین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھی اپنے لیے امی کا لفظ استعمال کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم امی لوگ ہیں لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٩١٣‘ صحیح مسلم الصیام ‘ ١٥ (١٠٨٠) ٢٤٧٢‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٣١٩‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٢١٤١‘ السنن الکبری ٰ للنسائی رقم الحدیث : ٢٤٥١‘ مسند احمد ج ٢‘ ص ٤٤‘ طبع قدیم ‘ جامع الاصول ج ٦‘ رقم الحدیث : ٤٣٩٣)
امی کا لغوی معنی
علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
امی وہ شخص ہے جو نہ لکھتا ہو اور نہ کتاب سے دیکھ کر پڑھتا ہو۔ اس آیت میں امی کا یہی معنی ہے ” ھوالذی بعث فی المیین رسولا منھم “ قطرب نے کہا امیہ “ کے معنی غفلت اور جہالت ہیں سوامی کا معانی قلیل المعرفت ہیں۔ اسی معنی میں ہے ” ومنہم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی “ یعنی وہ امی ہیں جب تک ان پر تلاوت نہ کی جائے وہ از خود نہیں جانتے۔ فراء نے کہا یہ وہ عرب لوگ ہیں جن کے پاس کتاب نہ تھی اور قرآن مجید میں ہے ” والنبی الامی الدی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل “ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے فرمایا ہے کہ آپ امین کے نبی تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ کو امی اس لیے فرمایا کہ آپ لکھتے تھے نہ کتاب سے پڑھتے تھے ‘ اور یہ آپ کی فضیلت ہے کیونکہ آپ حفظ کرنے سے مستغنی تھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی ضمانت پر اعتماد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” سنقرئک فلا تنسسی “ عنقریب ہم آپ کو پڑھائیں گے اور آپ نہیں بھولیں گے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ کو امی اس لیے فرمایا کہ آپ ام القریٰ یعنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے تھے۔ (المفردات ج ا ‘ ص ٢٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)
علامہ ابن اثیر جزری متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
حدیث میں ہے ” انا امۃ لا نکتب ولا تحسب “ ہم اہل عرب امی ہیں لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ” آپ کی مراد یہ تھی کہ ہم اسی طرح ہیں جس طرح اپنی مائوں سے پیدا ہوئے تھے۔ یعنی اپنی جبلت اولیٰ پر ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ امی وہ ہے جو لکھتا نہ ہو۔ نیز حدیث میں ہے بعثت الی امۃ امیۃ “ میں امی امت کی طرف بھیجا گیا ہوں “ یا امی سے عرب مراد ہیں کیونکہ عرب میں لکھنا بالکل نہ تھا یا بہت کم تھا۔ (النہایہ ج ١‘ ص ٦٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)
علامہ محمد طاہر پٹنی متوفی ٩٨٦ ھ لکھتے ہیں :
حدیث میں ہے ہم امی لوگ ہیں لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں۔ یعنی اپنی ماں سے پیدائش کی اصل پر ہیں۔ لکھنا سیکھا ہے نہ حساب کرنا۔ تو وہ اپنی اصل جبلت پر ہیں اور اسی نہج پر ہے امیین میں رسول بھیجا گیا۔ علامہ کرمانی نے کہا اس میں ام القریٰ کی طرف نسبت ہے یعنی مکہ والوں کی طرف۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عرب میں لکھنے والے بھی تھے اور ان میں سے اکثر حساب جاننے والے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لکھنا نہیں جانتے تھے اور حساب سے مراد ستاروں کا حساب ہے اور وہ اس کو بالکل نہیں جانتے تھے۔ علامہ طیبی نے کہا کہ ابن صیاد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ امین کے رول ہیں اس شیطان کا مطلب یہ تھا کہ آپ صرف عرب کے رسول ہیں دوسروں کے نہیں۔
(مجمع بحارالانوارج ١‘ ص ١٠٧‘ مطبوعہ مکتبہ دارالامان ‘ المدینہ المنورہ ‘ ١٤١٥ ھ)
علامہ زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں :
قاموس میں ہے امی وہ شخص ہے جو لکھتا نہ ہو یا اپنی ماں سے پیدائش کے حال پر باقی ہو اور امی غبی اور قلیل الکلام کو بھی کہتے ہیں۔ اس کی تشریح میں علامہ زبیدی لکھتے ہیں : حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے کہا جاتا ہے کہ عرب قوم لکھتی تھی نہ پڑھتی تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کیا در آنحالیکہ آپ لکھتے تھے نہ کتاب کو پڑھتے تھے۔ اور یہ آپ کا معجزہ ہے کیونکہ آپ نے بغیر کسی تغیر اور تبدل کے بار بار قرآن مجید کو پڑھا۔ قرآن مجید میں ہے ” وما کنت تتلو من قبلہ من کتاب “ (الایۃ) حافظ ابن حجر عسقلانی نے احادیث رافعی کی تخریج میں لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لکھنے اور شعر گوئی کو حرام کردیا گیا تھا۔ یہ اس وقت ہے اگر آپ شعر گوئی اور لکھنے کو اچھی طرح بروئے کار لاتے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہرچند کہ آپ کو شعر اور خط میں مہارت تو نہیں تھی لیکن آپ اچھے اور برے شعر میں تمیز رکھتے تھے۔ اور بعض علماء کا یہ دعویٰ ہے کہ پہلے آپ لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن بعد میں آپ نے لکھنا جان لیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وما کنت تتلوا من قبلہ (الایہ) آپ سے پہلے نہ کسی کتاب کو پڑھتے تھے نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ اور ” اس سے پہلے “ کی قید کا یہ معنی ہے کہ بعد میں آپ نے اس کو جان لیا ‘ کیونکہ آپ کا پہلے نہ جاننا معجزہ کے سبب سے تھا اور جب اسلام پھیل گیا اور لوگوں کے شکوک کا خطرہ نہ رہا تو پھر آپ نے اس کو جان لیا ‘ اور امام ابن ابی شیبہ اور دیگر محدثین نے مجاہد سے روایت کیا ہے ” مامات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حتی کتب وقرء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک فوت نہیں ہوئے جب تک کہ آپ نے لکھ نہیں لیا ‘ اور پڑھ نہیں لیا اور مجاہد نے شعبی سے کہا ‘ اس آیت میں اس کے خالف نہیں ہے۔ ابن وحیہ نے کہا کہ علامہ ابوذر ‘ علامہ ابو ذر ‘ علامہ ابوالفتح نیشاپوری اور علامہ باجی مالکی کا بھی یہی نظریہ ہے۔ علامہ باجی نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے ‘ بعض افیقی علماء نے بھی علامہ باجی کی موافقت کی ہے اور کہا ہے کہ امی ہونے کے بعد لکھنے کو جان لینا معجزہ کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ آپ کا دوسرا معجزہ ہے ‘ کیونکہ بغیر کسی انسان کے سکھائے کتاب کو پڑھنا اور لکھنا بھی معجزہ ہے۔ ابو محمد بن مفوز نے علامہ باجی کی کتاب کا رد لکھا ہے اور علامہ سمنانی وغیرہ نے کہا ہے کہ آپ بغیر علم کے لکھتے تھے ‘ جیسے بعض ان پڑھ بادشاہ بعض حروف لکھ لیتے تھے حالانکہ ان کو حروف کی تمیز اور شناخت نہیں ہوتی تھی۔ (تاج العروسج ٨‘ ص ١٩١‘ مطبوعہ المطبعہ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ)
علامہ سید محمود آلو سی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ امی کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
زجاج نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے کہا ہے کہ آپ امت عرب کی طرف منسوب ہیں جس کے اکثر افراد لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ اور امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابن عمر (رض) سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ اہم امی لوگ ہیں نہ لکھتے ہیں نہ گنتی کرتے ہیں۔ امام باقر نے کہا ہے کہ آپ ام القریٰ یعنی مکہ کے رہنے والے تھے اس لیے آپ کو امی فرمایا ‘ آپ اپنی ام (ماں) کی طرف منسوب تھے ‘ یعنی آپ اسی حالت پر تھے جس حال پر اپنی ماں سے پیدا ہوئے تھے ‘ آپ کا یہ وصف اس تنبیہہ کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ آپ اپنی پیدائشی حالت پر قائم رہنے (یعنی کسی سے پڑھنا ‘ لکھنا نہ سیکھنے) کے باوجود اس قدر عظیم علم رکھتے تھے سو یہ آپ کا معجزہ ہے۔ امی کا لفظ صرف آپ کے حق میں مدح ہے اور باقی کسی کے لیے ان پڑھ ہونا باعث فضلیت نہیں ہے ‘ جیسا کہ تکبر کا لفظ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے باعث مدح ہے اور دوسروں کے حق میں باعث مذمت ہے۔
نیز علامہ آلوسی لکھتے ہیں : علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی وقت لکھنے کا صدور ہوا ہے یا نہیں ہوا ؟ ایک قول یہ ہے کہ ہاں صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ نے صلح نامہ لکھا اور یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ ہے اور احادیث ظاہرہ کا بھی یہی تقاضا ہے ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ نے بالکل نہیں لکھا اور آپ کی طرف لکھنے کی نسبت مجاز ہے ‘ اور بعض اہل بیت سے روایت ہے کہ آپ لکھے ہوئے الفاظ کو دیکھ کر پڑھتے تھے لیکن اس روایت کی کوئی معتمد سند نہیں ہے ‘ ہاں ابو الشیخ نے اپنی سند کے ساتھ عقبہ سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک فوت نہیں ہوئے جب تک آپ نے پڑھا اور لکھا نہیں ‘ شعبی نے اس روایت کی تصدیق کی ہے۔ (روح المعانی ‘ ج ٩‘ ص ٧٩‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ‘ بیروت)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے اور پڑھنے پر قرآن مجید سے دلائل
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وما کنت تتلومن قبلہ من کتاب ولا تخطہ بیمینک اذا الار تاب المبطلون۔ (العنکبوت : ٤٨ )
اس (کتاب کے نزول) سے پہلے آپ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ‘ ایگر ایسا ہوتا تو باطل پرستوں کو شبہ پڑجاتا !
