بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

تِلۡكَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ‌ۘ مِنۡهُمۡ مَّنۡ كَلَّمَ اللّٰهُ‌ وَرَفَعَ بَعۡضَهُمۡ دَرَجٰتٍ‌ؕ وَاٰتَيۡنَا عِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ الۡبَيِّنٰتِ وَاَيَّدۡنٰهُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ‌ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقۡتَتَلَ الَّذِيۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُمُ الۡبَيِّنٰتُ وَلٰـكِنِ اخۡتَلَفُوۡا فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ اٰمَنَ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ كَفَرَ‌ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقۡتَتَلُوۡا وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ يَفۡعَلُ مَا يُرِيۡدُ

ان سب رسولوں (میں سے) ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ‘ ان میں سے بعض سے اللہ نے کلام فرمایا اور بعض کو (بےشمار درجوں کی) بلندی عطا فرمائی ‘ اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو واضح نشانیاں دیں ‘ اور ہم نے روح القدس (جبرائیل) سے اس کی مدد فرمائی اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے واضح نشانیاں آنے کے بعد آپس میں قتال نہ کرتے لیکن انہوں نے اختلاف کیا ‘ سو ان میں سے کوئی ایمان لے آیا اور کسی نے کفر کیا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں قتال نہ کرتے ‘ لیکن اللہ وہی کرتا ہے جس کا وہ ارادہ فرماتا ہے

رسولوں کی باہمی فضیلت :

اس سے پہلے اس سورت میں متعدد نبیوں اور رسولوں کا ذکر آچکا ہے ‘ مثلا حضرت آدم ‘ حضرت ابراہیم ‘ حضرت اسماعیل ‘ حضرت اسحاق ‘ حضرت یعقوب ‘ حضرت شموئیل ‘ حضرت حزقیل ‘ حضرت داؤد ‘ حضرت سلیمان ‘ اور حضرض عیسیٰ علیہم وعلی نبینا سیدنا محمد الصلوۃ والسلام ‘ اس لیے پڑھنے والے کے ذہن میں یہ تجسس پیدا ہوگا کہ آیا یہ تمام نبی اور رسول درجہ اور مرتبہ میں برابر ہیں یا ان میں درجات اور مراتب کا فرق ہے ؟ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ان سب رسولوں (میں سے) ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ‘ یعنی بعض رسولوں کو ایسی خصوصیات اور فضیلتیں عطا فرمائی ہیں جو دوسرے بعض رسولوں کو عطا نہیں فرمائیں اور چونکہ اس سورت کا اکثر حصہ بنواسرائیل کے احوال پر مشتمل تھا اور ان میں زیادہ ترحضرت موسی علیہ السلام کے متبع تھے اور ان کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکار تھے کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنواسرائیل کے آخری نبی تھے ‘ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کی فضیلتوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا کہ ہم نے بعض کو کلام سے سرفراز فرمایا ‘ یعنی ان سے بلاواسطہ کلام فرمایا ‘ ان سے حضرت آدم (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں ‘ اس کے بعد فرمایا : اور بعض کو (بےشمار درجوں کی) بلندی عطا فرمائی ‘ اس سے مراد سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اللہ تعالیٰ نے یہاں صراحۃ آپ کا نام نہیں کیونکہ غیر متناہی درجات کے ساتھ آپ کا مخصوص ہونا اس قدر مشہور اور معروف ہے کہ آپ کا صراحۃ ذکر نہ کیا جائے پھر بھی ذہن آپ کے سوا اور کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا ‘ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ آپ کو درجات کی بلندی عطا کی ہے ‘ یہ نہیں بیان فرمایا کہ کتنے درجات کی بلندی عطا فرمائی ہے کیونکہ عالم اعداد میں کوئی عدد ایسا ہے ہی نہیں جو آپ کے تمام درجات کو بیان کرسکے اور کسی عدد کا ذکر نہ فرما کر اس پر متنبہ کیا ہے کہ آپ کے درجات کا کوئی شمار نہیں نہ ان کی کوئی حد ہے ‘ کہ آپ رحمت للعالمین اور خاتم النبیین ہیں ‘ لواء حمد کے حامل اور مقام محمود پر فائز ہیں ‘ تمام سابقہ شریعتوں کے ناسخ ہیں ‘ کوثر وسلسبیل کے ساقی ہیں ‘ عالم میثاق میں تمام انبیاء اور مرسلین سے آپ پر ایمان لانے اور آپ کی نصرت کرنے کا عہد و پیمان لیا گیا ‘ آپ تمام انبیاء اور مرسلین کے قائد ہیں ‘ شب معراج اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دیدار سے مشرف فرمایا ‘ روز حشر تمام اہل محشر کو آپ کی شفاعت کی احتیاج ہوگی ‘ آپ کی امت کو تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے ‘ کائنات اللہ کو راضی کرتی ہے اور اللہ آپ کو راضی فرماتا ہے ‘ اور ایسے بہت سے فضائل اور خصائص ہیں جو صرف آپ ہی کو حاصل ہیں ‘ یہ اجمالی ذکر ہے اور انشاء اللہ ہم اس کو تفصیل سے بھی بیان کریں گے ‘ اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا علیحدہ ذکر فرمایا کیونکہ ان کے معجزات زیادہ ترحسی تھے ‘ مثلا مردوں کو زندہ کرنا ‘ مادر زاد اندھوں کو بینا کرنا اور برص اور کوڑھ کے مریضوں کو تندرست کرنا وغیرہا ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کے بعد والے واضح نشانیاں آنے کے بعد آپس میں قتال نہ کرتے لیکن انہوں نے اختلاف کیا۔ (البقرہ : ٢٥٣)

