6- باب إطعام الطعام من الإسلام

کھانا کھلانا بھی خصال اسلام میں سے ہے

 

۱۲- حدثنا عمرو بن خالد قال حدثنا الليث عن يزيد، عن أبي الخير، عن عبد الله بن عمرو رضی

الله عنهما أن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم أی الإسلام خير؟ قال تطعم الطعام وتقراً

السّلام على من عرفت ومن لم تعرف . (اطراف الحديث : ۲۸-6236]

 

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن خالد نے کہا: ہمیں لیث نے حدیث بیان کی از یزید از ابی الخیر از عبد الله بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اسلام کی کون سی خصلت سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: تم کھانا کھلاؤ اور سلام کرؤ جن کو تم پہچانتے ہو اور جن کو تم نہیں پہچانتے۔

( صحیح مسلم : 39 سنن ابوداؤد : ۵۱۹۴ سنن ترمذی : ۲۵۰۴ سنن نسائی : 5014سنن ابن ماجه : ۳۲۵۳)

حدیث مذکور کے رجال کا تعارف

(۱) ابوالحسن عمرو بن خالد بن فروخ الحرانی، ان کی مصر میں سکونت تھی، انہوں نے لیث بن سعد اور عبید اللہ بن عمر وغیرہ سے احادیث کا سماع کیا ہے اور ان سے حسن بن محمد الصباح ابوزرعہ اور ابوحاتم نے سماع کیا ہے انہوں نے ان کو بہت سچا کہا احمد بن عبداللہ نے کہا: یہ ثبت ثقہ مصری ہیں ان سے صرف امام بخاری نے روایت کی ہے اور باقی اصحاب خمسہ نے ان سے روایت نہیں کی یہ 229ھ میں مصر میں فوت ہو گئے تھے

(۲) لیث بن سعد مصری ان کی کنیت ابوالحارث ہے یہ مشہور امام ہیں ان کی جلالت اور امامت پر اتفاق ہے،یہ مصر سے چار فرسخ دور ایک بستی میں پیدا ہوۓ انہوں نے ایک جماعت کثیرہ سے احادیث روایت کی ہیں امام ابوحنیفہ سے بھی احادیث روایت کی ہیں اور ہمارے اصحاب نے ان کا اصحاب ابوحنیفہ میں شمار کیا ہے ۔ قاضی شمس الدین ابن خلکان نے بھی اسی طرح کہا ہے اور ان سے بہت سے لوگوں نے احادیث روایت کی ہیں امام احمد نے کہا: یہ ثقہ اور ثبت ہیں یہ بہت سخی تھے 94ھ میں پیدا ہوئے اور نصف شعبان کو جمعہ کے دن ۱۷۵ ھ میں فوت ہو گئے

۳) یزید بن ابی حبیب، ابوحبیب کا نام سوید مصری ابورجاء ہے یہ بہت بزرگ تابعی ہیں، انہوں نے عبداللہ بن الحارث اور ابو الطفیل عامر بن واثلہ صحابہ سے احادیث کا سماع کیا ہے اور کثیر تابعین سے سماع کیا ہے اور ان سے سلیمان التیمی، ابراہیم بن یزید، یحیی بن ایوب اور بہت سے اکابرین مصر نے سماع کیا ہے ابن یونس نے کہا ہے کہ یہ اپنے زمانہ میں اہل مصر کے مفتی تھے اور بہت حلیم اور عاقل تھے اور یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مصر میں فقہ، کلام اور حلال اور حرام کے علم کو ظاہر کیا اس سے پہلے وہ فتن اور جنگوں سے متعلق احادیث بیان کرتے تھے یہ ۵۳ ھ میں پیدا ہوۓ اور ۱۲۸ھ میں فوت ہو گئے

(۴) ابو الخیر مرثد ابوعبداللہ مصری ہیں ،یہ حضرت عمرو بن العاص، حضرت سعید بن زید اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہم اور دیگر سے احادیث روایت کرتے ہیں ۹۰ ھ میں فوت ہو گئے ان سے ایک جماعت نے احادیث روایت کی ہیں

(۵)پانچویں میں راوی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ان کا تذکرہ گزر چکا ہے ۔

( عمدة القاری ج۱ ص۲۲۶ – ۲۲۵ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۱ھ )

اس حدیث کی باب کے عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حدیث کا یہ جملہ ’ افضل اسلام یہ ہے کہ تم کھانا کھلاؤ‘ بعینہ عنوان بنایا گیا ہے۔

کھانا کھلانے اور ہر کسی کو سلام کرنے کا مستحب ہونا اور دوسروں کوضرر سے محفوظ رکھنے کا واجب ہونا

حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: نرمی سے بات کرنا اور کھانا کھلانا میں نے پوچھا: کون سا اسلام کا وصف افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ۔ الحدیث ( مسند احمد ج ۴ ص ۳۸۵ طبع قدیم سنن ابن ماجه ۲۷۹۴ مسند احمد ج ۲ ۳ ص ۱۷۷ مؤسسة الرسالة بيروت )

اسلام کے اس پہلے حکم پرعمل کرنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے، یہ صرف احسان اور حسن سلوک ہے اور رہا دوسرے مسلمانوں کو اپنی زبان اور ہاتھ کے ضرر سے محفوظ رکھنا تو وہ واجب ہے جب کہ وہ ضرر ناحق ہو اور اگر وہ مکافات عمل ہو اور کسی کے پہنچاۓ ہوۓ ضرر کا بدلہ ہو تب معاف کر دینا مستحب ہے قرآن مجید میں ہے

والكظمين الغيظ والعافين عن الناس واللہ یحب المحسنین (آل عمران: 134)

اور غصہ کو ضبط کر نے والے اور لوگوں کو معاف کر نے والے اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے

وجزوا سيئة سيئة مثلها فمن عفا وأصلة فاجرة علی الله(الشوری:40)

برائی کا بدلہ اس کی مثل برائی ہے پھر جس نے معاف کر دیا۰اور اصلاح کر دی تو اس کا اجر اللہ ( کے ذمہ کرم) پر ہے ۔

اس باب کی حدیث میں سلام کے ساتھ کھانا کھلانے کو جمع کر دیا ہے تا کہ قول اور فعل کے ساتھ احسان کرنا جمع ہو جائے اور یہ کامل درجہ کا احسان ہے۔

 

اس حدیث میں کھانا کھلانے اور ہر کسی کو سلام کرنے کو اسلام کی خیر اور اچھی خصلت فرمایا ہے سو جوشخص اسلام کے فرائض اور

واجبات کو ادا کر نے اور حرام اور مکروہ تحریمی سے اجتناب کے بعد اس خصلت کو اپناۓ گا تو اس کے لیے یہ بہت عمدہ خصلت ہے یہ

مطلب نہیں ہے کہ کوئی شخص اسلام کے ارکان اور فرائض پر عمل نہ کرے اور صرف اسی خصلت پرعمل کرے تو یہ سب سے اچھی خصلت

ہے نیز اس حدیث میں جو فرمایا ہے کہ ہر ایک کو سلام کرے خواہ اس کو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو اس کے عموم سے کفار اور گم راہ فرقے

خارج ہیں، کیونکہ ان کو سلام کرنا جائز نہیں ہے۔

حدیث: ۱۱ اور ۱۲ میں بہ ظاہر تعارض کا جواب

اس سے پہلی حدیث میں فرمایا تھا کہ دوسرے مسلمانوں کو اپنی زبان اور ہاتھ کے ضرر سے محفوظ رکھنا،اسلام کی افضل خصلت ہے

اور اس حدیث میں فرمایا ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلانا اور ہر کسی کو سلام کرنا اسلام کی اچھی خصلت ہے ان دونوں حدیثوں میں تعارض نہیں

ہے کیونکہ لفظ فضل اور خیر میں فرق ہے فضل کا معنی کثرت ثواب ہے اور یہ قلت کے مقابلہ میں ہے اور خیر کا معنی ہے: نفع اور یہ شر

کے مقابلہ میں ہے پس فضل کمیت کے قبیل سے ہے اور خیر کیفیت کے قبیل سے ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ مختلف جواب اختلاف سائلین اور اختلاف سامعین کے اعتبار سے ہیں، مثلا کوئی شخص مغلوب الغضب

تھا اور اس کی زبان سے اور ہاتھ سے دوسروں کو ضرر پہنچتا تھا تو جب اس نے سوال کیا کہ اسلام کا افضل عمل کون سا ہے؟ تو آپ نے

فرمایا: دوسروں کو اپنی زبان اور اپنے ہاتھ کے ضرر سے محفوظ رکھنا اور جو شخص کھانا نہیں کھلاتا تھا اور لوگوں کو سلام نہیں کرتا تھا تو جب اس نے پوچھا کہ اسلام کی سب سے اچھی خصلت کون سی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: لوگوں کو کھانا کھلا نا اور ہر کسی کو سلام کرنا ۔

شرح صحیح مسلم ج۱ ص ۴۲۲ میں بھی اس حدیث کی شرح کی گئی ہے وہاں صرف تعارض کو دور کیا گیا ہے باقی مضامین نہیں ہیں

وہاں پر اس حدیث کا نمبر 68 ہے۔