اس آیت کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی استاد سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا ‘ قریش مکہ کے سامنے آپ کی پوری زندگی تھی ‘ آپ کے اہل وطن اور رشتہ داروں کے سامنے ‘ روز پیدائش سے اعلان نبوت تک آپ کی ساری زندگی گزری اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ نے کبھی کوئی کتاب پڑھی نہ قلم ہاتھ میں لیا اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آسمانی کتابوں کی تعلیمات ‘ گزشتہ انبیاء ورسل کے حالات ‘ قدیم مذاہب کے عقائد ‘ تاریخ ‘ تمدن ‘ اخلاق اور عمرانی اور عائلی زندگی کے جن اہم مسائل کو یہ امی شخص انتہائی فصیح وبلیغ زبان سے بیان کر رہے ہیں ‘ اس کا وحی الہٰی کے سوا اور کوئی سبب نہیں ہوسکتا ‘ اگر انہوں نے کسی مکتب میں تعلیم پائی ہوتی اور گذشتہ مذاہب اور تاریخ کو پڑھا ہوتا تو پھر اس شبہ کی بنیاد ہوسکتی تیے کہ جو کچھ یہ بیان کر رہے ہیں وہ دراصل ان کا حاصل مطالعہ ہے۔ ہرچند کہ کوئی پڑھا لکھا انسان بلکہ دنیا کے تمام پڑھے لکھے آدمی مل کر اور تمام علمی وسائل بروئے کار لا کر بھی ایسی بےنظیر کتاب تیار نہیں کرسکتے ‘ تاہم اگر آپ نے اعلان نبوت سے پہلے لکھنے پڑھنے کا مشغلہ اختیار کیا ہوتا تو جھوٹوں کو ایک بات بنانے کا موقع ہاتھ لگ جاتا ‘ لیکن جب آپ کا امی ہونا ‘ فریق مخالف کو بھی تسلیم تھا تو اس سر سری شبہ کی بھی جڑ کٹ گئی اور یوں کہنے کو تو ضدی اور معاند لوگ پھر بھی یہ کہتے تھے :
وقالو اساطیر الاولین اکتتبھا فھی تملی علیہ بکرۃ واصیلا (الفرقان : ٥)
اور انہوں نے کہا یہ پہلے لوگوں کے لکھے ہوے قصے ہیں جو اس (رسول) نے لکھوا لیے ہیں ‘ سو وہ صبح و شام اس پر پڑھے جاتے ہیں۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے لکھنے اور پڑھنے کی نفی کو آپ کے اعلان نبوت سے پہلے کی قید سے مقید کیا ہے اور یہی مقصود ہے۔ کیونکہ اگر اعلان نبوت اور نزول قرآن سے پہلے آپ کا لکھنا پڑھنا ثابت ہوتا تو اس شبہ کی راہ نکل سکتی تھی اور اس آیت سے آپ کی نبوت اور قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے پر استدلال نہ ہوسکتا۔ اور اس قید لگانے کا یہ تقاضا ہے کہ اعلان نبوت کے بعد آپ سے لکھنے اور پڑھنے کا صدور ہوسکتا ہے اور بعد میں آپ کا لکھنا اور پڑھنا اس استدلال کے منافی نہیں ہے۔
علامہ آلوسی نے بعض اجلہ علماء کا یہ قول نقل کیا ہے :
اس قد سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن مجید کے نازل ہونے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھنے اور پڑھنے پر قادر تھے اور اگر اس قید کا اعتبار نہ کیا جائے تو یہ قید بےفائدہ ہوگی۔ (روح المعانی ج ٢١‘ ص ٥‘ مطبوعہ بیروت)
اس استدلال پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ یہ مفہوم مخالف سے استدلال ہے۔ اور فقہاء احناف کے نزدیک مفہوم مخالف سے استدلال معتبر نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مفہوم مخالفت کا استدلال میں معتبر نہ ہونا اتفاقی نہیں ہے کیونکہ باقی ائمہ مفہوم مخالف کا اعتبار کرتے ہیں ‘ خصوصاً جب کہ بکثرت احادیث صحیحہ سے بعثت کے بعد آپ کا لکھنا ثابت ہے ‘ جیسا کہ ہم عنقریب انشاء اللہ با حوالہ بیان کریں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیگرعلمی اور عملی کمالات عطا فرمائے ہیں اسی طرح آپ کو لکھنے پڑھنے کا بھی کمال عطا فرمایا ہے ‘ لکھنے کا علم ایک عظیم نعمت ہے ‘ قرآن مجید میں ہے : الذی علم بالقلم۔ علم الانسان مالم یعلم (العلق : ٤٠٥) ” جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ‘ اور انسان کو وہ علم دیا ‘ جس کو وہ جانتا نہ تھا “۔ امت کے ان گنت افراد کو پڑھنے اور لکھنے کا کمال حاصل ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کمال حاصل نہ ہو ! اور امی ہونے کا فقط یہ مفاد ہے کہ آپ نے کسی مخلوق سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو براہ راست یہ علم عطا فرمایا ہے اور بعثت سے پہلے آپ لکھنے اور پڑھنے میں مشغول نہیں رہے تاکہ آپ کی نبوت میں کسی شبہ نہ ہو اور بعثت کے بعد آپ نے پڑھا اور لکھا اور یہ ایک الگ معجزہ ہے۔ کیونکہ بغیر کسی مخلوق سے کسب فیض کے پڑھنا اور لکھنا خلاف عادت ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے پر سید مودودی کے اعتراضات اور ان کے جوابات
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے پر اعتراض کرتے ہوئے سید مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ لکھتے ہیں۔
ان لوگوں کی جسارت حیرت انگیز ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ حالانکہ یہاں قرآن صاف الفاظ میں حضور کے ناخواندہ ہونے کو آپ کی نبوت کے حق میں ایک طاقتور ثبوت کے طور پر پیش کر رہا ہے ‘ جن روایات کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حضور لکھے پڑھے تھے یا بعد میں آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا ‘ وہ اوّل تو پہلی ہی نظر میں رد کردینے کے لائق ہیں کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی ‘ پھر وہ بجائے خود بھی اتنی کمزور ہیں کہ ان پر کسی استدلال کی بنیاد قائم نہیں ہوسکتی ‘ ان میں سے ایک بخاری کی یہ روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاملہ جب لکھا جا رہا تھا تو کفار مکہ کے نمائندے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام کے ساتھ رسول اللہ لکھنے جانے پر اعتراض کیا۔ اس پر حضور نے کاتب (یعنی حضرت علی) حکم دیا کہ اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر محمد بن عبداللہ لکھ دیا۔ (الی قولہ) ہوسکتا ہے کہ صحیح صورت واقعہ یہ ہو کہ جب حضرت علی نے ” رسول اللہ “ کا لفظ مٹانے سے انکار کردیا تو آپ نے اس کی جگہ ان سے پچھ کر اور پھر ان سے یا کسی دوسرے کاتب سے ابن عبداللہ کے الفاظ کے الفاظ لکھوا دئے ہوں (الی قولہ) تاہم اگر واقعہ یین ہو کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا نام اپنے ہی دست مبارک سے لکھا ہو تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں ‘ باقی کوئی چیز نہ پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔ (تفہیم القرآن ج ٣‘ ص ٧١٣۔ ٧١٤ ملتحصا ‘ مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور۔
الجواب
پہلی بات یہ ہے کہ سید مودودی کا یہ لکھنا غلط ہے کہ اعلان نبوت کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لکھنا قرآن مجید کی اس آیت اور اس استدلال کے خلاف ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید نے آپ کے لکھنے اور پڑھنے کی مطلقاً نفی نہیں کی ‘ بلکہ نزول قرآن سے پہلے آپ لکھنے اور پڑھنے کی نفی کی ہے۔ لہذا نزول قرآن کے بعد جن احادیث میں آپ کے لکھنے کا ثبوت ہے وہ روایات قرآن مجید کے خلاف نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم اور دیگر بکثرت کتب صحاح سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لکھنا ثابت ہے اور سید مودودی کا ان احادیث کو بجائے خود کمزور کہنا لائق التفات نہیں ہے۔ ثالثاً سید مودودی نے جو یہ تاویل کہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے کسی اور کاتب سے لکھوا دیا ہو سو یہ احتمال بلا دلیل ہے اور الفاظ کو بلا ضرورت مجاز پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ رابعاً اس بحث کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سید مودودی نے نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عام ان پڑھ لوگون پر قیاس کیا ہے اور لکھا ہے اگر آپ نے اپنا نام اپنے ہی دست مبارک سے لکھا ہو تو اییل مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں ‘ باقی کوئی چیز نہیں پڑھ سکتے ‘ نہ لکھ سکتے ہیں۔ عام لوگوں کا ان پڑھ ہونا ان کا نقص اور ان کی جہالت ہے اور رسول اللہ کا امی ہونا ‘ آپ کا کمال ہے ‘ کہ دنیا میں کسی استاد کے آگے زانو تلمذتمہ نہیں کیا ‘ کسی مکتب میں جا کر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا اور براہ راست خدائے لم یزل سے علم پاکر اولیں اور آخرین کے علوم بیان فرمائے اور پڑھ کر بھی دکھایا اور لکھ بھی دکھایا۔
یتیمے کہ ناکردہ قرآن درست
کتب خانہ چند ملت بشت
اب ہم قارئین کے سامنے بکثرت حوالہ جات کے ساتھ وہ احادیث پیش کرتے ہیں ‘ جن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لکھنے کا اسناد کیا گیا ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے کے ثبوت میں احادیث
حضرت براء بن عازب ص بیان کرتے ہیں کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوالقعدہ میں عمرہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے منع کردیا ‘ حتی کہ اس بات پر صلح کی آپ آئندہ سال عمرہ کریں اور مکہ میں صرف تین دن قیام کریں ‘ جب انہوں نے صلح نامہ لکھا تو اس میں یہ لکھا کہ یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ نے صلح کی ‘ کفار مکہ نے کہا کہ ہم اس کو نہیں مانتے۔ اگر ہم کو یہ یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہ منع کرتے لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا میں تو رسول اللہ ہوں اور میں محمد بن عبداللہ ہوں۔ پھر آپ نے حضرت علی بن ابی طالب سے فرمایا رسول اللہ (کے الفاظ) مٹا دو ‘ حضرت علی نے کہا نہیں ! خدا کی قسم ! میں آپ (کے الفاظ) کو ہرگز نہیں مٹائوں گا ‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (لکھنا شروع کیا ‘ اور آپ اچھی طرح (مہارت سے) نہیں لکھتے تھے۔ پس آپ نے لکھا یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی کہ کوئی شخص مکہ میں ہتھیار لے کر داخل نہیں ہوگا ‘ سو اس کے کہ تلوار نیام میں ہو۔ (الحدیث)
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٢٥١‘ مسند احمد ج ٤‘ ص ٢٩٨‘ جامع الا صول ج ٨ رقم الحدیث : ٦١٣٣)
امام بخاری نے اس واقعہ کو ایک اور سند کے ساتھ حضرت براء بن عازب ص سے روایت کیا ہے اس میں اس طرح ہے :
جب انہوں نے صلح نامہ لکھا تو اس میں یہ لکھا کہ یہ وہ ہے جس پر محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح کی کفار مکہ نے کہا ہم اس کو نہیں مانتے اگر ہم کو یہ یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو منع نہ کرتے ‘ لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں ‘ آپ نے فرمایا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں اور میں محمد بن عبداللہ ہوں ‘ پھر آپ نے حضرت علی سے کہا رسول اللہ (کے الفاظ) کو مٹا دو ‘ حضرت علی نے کہا نہیں ! خدا کی قسم ! میں آپ (کے الفاظ) کو نہیں مٹائوں گا ‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مکتوب کو پکڑا اور لکھا : وہ یہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی۔ (الحدیث) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٩٩)
سید ابوالاعلی مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ ان احادیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
حضرت براء کی روایت میں اضطراب ہے اور راویوں نے حضرت براء کے جوں کے توں الفاظ نقل نہیں کیے۔ کسی روایت میں لکھنے کا مطلقاً ذکر نہیں ‘ کسی میں صرف ” کتب “ ہے اور کسی میں ہے ” لیس یحسن یکتب “۔
تفہیم القرآن ‘ ج ٣‘ ص ٧١٤‘ ملحصا ‘ مطبوعہ ادارہ ترجمن القرآن)
یعنی بعض روایات میں ہے۔ آپ نے لکھا اور بعض روایات میں ہے آپ اچھی طرح یعنی مہارت سے نہیں لکھتے تھے۔
سید مودودی کا اس اختلاف کا اضطراب قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ یہ ایسا اختلاف نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ان روایات کا معنی مضطرب ہوجائے۔ اگر اس قسم کی اختلاف کو اضطرا کہا جائے تو پھر تمام احادیث ساقط الاستدلال قرار پائیں گی۔
علاوہ ازیں جن احادیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے کا ثبوت ہے وہ اور بھی صحابہ کرام سے مروی ہیں اور ان میں ” کتب “ اور ” لیس یحسن یکتب “ کا اختلاف بھی نہیں ہے۔ اب ہم دوسرے صحابہ کی روایات کو پیش کر رہے ہیں :
سعید بن جیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) عنما نے کہا جمعرات کا دین ! کیسا تھا وہ جمعرات کا دن ! پھر وہ رونے لگے حتی کہ ان کے آنسوئوں سے سنگریزے بھیک گئے۔ پس میں نے کہا اے ابن عباس ! جمعرات کے دن میں کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دور زیادہ ہوگیا تھا ‘ آپ نے فرمایا میرے پاس (قلم اور کاغذ) لائو میں تمہیں ایک ایسا مکتوب لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے ‘ پس صحابہ میں اختلاف ہوگیا اور نبی (علیہ السلام) کے پاس اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا ‘ صحابہ نے کہا آپ کا کیا حال ہے ؟ کیا آپ بیماری میں کچھ کہہ رہے ہیں ؟ آپ سے پوچھ لو۔ (الحدیث)
مسلم کی ایک روایت (٤١٥٢) میں ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ان کا اختلاف اور شور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے لکھنے کے درمیان حائل ہوگیا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٣١‘ صحیح مسلم ‘ الوصیۃ ‘ ٢٠‘ (١٦٣٧) ٤١٥٤‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٠٢٩ )
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں۔ کہ رول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض میں مجھ سے فرمایا میرے لیے ابوبکر کو اور اپنے بھائی کو بلائو حتی کہ میں ایک مکتوب لکھ دوں ‘ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور کہنے الا کہے گا میں ہی (خلافت کا) مستحق ہوں ‘ اور اللہ اور مومنین ابوبکر کے غیر پر انکار کردیں گے۔ (صحیح مسلم ‘ فضائل الصحابتہ ١١‘ (٢٣٨٧) ٦٠٦٤ )
حضرت انس بن مالک ص بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روم کی طرف مکتوب لکھنے کا ارادہ کیا تو صحابہ نے کہا وہ صرف اسی مکتوب کو پڑھتے ہیں جس پر مہر لگی ہوئی ہو ‘ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی گویا کہ میں اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں دیکھ رہا تھا اس پر نقش تھا ” محمد رسول اللہ “۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٥‘ صحیح مسلم ‘ لباس ‘ ٥٦‘ (٢٠٩٢) ٥٣٧٩‘ سنن التسائی رقم الحدیث : ٥٢٠٢‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم (الحدیث : ٨٨٤٨ )
حضرت انس ص بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسری کی طرف ‘ قیصر کی طرف ‘ نجاشی کی طرف اور ہر جابر بادشاہ کی طرف مکاتب لکھے۔ آپ ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اور یہ وہ نجاشی نہیں ہے جس کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز جنازہ پڑھتی تھی۔
(صحیح مسلم ١ الجہادو السیر ٧٥‘ (١٧٧٤) ٤٥٢٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٧٢٣‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨٨٤٧ )
امام بخاری اور امام مسلم نے ایک طویل حدیث کے ضمن میں اور امام ابو دائود اور امام داری نے صرف اس واقعہ کو روایت کیا ہے :
حضرت ابو حمید ساعدی ص بیان کرتے ہیں کہ یلہ کے بادشاہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خط لکھا اور ایک سفید خچر آپ کو ہدیہ میں بھجی ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کو خط لکھا اور اس کو ایک چادر ہدیہ میں بھجی ‘ اور آپ نے حکم دیا کہ وہ سمندر کے ساتھ جس شہر میں رہتے ہیں اس میں ان کو جزیہ پر رہنے دیا جائے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٨‘ صحیح مسلم ‘ فضائل ‘ ١٢‘ (١٣٩٢) ٥٨٣٩‘ سسن ابودائود رقم الحدیث : ٣٠٧٩‘ سنن واری رقم الحدیث : ٢٤٩٥‘ مسند احمد ج ٥‘ ص ٤٢٥ )
حضرت سہل بن ابی حشمہ ص بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سہل اور حضرت محیصہ کسی کام سے خیبر گئے ‘ پھر حجرت محیصہ کو خبر پہنچی کہ حضرت عبداللہ بن سہل کو تقل کر کے کنویں میں ڈال دیا گیا ‘ وہ یمود کے پاس گئے ‘ (الی ان قال) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو یمود تمہارے مقتول کی دیت ادا کریں گے اور یا وہ اعلان جنگ کو قبول کرلیں ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ (فیصلہ) یمود کی طرف لکھ کر بھیج دیا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧١٩٢‘ صحیح مسلم الحدود ‘ ٦ (١٦٦٩) ٤٧٠‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٥٢١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٧٢٥۔ ٤٧٢٤‘ موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٦٣٠)
حضرت براء بن عازب ص کے علاوہ یہ حضرت عباس ‘ حجرت عائشہ ‘ حضرت انس ‘ حضرت ابو حمید ساعدی اور حضرت سہل بن ابی حثمہ (رض) عمہم کی روایات ہیں اور یہ سب صحاح ستہ کی روایات ہیں ‘ ان میں سے کسی حدیث کی سند ضعیف نہیں ہے ‘ اور ان تمام احادیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے کی تصریح ہے اور ان سب کی یہ تاویل کرنا کہ لکھنے سے مراد لکھنے کا حکم دینا ہے صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ یہ مجاز ہے اور جب تک کوئی عقلی یاشرعی استحالہ نہ ہو کسی لفظ کو حقیقت سے ہٹا کر مجاز پر محمول کرنا جائز نہیں ہے اور بلا وجہ حدیث کے الفاظ کو اپنی مرضی کا معنی پہنانا محض اتباع ہوس ہے ‘ خصوصاً اس صورت میں جب کہ قرآن مجید سے نزول قرآن کے بعد آپ کے لکھنے اور پڑھنے کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ ہم پہلے واضح کرچکے ہیں ‘ نیز لکھنا اور پڑھنا اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت اور کمال ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کیا مت کو توبہ نعمت عطا فرمائے اور آپ کو اس نعمت سے محروم رکھے ‘ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ کو لکھنا اور پڑھنا نہیں آتا تھا تو لازم آئے گا کہ اس نعمت اور کمال میں امت آپ سے بڑھ جائے اور یہ کسی طرح جائز نہیں ہے ‘ امت کو اپنے نبی پر مطلقاً فضیلت نہیں ہوتی ‘ جزوی نہ کلی۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے کے متعلق محدثین کی تحقیق
علامہ ابو العباس احمد بن عمرالقرطبی المالکی التموفی ٦٥٦ ھ حضرت براء بن عازب ص سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے لکھا محمد بن عبداللہ اور ایک روایت میں ہے آپ نے یہ لکھا ‘ حالانکہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے (صحیح البخاری ٤٢٨١‘ ٢٦١٩) علامہ السمنانی ‘ علامہ ابوزر اور باجی نے اس حدیث کو اپنے ظاہر پر محمول کیا ہے اور ان کی تحقیق یہ ہے کہ یہ لکھنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے ‘ اور نہ اس آیت کے معارض ہے ‘ اور آپ نزول قرآن سے پہلے کسی کتاب کو نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے۔ (العنکبوت : ٤٨) اور نہ اس حدیث کے خلاف ہے ہم ان پڑھ امت ہیں نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم ٧٦١‘ سنن ابودائود ٢٣١٩) بلکہ ان کی تحقیق یہ ہے کہ آپ کا لکھنا آپ کے معجزہ کا اور زیادہ ہونا ہے ‘ اور یہ آپ کے صدق اور آپ کی رسالت کی اور قوی دلیل ہے ‘ آپ نے کسی سے سیکھے بغیر اوعر اس کے عادی اسباب کے حصول کے بغیر لکھا ہے لہذا یہ اپنی جگہ ایک الگ معجزہ ہے ‘ اور جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی سے پڑھے بغیر اور علم کے دیگر اسباب حاصل کیے بغیر لکھنا بھی آپکے امی ہونے کے خلاف نہیں اور یہ آپ کا بہت بڑا معجزہ ہے اور اعلیٰ درجہ کی فضلیت ہے ‘ اسی طرح کسی سے سیکھے بغیر لکھنا بھی آپ کے امی ہونے کے خلاف نہیں اور یہ آپ کا بہت بڑا معجزہ ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس وقت آپ نے محمد بن عبداللہ لکھا اس وقت آپ نے چند لکیریں ڈالی ہوں اور ان کا مفہوم محمد بن عبداللہ ہو ‘ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ان حروف کی شناخت ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو ان کی شناخت نہ ہو اور ہر تقدیر پر آپ سے امی کا لقب ساقط نہیں ہوگا ‘ اندلسی اور اندلس کے علاوہ دوسرے ممالک کے علماء نے اس نظریہ کی مخالفت کی بلکہ علامہ باجی کی تکفیر کی لیکن یہ درست نہیں ہے اور شریعت میں اس پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے۔
(المفہم ج ٤‘ ص ٦٣٨ ا ٔ٦٣٧‘ مطبوعہ دارابن کثیر ‘ بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
علامہ شرف الدین حسین بن محمد الطیبی المتوفی ٧٤٣ ھ لکھتے ہیں :
قاضی عیاض نے کہا ہے کہ اس حدیث سے علماء نے اس پر استدلال کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ‘ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر یہ لکھائی جاری کردی ‘ یا تو آپ کے علم کے بغیر قلم نے لکھ دیا یا اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے لکھنے کا علم دے دیا اور آپ کو پڑھنے والا بنادیا جب کہ آپ اعلان نبوت کے بعد پڑھتے نہ تھے ‘ اور اس سے آپ کے امی ہونے پر اعتراض نہیں ہوتا اور انہوں نے اس موقف پر شعبی کی روایات سے استدلال کیا ہے ‘ اوعر بعض سلف سے منقول ہے کہ جب تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھ نہیں لیا آپ کی وفات نہیں ہوئی ‘ اور اکثر علماء نے یہ کہا ہے کہ آپ کا لکھنا مطقاً ممنوع ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور آپ نزول قرآن سے پہلے کسی کتاب کو نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے۔ (العنکبوت : ١٤٨) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے استدال کیا ہے : ہم ان پڑھ امت ہیں نہ لکھتے ہیں ‘ نہ حساب کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم : ٧٦١‘ ابودائود ‘ ٢٣١٩) اور بخاری اور مسلم کی حدیث میں جو ہے کہ آپ نے محمد بن عبداللہ لکھا ‘ اس کا معنی ہے کہ آپ نے اس کے لکھنے کا حکم دیا ‘ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجرت ماعز (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحم کیا ‘ یا آپنے چور کے ہاتھ کاٹے یا شرابی کو کوڑے لگائے۔
قاضی عیاض نے کہا لکھنے کے قائلین نے اس آیت کا یہ جواب دیا ہے کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر نزول وحی سے پہلے آپ کتبا سے پڑھتے یا لکھتے تو کفار اس قرآن کے متعلق شک میں پڑجاتے ‘ اور جس طرح آپ کا تلاوت کرنا جائز ہے۔ اسی طرح آپ کا لکھنا بھی جائز ہے اور یہ آپ کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے۔ آپ کا صرف امی ہونا معجزہ نہیں ہے کیونکہ نزول وحی سے پہلے آپکا نہ پڑھنا اور نہ لکھنا ‘ اور نہ لکھنا ‘ اور پھر قرآن پیش کرنا اور ان علوم کو پیش کرنا جن کو امی نہیں جانتے یہ ایک معجزہ ہے۔
اور جن لوگوں نے اس حدیث میں یہ تاویل کہ ہے کہ لکھنے کا معنی ہے آپ نے لکھنے کا حکم دیا۔ یہ تاویل ظاہر حدیث سے بلا ضرورت عدول کرنا ہے ‘ جب کہ حدیث کی عبارت یہ ہے کہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے ‘ پھر آپ نے لکھا ‘ اس میں یہ تصریح ہے کہ ٓپ نے خود لکھا اور جس طرح قرآن مجید میں ہے : ہم نے آپ کو شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ یہ آپ کے لائق ہے۔ (یسین : ٦٩) اس کے باوجود آپ نے منظوم کلام کہا مثلاً
ھل انت الا اصبع دمیت
وفی سبیل اللہ ما لقیت
تو صرف ایک انگلی ہے جو زخمی ہوئی ہے ‘ حالانکہ تیرے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ اللہ کی راہ میں ہوا ہے۔
کیونکہ آپ نے شعر گوئی کے قصد اور ارادہ کے بغیر یہ منظوم کلام فرمایا اسی طرح ہوسکتا ہے کہ لکھنا بھی آپ سے اسی طرح صادر ہوا ہو۔ (شرھ الطیبی ج ٨‘ ص ٧٧ : ٧٦‘ مطبوعہ ادارہ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤١٣ ھ)
علامہ طیبی کی اس آخری توجہیہ سے ہم متفق نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک آپ کو لکھنے کا علم تھا اور آپ نے قصداً لکھا تھا ‘ غیر ارادی طور پر آپ سے لکھنا صادر نہیں ہوا۔ جو شخص آپ کے امی ہونے کی وجہ سے آپ کے لکھنے اور پڑھنے کا انکار کرتا ہے ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم ہیں یا نہیں۔ اگر وہ آپ کو عالم نہیں مانتا تو وہ مسلمان نہیں ہے اور اگر وہ آپ کو عالم مانتا ہے تو جس طرح لکھنا پڑھنا امی کے منافی ہے ‘ اسی طرح عالم ہونا بھی امی کے منافی ہیں۔ خصوصا وہ جو تمام مخلوقات سے بڑے عالم ہوں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احکام شرعیہ کے الم ہیں اور اسرار الہیہ کے عارف ہیں ایک امی کی یہ صفت کیسے ہوسکتی ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے امی ہونے کے باوجود آپ کو ان علوم سے نوازا ‘ اسی طرح آپ کو لکھنے اور پڑھنے کے علم سے بھی نوازا !
علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی ٢٧٦ ھ ‘ علامہ ابی مالکی متوفی ٨٢٨ اور علامہ سنوسی متوفی ٨٩٥ ھ ‘ ان سب نے قاضی عیاض کی عبارت نقل کی ہے اور ان لوگوں کا رد کیا ہے۔ جنہوں نے علامہ باجی مالکی متوفی ٨٩٤ ھ پر تشنیع کی ہے۔
(صحیح مسلم مع شرح النوادی ج ٨‘ ص ٤٩٦٦‘ اکمال المعلم ج ٦‘ ص ٤٢٢۔ ٤٢١‘ معلم اکمال الاکمال ‘ ج ٦‘ ص ٤٢١) علامہ بدالدین محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں :
میں یہ کہتا ہوں کہ یہ منقول ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے لکھا۔ (عمدہ القاری ج ٢‘ ص ٣٠‘ مطبوعہ مصر)
نیز لکھتے ہیں :
اور یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٢‘ ص ١٧١‘ مطبوعہ مصر)
صحیح بخاری میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محمد بن عبداللہ لکھا ‘ اس پر یہ سوال ہوا کہ آپ تو امی تھے آپ نے اپنا نام کیسے لکھا ؟؎
علامہ عینی نے اس کے تین جواب دیے ہیں :
پہلا جواب یہ ہے کہ امی وہ شخص ہے جو مہارت سے نہ لکھتا ہو نہ کہ وہ جو مطلقاً نہ لکھتا ہو ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس میں اسناد مجازی ہے ‘ اور تیسرا جواب یہ ہے کہ آپ کا لکھنا آپ کا معجزہ تھا۔ (عمدۃ القاری ‘ ج ١٨‘ ص ١١٣‘ مطبوعہ مصر)
علامہ عینی کا دوسرا جواب صحیح نہیں ہے اور ان کی پہلی تصریحات کے بھی غلاف ہے۔ انہوں نے یہ جواب علامہ باجی کے مخالفین سے نقل کیا ہے ‘ صحیح جواب دہ ہے جس کو انہوں نے آخر میں ذکر کیا ہے۔
حافظ شہاب الدین احمد بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ء نے اس مسئلہ پر بہت تفصیل سے لکھا ہے ‘ ہم یہ پوری عبارت پیش کر رہے ہیں ہرچند کہ اس کی بعض چیزیں علامہ طیبی کی عبارت میں آچکی ہیں :
علامہ ابوالولید باجی مالکی نے صیحح بخاری کی اس حدیث سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے پر استدلال کیا ہے ‘ جس میں ہے ” پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھا “ یہ محمد بن عبداللہ کا فیصلہ ہے ‘ حالانکہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے۔ ان کے زمانہ کے علماء اندلس نے ان پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ قول قرآن مجید کے خلاف ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید میں ہے : ” وما کنت تتلوا من قبلہ من کتب ولا تخطہ بیمینک “ آپ نزول قرآن سے پہلے نہ تو کتاب سے پڑھتے تھے نہ لکھتے تھے۔ علامہ باجی نے اس کے جواب میں کہا کہ قرآن مجید میں نزول قرآن میں نزول قرآن سے پہلے آپ کے پڑھنے اور لکھنے کی نفی ہے ‘ اور جب معجزات سے آپ کی نبوت ثابت ہوگئی اور آپ کی نبوت میں شک کا خطرہ نہ رہا تو پھر آپ کے پڑھنے اور لکھنے سے کوئی چیز مانع نہیں تھی ‘ اور یہ آپ کا دوسرا معجزہ ہے۔ علامہ ابن وحیہ نے کہا ہے کہ علماء کی ایک جماعت نے علامہ باجی کے موقف کی حمایت کی ‘ ان میں شیخ ابوذر ہر وی ‘ ابو الفتح نیشا پوری اور افریقہ اور دوسرے شہروں کے علماء شامل ہیں۔ بعض علماء نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے پر امام ابن ابی شیبہ کی اس روایت سے استدلال کیا ہے : مجاہد ‘ عون بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک فوت نہیں ہوئے ‘ جب تک آپنے لکھ اور پڑھ نہیں لیا ‘ مجاہد کہتے ہیں کہ نے شعبی سے اس روایت کا ذکر کیا انہوں نے کہا عون بن عبداللہ نے سچ کہا ہے ‘ میں اس روایت کا سنا ہے ‘ (حافظ ابن ھجر لکھتے ہیں) سہل بن حنظلیہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاویہ سے کہا کہ وہ اقراع اور عینہ کے لیے لکھیں۔ عینہ نے اس پر کہا تمارا کیا خیال ہے کیا میں متلمس کا صحیفہ لے کر جائوں گا ؟ (یعنی تم نے کچھ کا کچھ تو نہیں لکھ دیا ؟ ) اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صحیفہ پر نظر ڈالی اور فرمایا معاویہ نے وہی لکھا ہے جو میں نے کہا تھا یونس کہتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نزول قرآن کے بعد لکھا ہے (سہل بن حنظلیہ کی روایت مذکورہ میں آپکے پڑھنے کا ثبوت ہے۔ سعیدی غفرلہ) قاضی عیاض نے کہا ہے کہ بعض آثار سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لکھنے اور خوش خطی کی معرفت تھی ‘ کیونکہ آپ نے کاتب سے فرمایا قلم اپنے کان پر رکھو یہ تم کو یاد دلائے گا اور آپ نے حضرت معاویہ سے فرمایا دوات رکھ اور قلم ایک کنار سے رکھو ‘ باء کو لمبا کر کے لکھو ‘ سین دندانے دار لکھو اور میم کو کا نا مت کرو۔ قاضی عیاض نے کہا ہرچند کہ اس روایت سے آپ کا لکھنا ثابت نہیں ہوتا لیکن آپ کو لکھنے کا علم دیا جانا مستبعد نہیں ہے ‘ کیونکہ آپ کو ہر چیز کو علم دیا گیا ہے ‘ اور جمہور نے ان احادیث کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ احادیث ضعیف ہیں اور حدیبہ کی حدیث کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ ایک واقعہ ہے اور اس میں لکھنے والے حضرت علی تھے ‘ اور مسور کی حدیث میں یہ تصریح ہے کہ حجرت علی نے لکھا تھا اور صحیح بخاری کی حدیث میں تقدیر عبارت اس طرح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح نامہ کو لیا اور اس میں محمد رسول اللہ کو مٹا دیا پھر حضرت علی کو وہ صلحنامہ دوبارہ دے دیا ‘ پھر حضرت علی نے اس میں لکھا۔ علامہ ابن التین نے اسی پر اعتماد کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ حدیث میں جو ہے ” آپ نے لکھا “ اس معنی ہے آپ نے لکھنے کا حکم دیا ‘ اور اس کی حدیث میں بہت مثالیں ہیں ‘ جیسے ہے آپ نے قیصر کی طرف لکھا اور آپ نے کسریٰ کی طرف لکھا ‘ اور اگر اس حدیث کو اپنے ظاہر پر بھی محمول کیا جائے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا اسم مبارک لکھا تھا ‘ حالانکہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ لکھنے کے عالم ہوں اور آپ امی نہ ہوں ‘ کیونہ بہت سے لوگ مہارت سے نہیں لکھتے ‘ اس کے باوجود وہ بعض الفاظ کو پہنچانتے ہیں اور ان کو اپنی جگہ پر رکھ سکتے ہیں خصوصا اسماء کو ‘ اور اس وصف کی وجہ سے وہ امی (ان پڑھ) ہونے سے خارج نہیں ہوتے۔ جیسا اکثر بادشاہ اسی طرح ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت آپ کے ہاتھ پر لکھنے کا عمل جاری ہوگیا ہو اور آپ مہارت سے نہ لکھتے ہوں اور اس صلحنامہ کو آپ نے حسب منشا لکھ دیا ہو ‘ اور یہ اس خاص وقت میں الگ ایک معجزہ ہو ‘ اور اس سے آپ امی ہونے سے خارج نہ ہوں۔ اشاعرہ کے ائمہ اصول میں سے علامہ السمنانی نے یہی جواب دیا ہے ‘ اور علامہ ابن جوزی نے بھی ان کی اتباع کی ہے ‘ علامہ سہیلی نے اس جواب کا رد کیا ہے اور کہا ہے کہ ہرچند کہ یہ ممکن ہے اور آپ کے لکھنے سے ایک اور معجزہ ثابت ہوتا ہے ‘ لیکن یہ اس کے مخالف ہے کہ آپ امی تھے جو لکھتا نہیں ‘ اور جس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ ” اگر آپ نزول قرآن سے پہلے لکھتے ہوتے تو منکرین آپ کی نبوت کے متعلق شک میں پڑجاتے “ اس آیت نے تمام شکوک و شبہات کی جڑ کاٹ دی ہے ‘ اگر نزول وحی کے بعد کے بعد آپ کا لکھنا جائز ہوتا تو منکرین پھر شبہ میں پڑجاتے اور قرآن کے معاندین یہ کہتے کہ آپ مہارت سے لکھتے تھے لیکن اس کو چھپاتے تھے ‘ علامہ سہیلی نے اس کے جواب میں کہا یہ محال ہے کہ بعض معجزات ‘ بعض دوسرے معجزات کے مخالف ہوں ‘ اور حق یہ ہے کہ آپ کے لکھنے کا معنی یہ ہے کہ آپ نے حضرت علی ص کو لکھنے کا حکم دیا ‘ علامہ سہیلی کی بات ختم ہوئی ‘ حاٖط عسقلانی فرماتے ہیں : یہ کہ ان کہ فقط اپنا نام لکھنا ‘ آپکے امی ہونے اور معجزہ کے مخالف ہے۔ سو یہ بہت قابل اعتراض ہے۔ (فتح الباری ج ٧‘ ص ٥٠٤‘ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ‘ ١٤٠١ ھ) ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی کی اس آخری بات سے یہ معلوم ہوا کہ جس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے کا ذکر ہے اس سے آپ کا لکھنا مراد ہے اور آپ کا لکھنا مراد ہے اور آپکا لکھنا آپ کے معجزہ یا آ کے امی ہونے کے خلاف نہیں ہے۔ چناچہ جسٹس محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں : حافظ کا میلان اس طرف ہے کہ اس باب کی حدیث (یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا نام لکھنا) اپنے ظاہر پر محمول ہے ‘ اور اس خاص وقت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امی ہونے کے باوجود اپنا نام لکھنا آپ کا معجزہ ہے۔
(نکتملتہ فتح المعلم ‘ ج ٣‘ ص ١٨٠‘ مطبوعہ مکتبہ دارالعلوم کراچی ’ ١٤١٤ ھ)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس حدیث کو ظاہر پر محمول کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امی ہونے اور معجزہ کے خلاف ہے اس میں نظر کبیر ہے یعنی بہت بڑا اعتراض ہے ‘ ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ نے اس نظر کبیر کو بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں :
معجزہ قرانیہ وجوہ کثیرہ سے ثابت ہے۔ اگر اس سے قطع نظر کرلی جاتی کہ قرآنی لانے والے امی ہیں ‘ تب بھییہ معجزہ تھا ‘ اور جب اس پر یہ وصف زائدہ ہوا کہ قرآن کو لانے والے پہلے پڑھتے اور لکھتے نہ تھے تو اس سے اس کا معجزہ ہونا بہ طریق کمال ظاہر ہوا۔ اور معاندین کے اعتراضات منہدم ہوگئے ‘ اس سے ظاہر ہوگیا کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتدا ہی سے قاری اور کاتب ہوتے اور قرآن پیش کرتے ‘ تب بھی یہ آپ کا معجزہ ہوتا اور بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
(مرقات ج ٨‘ ص ٧٨‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ)
نیز ملا علی قاری دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
قاضی عیاض نے کہا ہے کہ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تلاوت کرنا آپ کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے اسی طرح آپ کا لکھنا بھی آپ کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ آپ کا صرف امی ہونا معجزہ نہیں ہے ‘ آپ نے جب پہلے لکھے ‘ پڑھے بغیر قرآن مجید کو پیش کیا تو آپ کا معجزہ تھا ‘ پھر آپ نے قرآن مجید میں ایسے علوم پیش کیے جن کو امی نہیں جانتے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ نے ایسے علوم پیش کیئے جن کو تمام علماء نہیں جانتے اور وہ ایسے علوم ہیں کہ اگر آپ بالکل امی نہ ہوتے تو پھر بھی ان علوم کو پیش کرنا آپ کا معجزہ تھا ‘ کیونکہ قرآن معجزات کثیرہ پر مشتمل ہے اور جن لوگوں نے یہ توجیہہ کی ہے کہ آپ کے لکھنے کا معنی یہ ہے کہ آپ نے لکھنے کا حکم دیا یہ بلاضرورت ظاہر معنی سے عدول کرنا ہے۔ یہاں پر قاضی عیاض کی عبارت ختم ہوئی ‘ (ملا علی قاری کہتے ہیں) اس تو جیہہ میں مجھے قاضی عیاض کے ساتھ توا رد ہوگیا ہے۔ جیسا کہ ان لوگوں پر ظاہر ہوگیا۔ جنہوں نے میری پہلی تقریر (ج ٨‘ ص ٧٨) کو پڑھا ہوگا۔ (مرقات ج ٨‘ ص ٩٢۔ ١٩‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ)
شیخ امین احسن اصلاحی امی کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
امی ‘ مدرسی و کتابی تعلیم و تعلم سے نا آشنا کو کہتے ہیں ‘ امیین کا لفظ اسماعیلی عربوں کے لیے بطور لقب استعمال ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مدرسی اور رسمی تعلیم و کتابت سے نا آشنا اپنی بدویانہ سادگی پر قائم تھے۔ اور اسی طرح بنی اسرائیل جو کہ حامل کتاب تھے ان کے مقابل کے لیے امیت ایک امتیازی علامت تھی۔ (الی قولہ) چناچہ قرآن نے اس لفظ کو عربوں کے لیے ان کو اہل کتاب سے محض ممیز کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی پہلو سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نبی امی کالقب استعمال ہوا ہے۔ (تدبر قرآن ج ٢‘ ص ٥٣‘ مطبوعہ فار ان فائونڈیشن ‘ ١٤٠٦ ھ)
یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے فرمایا ہے کہ آپ نے کسی مدرسہ میں جا کر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا ‘ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو براہ راست لکھنا پڑھنا سکھا دے اور آپ لکھیں اور پڑھیں تو وہ آپ کے امی ہونے کے خلاف نہیں ہے ‘ یا بنو اسرائیل سے امتیاز کے لیے آپ کو امی فرمایا سو یہ بھی آپ کے لکھنے پڑھنے کے خلاف نہیں ہے ‘ جیسا کہ قرآن مجید نے تمام اہل مکہ کو امین فرمایا حالانکہ ان میں لکھنے پڑھنے والے بھی تھے ‘ کا تیبین وحی تھے اور بدر کے بعض قیدیوں کے پاس فدیہ کے لیے رقم نہیں تھی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا فدیہ یہ مقرر فرمایا کہ وہ انصاری کی اولاد کو پڑھنا لکھنا سکھائیں۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٢٢١٦‘ المستد رک ج ٢‘ ص ١٤٠ )
تورات اور انجیل میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارتوں کے متعلق احادیث
نیز اس آیت میں ارشاد ہے جس کو وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چوتھا اور پانچواں وصف مذکور ہے، تورات میں آپ کا لکھا ہوا ہونا چوتھا وصف ہے اور انجیل میں آپ کا لکھا ہوا ہونا پانچواں وصف ہے۔ احادیث صحیحہ معتبرہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان صفات کا ذکر ہے جو تورات اور انجیل میں ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں :
عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میری حضرت عمرو بن العاص (رض) سے ملاقات ہوئی، میں نے کہا مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس صفت کے متعلق بتائیے جو تورات میں ہے۔ انہوں نے کہا اچھا ! اللہ کی قسم تورات میں آپ کی ان بعض صفات کا ذکر ہے جو قرآن مجید میں مذکور ہیں، وہ یہ ہیں : اے نبی ! ہم نے آپ کو بھیجا در آنحالیکہ آپ شاہد اور مبشر اور نذیر ہیں، اور امیین کی پناہ ہیں، آپ میرے بندے اور رسول ہیں، میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے، آپ سخت مزاج اور درشت خو نہیں ہیں، اور نہ بازار میں شور کرنے والے ہیں اور نہ برائی کا جواب برائی سے دیتے ہیں، لیکن معاف کرتے ہیں اور بخش دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک آپ کی روح ہرگز قبض نہیں کرے گا حتی کہ آپ کے سبب سے ٹیڑھی قوم کو سیدھا کردے گا، بایں طور کہ وہ کہیں گے لا الہ الا اللہ اور آپ کے سبب سے اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو کھول دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2125، مسند احمد ج 2، ص 174، طبع قدیم، رقم الحدیث : 6622، طبع جدید، الادب المفرد رقم الحدیث : 247، 246، دلائل النبوۃ ج 1، ص 374 ۔ سنن دارمی رقم الحدیث : 5، 6 ۔ مجمع الزوائد، ج 8، ص 271 ۔ جامع الاصول ج 11، رقم الحدیث : 8837، المعجم الکبیر رقم الحدیث : 10046)
حضرت عبد اللہ بن سلام (رض) بیان کرتے ہیں کہ تورات میں (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت لکھی ہوئی ہے، اور حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) آپ کے ساتھ مدفون ہوں گے اور حجرہ میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ (جامع الاصول ج 11، رقم الھدیث : 8838)
وہب بن منبہ نے حضرت داود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قصہ میں ذکر کیا ہے کہ زبور میں داود (علیہ السلام) پر یہ وحی کی گئی تھی۔ اے داود ! عنقریب تمہارے بعد ایک نبی آئے گا جس کا نام احمد اور محمد ہوگا، وہ صادق اور سید ہوگا، میں اس پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا اور نہ وہ مجھ پر کبھی ناراض ہوگا، میں نے اس کے تمام اگلے اور پچھلے ذنب (بظاہر خلاف اولی سب کام) ان کے ارتکاب سے پہلے ہی معاف کردیے ہیں، ان کی امت پر رحم کیا گیا ہے، میں نے انبیاء کو جیسے نوافل عطا کیے ہیں ان کو بھی اسی طرح کے نوافل عطا کیے ہیں، اور میں نے نبیوں اور رسولوں پر جس طرح کے فرائض فرض کیے ہیں، ان پر بھی ویسے فرائض فرض کیے ہیں۔ حتی کہ
جب قیامت کے دن وہ میرے پاس آئیں گے تو ان کا نور نبیوں کے نور کی طرح ہوگا، کیونکہ میں نے ان پر فرض کیا ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو کریں جیسا کہ میں نے اس سے پہلے نبیوں پر وضو فرض کیا تھا، اور میں نے ان پر غسل جنابت فرض کیا ہے جس طرح نبیوں پر غسل جنابت فرض کیا تھا، اور میں نے ان کو حج کا حکم دیا ہے جیسا کہ اس سے پہلے نبیوں کو حج کا حکم دیا تھا، اور میں نے ان کو جہاد کا حکم دیا ہے، جیسا کہ اس سے پہلے نبیوں کو جہاد کا حکم دیا تھا، اے داود میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت کو تمام امتوں پر فضیلت دی ہے، میں نے ان کو چھ ایسی فضیلتیں عطا کی ہیں جو کسی اور امت کو عطا نہیں کیں، میں خطا اور نسیان پر ان کی گرفت نہیں کرتا، اور وہ نادانشتہ طور پر جو گناہ کر بیٹھیں، پھر مجھ سے معافی طلب کریں تو میں ان کو معاف کردیتا ہوں اور وہ آخرت کے لیے جو نیکی کریں میں اس کو دگنا چوگنا کردیتا ہوں، اور ان کی نیکیوں کا میرے پاس اس سے بھی افضل ذخیرہ ہے۔ اور جب وہ مصائب پر صبر کرکے کہیں گے انا للہ وانا الیہ راجعون تو میں ان کو صلوۃ، رحمت اور جنات النعیم کی طرف ہدایت عطا کروں گا، اور جب وہ مجھ سے دعا کریں گے تو یا تو میں اس کو فوراً قبول فرماؤں گا، یا اس کے عوض ان سے کوئی برائی دور کردوں گا اور یا ان کے لیے آخرت میں اجر کو ذخیرہ کروں گا۔ اے داوؤد ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت سے جو شخص یہ شہادت دے گا کہ میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور میں واحد ہوں اور میرا کوئی شریک نہیں ہے اور وہ اس شہادت میں صادق ہوگا، تو وہ میری جنت میں اور میری کرامت میں میرے ساتھ ہوگا، اور جس نے مجھ سے اس حال میں ملاقات کی کہ اس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی ہو اور ان کے پیغام کی تکذیب کی ہو اور میری کتاب کا مذاق اڑایا ہو تو میں اس کی قبر میں اس پر عذاب انڈیل دوں گا، اور جب وہ قبر سے اٹھے گا تو فرشتے اس کے چہرے اور اس کی دبر پر ضرب لگائیں گے۔ پھر میں اس کو دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں ڈال دوں گا۔ (دلائل انبوۃ ج 1، ص 380 ۔ 381 ۔ البدایہ والنہایہ ج 6، ص 62 ۔ تہذیب تاریخ دمشق ج 1، ص 344 ۔ 345)
مقاتل بن حیان روایت کرتے ہیں کہ اللہ عز وجل نے حضرت عیسیٰ کی طرف وحی کی کہ تم نبی امی عربی کی تصدیق کرنا جو اونٹ کی سواری کریں گے، زرہ پہنیں گے، عمامہ پہنیں گے جو کہ تاج ہے، اور نعلین پہنچیں گے اور ان کے پاس لاٹھی ہوگی، ان کے سر کے بال گھنگریالے ہوں گے، کشادہ پیشانی ہوگی، خوبصورت بھویں ہوں گی، بڑی بڑی آنکھیں ہوں گی، بڑا دہانہ ہوگا، اور گہری سیاہ آنکھیں ہوں گی، کھڑی ناک ہوگی، فراخ پیشانی، گھنی ڈاڑھی ہوگی، چہرے پر پسینہ موتیوں کی طرح ہوگا، ان سے مشک کی خوشبو آئے گی۔ ان کی گردن میں چاندی اور گلے میں سوچا چھلک رہا ہوگا، ان کے گلے کے نیچے سے ناف تک بال ہوں گے۔ ان کی ہتھیلیاں اور قدم پر گوشت ہوں گے، جب وہ لوگوں کے درمیان ہوں گے تو ان پر چھا جائیں گے اور جب وہ چلیں گے تو لگے گا جیسے بلندی سے ڈھلوان کی طرف آ رہے ہوں اور ان کی اولاد کم ہوگی۔ (دلائل النبوۃ ج 1، ص 378، تہذیب تاریخ دمشق ج 1، ص 345)
موجودہ تورات کے متن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بشارتیں
موجودہ تورات میں بھی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے متعلق بشارتیں موجود ہیں :
خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا۔ یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہوگا جو تو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن جواب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوندا اپنے خدا کی اواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہو تاکہ میں مر نہ جاؤن۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا، اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ (تورات استثناء، باب 18، آیت 15 ۔ 19، پرانا عہد نامہ ص 184، مطبوعہ بائبل سوسائٹی لاہور)
اور مرد خدا موسیٰ نے جو دعائے خیر دے کر اپنی وفات سے پہلے بنی اسرائیل کو برکت دی وہ یہ ہے۔ اور اس نے کہا : خداوند سینا سے آیا۔ اور شعیر سے ان پر آشکار ہوا۔ اور کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور لاکھوں قدسیوں میں سے آیا۔ اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتشی شریعت تھی۔ وہ بیشک قوموں سے محبت رکھتا ہے۔ اس کے سب مقدس لوگ تیرے ہاتھ میں ہیں۔ ایک ایک تیری باتوں سے مستفیض ہوگا۔ (تورات استثناء، باب 33، آیت 2 ۔ 3، پرانا عہد نامہ ص 201، مطبوعہ بائبل سوسائٹی، لاہور، 1992 ء)
تورات کے پرانے (1927 ء کے) اردو ایڈیشن میں یہ آیت اس طرح تھی، دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں دس ہزار صحابہ کے ساتھ داخل ہوئے تھے، اس طرح یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پوری طرح منطبق ہوتی تھی، جب عیسائیوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے اس آیت کے الفاظ بدل دیے اور یوں لکھ دیا : اور لاکھوں قدسیوں میں سے آیا۔ تورات کے پرانے (1927 ء کے) ایڈیشن میں یہ آیات اس طرح تھیں : ” اور اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیات اور شعییر سے ان پر طلوع ہوا فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشیں شریعت ان کے لیے تھی ” (کتاب مقدس، استثناء باب 33، آیت 2، ص 192، مطبوعہ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی، انار کلی لاہور، 1927 ء)
اس کی تائید عربی ایڈیشن سے بھی ہوتی ہے، اس میں یہ آیت اس طرح لکھی ہے : ” واتی من ربوات اقدس : دس ہزار قدسیوں میں سے آیا ” (مطبوعہ دار الکتاب المقدس فی العالم العربی، ص 334، 1980 ء)
لوئیس معلوم نے ربوۃ کے معنی لکھے ہیں : الجماعۃ العظیمۃ نحو عشرۃ آلاف۔ (المنجد ص 247) یعنی تقریبا دس ہزار افراد کی جماعت۔
دیکھو ! میرا خادم (پچھلے ایڈیشنوں میں ” بندہ ” تھا۔ سعیدی غفر لہ) جس کو میں سنبھالتا ہوں، میرا برگزیدہ جس سے میرا دل خوش ہے۔ میں نے اپنی روح اس پر ڈالی، وہ قوموں میں عدالت جاری کرے گا۔ وہ نہ چلائے گا نہ شور کرے گا، اور نہ بازاروں میں اس کی آواز سنائی دے گی۔ وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بجھائے گا۔ وہ راستی سے عدالت کرے گا۔ وہ ماندہ نہ ہوگا اور ہمت نہ ہارے گا جب تک کہ عدالت کو زمین پر قائم نہ کرے۔ جزیرے اس کی شریعت کا انتظار کریں گے۔ جس نے آسمان کو پیدا کیا اور تان دیا جس نے زمین کو اور ان کو جو اس میں سے نکلتے ہیں پھیلایا۔ جو اس کے باشندوں کو سانس اور اس پر چلنے والوں کو روح عنایت کرتا ہے یعنی خداوند یوں فرماتا ہے میں خداوند نے تجھے صداقت سے بلایا میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا۔ اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لیے تجھے دوں گا۔ تو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور اسیروں کو قید سے نکالے اور ان کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں قید خانہ سے چھڑائے۔ یہوداہ میں ہوں یہی میرا نام ہے، میں اپنا جلال کسی دوسرے کے لیے اور اپنی حمد کھودی ہوئی مورتیوں کے لیے روانہ رکھوں گا۔ دیکھو پرانی باتیں پوری ہوگئیں اور نئی باتیں بتاتا ہو، اس سے پیشتر کہ واقع ہوں میں تم سے بیان کرتا ہوں ” (تورات، یسعیاہ، باب 42، آیت 109، مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور ص 694، 1980)
اس اقتباس کی آیت نمبر 2 میں ہے : وہ نہ چلائے گا اور نہ شور کرے گا اور نہ بازاروں میں اس کی آواز سنائی دے گی۔ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پیش گوئی ہے : حضرت عمرو بن العاص کی یہ روایت گزر چکی ہے کہ تورات میں آپ کی یہ صفت لکھی ہوئی : اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2125)
اس باب کی آیت نمبر 6 میں ہے : میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا۔
اس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتی ہے : ” واللہ یعصمک من الناس : اور اللہ آپ کی لوگوں سے حفاظت کرے گا ” (المائدہ : 67) ۔ عیسائی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ پیش گوئی حضرت عیسیٰ کے متعلق ہے کیونکہ انجیل میں لکھا ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کو پھانسی دے دی اور حضرت عیسیٰ نے چلا کر کہا اے میرے خدا ! اے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا، ملاحظہ ہو : ” اور انہوں نے اسے مصلوب کیا اور اس کے کپڑے قرعہ ڈال کر بانٹ لیے۔ (الی قولہ) اور تیسرے پہر کے قریب یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر کہا ایلی ایلی لما شقبتنی ؟ یعنی اے میرے خدا ! اے میرے خد ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ؟ ” (متی کی انجیل باب، 27، آیت 35، 46، مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور، ص 33، 1992 ء)
نیز اس باب کی آیت 7 میں ہے کہ تو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور اسیروں کو قید سے نکالے اور ان کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں قید خانہ سے چھڑائے۔
اس آیت میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پیش گوئی ہے اور اس کی تصدیق ان آیتوں میں ہے : ” قد جاء کم من اللہ نور و کتاب مبین۔ یہدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام و یخرجہم من الظلمات الی النور باذنہ و یہدیہم الی صراط مستقیم : بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آگیا اور کتاب مبین۔ اللہ اس کے ذریعہ ان لوگوں کو سلامتی کے راستوں پر لاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہیں اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نور کی طرف لاتا ہے اور ان کو سیدھے راستے کی طرف لاتا ہے ” (المائدہ : 15 ۔ 16)
اور حضرت عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ تورات میں آپ کی یہ صفت ہے : اور اللہ اس وقت تک آپ کی روح ہرگز قبض نہیں کرے گا حتی کہ آپ کے سبب سے ٹیڑھی قوم کو سیدھا کردے گا۔ بایں طور کہ وہ کہیں گے لا الہ الا اللہ اور آپ کے سبب سے اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو کھول دے گا۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 2125)
موجودہ انجیل کے متن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بشارتیں
یسوع نے ان سے کہا کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے ؟ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔ (متی کی انی، باب 21، آیت 42 ۔ 43، مطبوعہ بائبل سوسائٹی لاہور، ص 25، 1992 ء) ۔
یہ آیت بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت ہے اور قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق ہے : ” اولئک الذین اتینہم الکتب والحکم النبوۃ فان یکفر بہا ھؤلاء فقد وکلنا بہا قوما لیسوا بہا بکافرین : یہ وہی لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکم شریعت اور نبوت عطا کی ہے۔ پس اگر ان چیزوں کے ساتھ یہ لوگ کفر کریں تو بیشک ہم نے ان چیزوں پر ایسی قوم کو مقرر فرما دیا ہے جو ان سے انکار کرنے والے نہیں ہیں ” (الانعام :89) ۔
” میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ ان سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں۔ اور جو کچھ تم میرے نام سے چاہو گے میں وہی کروں گا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔ اگر میرے نام سے کچھ چاہوگے تو میں وہی کروں گا۔ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کروگے۔ اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے ” (یوحنا کی انجیل باب 4، آیت 12 ۔ 16 ۔ پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور ص 99، 1992 ء)
” لیکن جب وہ مددگار آئے گا جن کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی روح حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا ” (یوحنا کی انجیل، باب 14، آیت 26، پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور، ص 100، 1992 ء)
” لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راست بازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا۔ گناہ کے بارے میں اس لیے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے۔ راست بازی کے بارے میں اس لیے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھوگے۔ عدالت کے بارے میں اس لیے کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ مجھے تم سے اور بھی بہت سے باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی روح حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا، اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا ” (یوحنا کی انجیل، باب 16، آیت 7 ۔ 14، پاکستان بائبل سوسائٹی، لاہور، ص 101، 1992 ء)
ان آیات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی بشارتیں دی ہیں، قرآن مجید میں ہے : ” واذ قال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم مصدقا لما بین یدی من التوراۃ و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد : اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل ! بیشک میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں در آنحالیکہ میں اس تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے ایک عظیم رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئیں گے ان کا نام احمد ہے ” (الصف :6)
اس بشارت کی مزید تصدیق انجیل کی اس آیت میں ہے : ” اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ سے اس کا کچھ نہیں ” (یوحنا کی انجیل، باب 14، آیت 30، پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور، ص 99، 1992 ء)
نیز ان آیات میں ہے وہ میری گواہی دے گا۔ (یوحنا : باب 14، آیت 26)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں لوگوں کی بہ نسبت ابن مریم کے زیادہ قریب ہوں، تمام انبیاء علاتی (باپ شریک) بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح مسلم فضائل، 143، (2365) 60 ۔ سنن ابو داود، رقم الحدیث : 4675)
ان آیات میں ہے : وہ تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا۔ (یوحنا، باب 16 آیت 13)
اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرماتا ہے : ” انک لتھدی الی صراط مستقیم : بیشک آپ ضرور سیدھے راستے کی ہدایت دیتے ہیں ” (الشوری :52)
نیز اس آیت میں ہے : وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا (یوحنا، باب 16، آیت 13) ۔ اور قرآن مجید میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ہے : ” وما ینطق عن الھوی۔ ان ھو الا وحی یوحی : اور وہ اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے۔ ان کا فرمانا وہی ہوتا ہے جس کی ان کی طرف وحی کی جاتی ہے ” (النجم :3 ۔ 4)
نیز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وہ تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔ (یوحنا، باب 16، آیت 13) ۔ یہ پیش گوئی بھی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ہے اور اس کی تائید اس حدیث میں ہے : حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس ایک مقام پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے قیامت تک ہونے والے تمام امور بیان کردیے۔ جس نے ان کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا جس نے ان کو بھلا دیا اس نے بھلا دیا۔ (صحیح مسلم الفتن 22، 2891، 7130 ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث : 6604 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 4240) ۔
حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان تشریف فرما ہوئے اور آپ نے مخلوق کی ابتداء سے خبریں دینی شروع کیں، حتی کہ اہل جنت اپنے گھروں میں داخل ہوگئے اور اہل نار اپنے گھروں میں داخل ہوگئے، جس نے اس کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جس نے اس کو بھلا دیا اس نے بھلا دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3192)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیات
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو ان کو نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چھٹا وصف ہے، نیکی کا حکم دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لائیں اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کریں، اور برائی سے روکنے سے مراد یہ ہے کہ وہ شرک نہ کریں، رشوت اور تھوڑے معاوضہ کے بدلہ میں تورات کی آیتوں کا سودا نہ کریں، سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور بشارت سے متعلق آیتوں کو لوگوں سے نہ چھپائیں، اللہ تعالیٰ کے صریح احکام کے مقابلہ میں اپنے علماء اور راہبوں کے اقوال کو ترجیح نہ دیں، اور ہر قسم کے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کو ترک کردیں۔
نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا کام دوسرے نبیوں اور رسولوں نے بھی کیا ہے، یہاں آپ کے اس وصف کو اللہ ت عالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، کیونکہ آپ نہایت حکمت اور عمدہ پیرائے کے ساتھ نیکی کا حکم دیتے تھے، قرآن مجید میں ہے : ” ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتیھی احسن : حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اپنے رب کے راستہ کی طرف بلائیے اور ان پر احسن طریقہ سے حجت قائم کیجیے ” (النحل :125)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اچانک ایک اعرابی آیا اور کھڑا ہو کر مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اس کو ڈانٹنے لگے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس کا پیشاب منقطع نہ کرو، اس کو چھوڑ دو ، پس انہوں نے اس کو چھوڑ دیا، حتی کہ اس نے پیشاب کرلیا، (امام بخاری کی روایت میں ہے : آپ نے فرمایا اس کے پیشاب کے اوپر ایک ڈول پانی بہا دو ، تم آسانی کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، مشکل میں ڈالنے کے لیے نہیں بھیجے گئے (رقم الحدیث : 220) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اعرابی کو بلایا اور فرمایا یہ مساجد پیشاب یا کسی اور گندگی ڈالنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں، یہ تو صرف اللہ عز وجل کے ذکر، نماز اور قرآن پڑھنے کے لیے ہیں، یا جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر آپ نے ایک شخص کو ایک ڈول پانی لانے کا حکم دیا اور اس پر بہا دیا۔ (صحیح مسلم الطہارۃ 100 (2850) 648 ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث : 6025 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 53 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 528)
حضرت معاویہ بن الحکم سلمی (رض) بیان کرتے ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا، نمازیوں میں سے کسی شخص کو چھینک آئی۔ میں نے کہا یرحمک اللہ، تو نمازی مجھے گھور کر دیکھنے لگے، میں نے کہا اس کی ماں روئے تم مجھے کیوں گھور رہے ہو ؟ اور وہ اپنی رانوں پر اپنے ہاتھ مارنے لگے، تب میں نے جان لیا کہ وہ مجھے چپ کرانا چاہتے ہیں، سو میں چپ ہوگیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھ لی، آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوجائیں، آپ نے مجھے مارا نہ ڈانٹا نہ برا کہا۔ آپ نے فرمایا اس نماز میں لوگوں کے ساتھ باتیں کرنا جائز نہیں ہے۔ نماز میں تو صرف تسبیح، تکبیر اور قرآن کی قراءت ہوتی ہے۔ امام ابوداود کی دوسری روایت میں ہے : انہوں نے کہا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح نرمی کرنے والا کوئی معلم نہیں دیکھا۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 930 ۔ 931 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 1217 ۔ سنن دارمی رقم الحدیث : 1502 ۔ مسند احمد ج 5، ص 448)
نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ بھی خصوصیت تھی کہ آپ کسی کام سے منع فرماتے تو اس کی حکمت بھی بیان فرما دیتے۔ مثلاً یہ حدیث ہے : ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو لعنت کرے۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! کوئی شخص اپنے ماں باپ پر کیسے لعنت کرے گا ؟ آپ نے فرمایا ایک شخص کسی کے باپ کو گالی دے گا تو وہ (جواب میں) اس کے باپ اور ماں کو گالی دے گا ” (صحیح البکاری رقم الحدیث : 5973 ۔ صحیح مسلم الایمان 146 (90) 257 ۔ سنن ابوداود رقم الحدیث : 5141 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 1902 ۔ مسند احمد ج 2، ص 216، 214، 195، 164) ۔
آپ کا منشاء یہ تھا کہ کوئی شخص کسی کے ماں باپ کو گالی نہ دے، لیکن آپ نے اس کو ایسے موثر انداز میں فرمایا کہ جب تم کسی کے ماں باپ کو گالی دوگے تو وہ تمہارے ماں باپ کو گالی دے گا اور اس طرح تم اپنے ماں باپ کو گالی دینے کا سبب بنوگے۔ چناچہ فرمایا تم اپنے ماں باپ کو گالی نہ دو ۔
نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تیسری خصوصیت یہ تھی کہ آپ جس چیز کا حکم دیتے تھے خود اس پر زیادہ عمل کرتے تھے۔ آپ نے ہمیں پانچ فرض نمازیں پڑھنے کا حکم دیا اور خود بشمول تہجد چھ فرض پڑھتے تھے۔ آپ نے ہمیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک روزہ رکھنے کا حکم دیا اور خود وصال کے روزے رکھے جس میں بغیر افطار اور سحر کے روزے پر روزہ ہوتا ہے۔ اور یہ کئی کئی دن کے روزے ہوتے تھے۔ ہمیں مال کا چالیسواں حصہ زکوۃ دینے کا حکم فرمایا اور خود اپنے پاس مطلقاً مال نہیں رکھتے تھے، ہمارے ترکہ میں وراثت جاری کی اور اپنا تمام ترکہ صدقہ قرار دیا، ہمیں چار بیویوں میں عدل کرنے کا حکم دیا اور خود نو ازواج میں عدل کرکے دکھایا۔
اور آپ کی چوتھی خصوصیت آپ کی اثر آفرینی تھی، آپ نے انبیاء سابقین کے مقابلہ میں تبلیغ کا سب سے کم وقت پایا اور سب سے زیادہ اپنے پیروکار چھوڑے۔ آپ نے خود فرمایا اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہیں ان میں سے اسی (80) اس امت کی صفیں ہوں گی اور باقی چالیس صفیں دوسرے انبیاء کی ہوں گی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2555) ۔ انبیاء سابقین کی تبلیغ سے انسان بھی بمشکل مسلمان ہوتے تھے، آپ کی تبلیغ سے انسان مسلمان ہوئے، جنات مسلمان ہوئے، گوہ اور ہرنی نے کلمہ پڑھا، شجر و حجر سلام عرض کرتے تھے۔ حتی کہ آپ کا ہمزاد بھی مسلمان ہوگیا !
لاکھ ستارے ہر طرف ظلمت شب جہاں جہاں
ایک طلوع آفتاب دشت و جبل سحر سحر
آج دنیا میں کسی نبی کے پیرو کار اپنے نبی کی صحیح تعلیم پر قائم نہیں ہیں صرف آپ کی امت ہے جو آپ کی تعلیم پر قائم ہے اور انشاء اللہ قیامت تک قائم رہے گی !
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صفت بیان کی کہ ” جو ان کے لیے پاک چیزوں کو حلال کرے گا اور ناپاک چیزوں کو حرام کرے گا ” یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتواں وصف ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جن پاک چیزوں کو انہوں نے اپنی خواہش سے حرام کرلیا ہے ان کو یہ نبی حلال کرے گا اور جن ناپاک چیزوں کو انہوں نے اپنی مرضی سے حلال کرلیا ہے ان کو یہ نبی حرام کرے گا، یا اس کا یہ معنی ہے کہ جو پاک چیزیں بنی اسرائیل پر بطور سزا حرام کردی گئی تھیں ان کو یہ نبی حلال کردے گا مثلاً حلال جانوروں کی چربی، اور ناپاک اور گندی چیزوں کو حرام کردے گا۔ مثلاً خون، مردار جانور اور شراب وگیرہ۔ جو چیزیں حرام ذریعہ آمدنی سے حاصل ہوں ان کو بھی حرام کردے گا۔ مثلاً سود، رشوت اور جوا وغیرہ۔
اس آیت سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حلال اور حرام کرنے کا منصب عطا فرمایا ہے اور آپ کو یہ منصب عطا کیا ہے کہ آپ پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کردیں۔
حضرت مقدام بن معدی کرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو ! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کی ایک مثل دی گئی ہے، سنو ! عنقریب ایک شخص اپنے تخت پر سیر ہو کر بیٹھا ہوگا وہ یہ کہے گا کہ اس قرآن کو لازم رکھو، اس میں جو تم حلال پاؤ اس کو حلال قرار دو ، اور اس میں جو حرام پاؤ اس کو حرام قرار دو ، اور بیشک جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا وہ ایسا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا، سنو ! تمہارے لیے پالتو گدھا حلال نہیں ہے، اور نہ ہر کچلیوں سے شکار کرنے والا درندہ اور نہ راستہ میں پڑی ہوئی ذمی کی چیز سوا اس کے کہ اس کا مالک اس سے مستغنی ہو۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 4604 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2674 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 22 ۔ سنن دارمی رقم الھدیث : 582 ۔ مسند احمد ج 4، ص 132 ۔ المستدرک ج 1، ص 109 ۔ المشکوۃ رقم الحدیث : 164)
الطیبات اور الخبائث کی تفسیر میں مذاہب اربعہ
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی 606 ھ لکھتے ہیں :
اس آیت میں الطیبات سے یہ مراد لینا واجب ہے کہ جو چیزیں طبیعت کے نزدیک پاکیزہ اور لذیذ ہیں وہ حلال ہیں اور نفع بخش چیزوں میں اصل حلت ہے، لہذا یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ چیز جو نفس کے نزدیک پاکیزہ اور لذیذ ہے وہ حلال ہے، سوا اس کے کہ کسی اور شرعی دلیل سے وہ حرام ہو، اسی طرح الخبائث سے مراد وہ چیز ہے جو نفس اور طبیعت کے نزدیک گھناؤنی ہو اور اس کا استعمال صحت کے لیے مضر ہو وہ حرام ہے کیونکہ ضرر رساں چیزوں میں اصل حرمت ہے سو ایسی ہر چیز حرام ہے سوا اس کے کسی اور شرعی دلیل سے وہ حلال ہو، اسی قاعدہ کی بناء پر امام شافعی (رح) نے کہا کتے کی بیع حرام ہے، کیونکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کتا خبیث ہے اور اس کی ثمن (قیمت) خبیث ہے اور جب وہ خبیث ہے تو پھر حرام ہے، کیونکہ اس آیت میں ہے وہ تم پر خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں نیز خمر (انگور کے کچے شیرہ سے بنی ہوئی شراب) حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو رجس (نجس) فرمایا ہے۔ (المائدہ : 90) اور نجس چیز خبیث ہے اور خبیث چیز حرام ہے پس خمر حرام ہے۔ (تفسیر کبیر ج 5، ص 382، 381، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1415 ھ)
قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی شافعی متوفی 686 ھ لکھتے ہیں : ” ان پاک چیزوں کو حلال کرتے ہیں جو ان پر حرام تھیں جیسے چربی (یا اونٹ) اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام کرتے ہیں جیسے خون، خنزیر کا گوشت اور سود اور رشوت ” (تفسیر البیضاوی مع الکازرونی ج 3، ص 64، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1416 ھ)
علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں : ” امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ پاک چیزیں حلال ہیں اور خبیث چیزیں حرام ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا خبائث خنزیر کا گوشت اور سود وغیرہ ہیں۔ اسی بنا پر امام مالک نے گھناؤنی چیزوں کو حلال قرار دیا ہے مثلاً سانپ بچھو اور گبریلا وغیرہ، اور امام شافعی کے نزدیک طبیات سے مراد لذیذ چیزیں ہیں لیکن یہ اپنے عموم پر نہیں ہے ورنہ شراب اور خنزیر بھی حلال ہو، بلکہ یہ ان کے ساتھ خاص ہے جن کو شریعت نے حلال قرار دیا، اور ان کے نزدیک خبیث کا لفظ محرمات شرعیہ میں عام ہے۔ اور ان کے نزدیک گھناؤنی چیزیں بھی خبیث ہیں، اس لیے وہ بچھو، گبریلے اور گرگٹ کو حرام کہتے ہیں ” (الجامع لاحکام القرآن جز 7، ص 269، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1415 ھ)
(ہم معذرت خواہ ہیں آیت کی بقیہ تفسیر یونی کوڈ میں پیش نہیں کرسکے)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 157
[…] ٤٣٣ میں اس کی زیادہ تفصیل اور تحقیق کی ہے اسی طرح ہم نے الاعراف : ١٥٧کی تفسیر میں بھی اس کی بہت زیادہ تحقیق کی ہے ‘ دیکھئے […]