بعض کفار عرب کے اسلام نہ لانے پر آپ کو تسلی دینا :

اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سابقہ امتوں کی خبر دی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے واضح دلائل اور معجزات دیکھنے کے باوجود کہا : ہمیں اللہ تعالیٰ کو ظاہر باہر دکھاؤ ‘ اور ہمارے لیے ایک معبود بنادو جیسے ان کا معبود ہے ‘ اسی طرح حضرت عیسیٰ کی قوم نے روشن دلائل اور معجزات مثلا مردوں کو زندہ کرنا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنا دیکھا ‘ اس کے باوجود انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور ان کو قتل کرنے کے درپے ہوئے اب آپ کو یہ بتایا جارہا ہے کہ آپ بھی سابقہ رسولوں کی طرح ایک رسول ہیں تو اگر آپ کے دلائل اور معجزات پیش کرنے کے باوجود آپ کی قوم کے بعض لوگ آپ کی تکذیب کر رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے :

(آیت) ” وان یکذبوک فقد کذبت قبلھم قوم نوح وعاد وثمود۔ وقوم ابرھیم وقوم لوط۔ واصحب مدین، وکذب موسیٰ “۔ (الحج : ٤٤۔ ٤٢)

ترجمہ : اور اگر یہ آپ کی تکذیب کرتے ہیں (تو آپ پریشان نہ ہوں) سو ان سے پہلے نوح کی قوم نے اور عاد نے اور ثمود نے تکذیب کی تھی۔ اور ابراہیم کی قوم نے اور لوط کی قوم نے۔ اور اصحاب مدین نے (بھی تکذیب کی تھی) اور موسیٰ کی تکذیب کی گئی۔

نیز فرمایا :

(آیت) ” فان کذبوک فقد کذب رسل من قبلک جآء و بالبینت والزبر والکتب المنیر “۔۔ (آل عمران آل عمران آل عمران : ١٨٤)

ترجمہ : اگر یہ آپ کی تکذیب کریں (تو غم نہ کریں) آپ سے پہلے رسولوں کی بھی تکذیب کی گئی ہے جو واضح دلائل آسمانی صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔۔

اور اگر اللہ چاہتا تو نہ وہ لوگ اختلاف کرتے اور نہ آپ کی قوم کے بعض لوگ مخالف ہوتے ‘ اور اللہ تعالیٰ ان سب کو جبرا مسلمان کردیتا اور دنیا میں کبھی کوئی شخص کسی نبی کا مخالف اور کافر نہ ہوتا لیکن یہ چیز اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت کے خلاف ہے ‘ اس نے انسان کو حریت فکر اور سوچ وبچار کی آزادی عطا کی ہے ‘ اس نے کفر اور ایمان اور ہدایت اور گمراہی کے راستے پید اکیے شیطان کو پیدا کیا جو انسان کو کفر اور گمراہی کی طرف بلاتا ہے اور انبیاء اور رسل مبعوث فرمائے جو اس کو ایمان اور ہدایت کی دعوت دیتے ہیں اور انسان کو عقل سلیم عطا کی ‘ سچ اور جھوٹ اور کھرے اور کھوٹے کو پرکھنے کا شعود دیا ‘ اب وہ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ انبیاء اور رسل کی دعوت پر کتنے لوگ صراط مستقیم کو اختیار کرتے ہیں اور شیطان کے بہکانے میں آکر کتنے لوگ کفر اور گمراہی کو اختیار کرتے ہیں ‘ اس لیے فرمایا : لیکن انہوں نے اختلاف کیا ‘ سو ان میں سے کوئی ایمان لے آیا اور کسی نے کفر کیا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں قتال نہ کرتے لیکن اللہ وہی کرتا ہے جس کا وہ ارادہ فرماتا ہے۔

اب ہم قرآن مجید اور احادیث صحیحہ مشہورہ سے بیان کریں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل ہیں۔ فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق ‘۔

” رحمۃ للعلمین “ ہونے کی وجہ سے آپ کا افضل الرسل ہونا “۔

(١) (آیت) ” وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین “۔۔ (الانبیاء : ١٠٧)

ترجمہ : اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ہی تو بھیجا ہے “۔۔

آپ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں اور اپنے وجود اور بقاء میں ہر چیزکو رحمت کی ضرورت ہے تو ساری کائنات آپ کی محتاج ہوئی اور محتاج الیہ محتاج سے افضل ہوتا ہے اس لیے آپ ساری کائنات سے افضل قرار پائے اور یہ اس کو مستلزم ہے کہ آپ تمام نبیوں اور رسولوں سے بھی افضل ہوں ‘ آپ سے پہلے جو نبی آئے ان کی قوموں نے ان کی تکذیب کی تو ان قوموں پر عذاب آیا ‘ جب آپ کی قوم کے کافروں نے آپ کی تکذیب کی اور عذاب کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(آیت) ” وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیھم “۔ (الانفال : ٣٣)

ترجمہ : اور اللہ کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ آپ کے ہوتے ہوئے ان کافروں کو عذاب دے۔

انبیاء سابقین کے آنے کے بعد کافروں سے عذاب ٹل نہیں سکتا تھا اور آپ کے آنے کے بعد عذاب آ نہیں سکتا تھا۔

تمام نبیوں اور رسولوں کے نبی ہونے کی وجہ سے آپ کا افضل الرسل ہونا “۔

(آیت) ” واذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جآء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ قالء اقررتم واخذتم علی ذلکم اصری قالوا اقررنا، قال فاشھدوا وانا معکم من الشھدین ‘۔ فمن تولی بعد ذلک فاولیک ھم الفسقون “۔۔ (آل عمران : ٨٢۔ ٨١)

ترجمہ : اور یاد کیجئے جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ میں تم کو جو کتاب اور حکمت دوں ‘ پھر تمہارے پاس ایک عظیم رسول آجائے جو اس (کتاب اور حکمت) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ‘ تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ‘ فرمایا : کیا تم نے اس کا اقرار کرلیا اور اس پر میرے بھاری عہد کو قبول کرلیا ؟ ان سب نے کہا : ہم نے اقرار کیا ‘ فرمایا : سو گواہ ہوجاؤ اور میں خود تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ‘۔ پھر اس عہد کے بعد جو اس سے پھرا تو وہی لوگ نافرمان (فاسق) ہیں۔۔

اس آیت سے واضح ہوا کہ انبیاء سابقین میں سے جس نبی کے زمانہ میں بھی آپ مبعوث ہوجاتے ‘ اس نبی پر لازم ہوتا کہ وہ آپ پر ایمان لائے۔

امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور ان کے بعد جس نبی کو بھی بھیجا اس سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ عہد لیا کہ اگر اس نبی کی زندگی میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوجائیں تو وہ ضرور ضرور ان پر ایمان لائے اور ضرور ضرور ان کی نصرت کرے اور اپنی قوم کو بھی ان پر ایمان لانے کا حکم دے۔ (جامع البیان ج ٣ ص ‘ ٢٣٦ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

امام ابن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں :

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا : اس ذات کی قسم جس قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کے سوا ان کے لیے اور کوئی چارہ کار نہ تھا۔ (المصنف ج ٩ ص ٤٧ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗ ١٤٠٦ ھ)

اس حدیث کو امام بغوی نے بھی روایت کیا ہے۔ (شرح السنۃ ج ٣ ص ‘ ٢١٩ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

امام ابویعلی روایت کرتے ہیں :

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خدا کی قسم : اگر موسیٰ تمہارے زمانہ میں زندہ ہوتے تو انکے لیے میرے سوا کسی کی پیروی کرنا جائز نہ ہوتا۔ (مسند ابویعلی ج ٢ ص ٢٤٧‘ مطبوعہ دارالمامون تراث بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ)

امام احمد نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ‘ ٣٣٨ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

حافظ الہیثمی۔ ١ (حافظ نورالدین علی بن ابی بکر الہیثمی المتوفی ٨٠٧ ھ ‘ مجمع الزوائد ج ١ ص ١٧٤‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘

اور حافظ سیوطی۔ ٢ (حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ ‘ درمنثور ج ٢ ص ٤٨‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران) نے بھی اس حدیث کو بیان کیا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء اور رسل حکما اور تقدیرا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہیں اور نبی امت سے افضل ہوتا ہے اس سے واضح ہوا کہ آپ تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل ہیں۔

تمام نبیوں اور رسولوں کو عالم میثاق میں کیے ہوئے اس عہد کو پورا کرنے کا انتظار تھا اسی لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی :

(آیت) ”۔ ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیہم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمۃ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم “۔۔ (البقرہ : ١٢٩)

ترجمہ : اے ہمارے رب ! ان میں ایک عظیم رسول بھیج دے جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی باطنی اصلاح کرے ‘ بیشک تو ہی بڑا غالب اور بہت حکمت والا ہے۔۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے آپ کے آنے کی بشارت دی :

(آیت) ”۔ واذقال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم مصدقالما بین یدی من التورۃ ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “۔ الصف : ٦)

ترجمہ : اور یاد کیجئے جب عیسیٰ بن مریم نے کہا : اے بنو اسرائیل ! بیشک میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور اس عظیم رسول کی خوشخبری دیتا ہوں جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام نامی احمد ہے۔

امام احمد اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عرباض بن ساریہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اللہ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا اور بیشک (اس وقت) آدم اپنی مٹی میں تھے اور عنقریب میں تم کو اپنی ابتداء کے متعلق بتاؤں گا ‘ میں ابراہیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ کی بشارت ہوں اور میں اپنی ماں کا خواب ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا اور بیشک ان سے ایک نور نکلا جس سے (ملک) شام کے محلات روشن ہوگئے۔ ٣۔ (امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ، مسنداحمد ج ٤ ص، ١٢٨، ١٢٧ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٣٩٨ ھ)

اس حدیث کو امام طبرانی۔ ١ (امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ ‘ معجم کبیر ج ١٨ ص ‘ ٢٥٢ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)

امام بزار۔ ٢ (امام احمد بن عمرو بن عبدالخالق البزار المتوفی ٢٩٢ ھ ‘ کشف الاستار عن زوائد البزار ج ٤ ص ١١٣‘ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ ‘ بیروت)

امام ابن حبان۔ ٣ (امام ابو حاتم محمد بن حبان بسی متوفی ٣٥٤ ھ ‘ موارد الظمآن ص ٥١٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)

امام ابونعیم۔ ٤ (امام ابو نعیم بن عبداللہ اصبہانی متوفی ٤٣٠ ھ حلیۃ الاولیاء ج ٦ ص ‘ ٨٩ مطبوعہ دارالکتب العربی ‘ ١٤٠٧ ھ)

امام حاکم ٥ امام حاکم۔ ٥ (امام ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥‘ المستدرک ج ٢ ص ٦٠٠‘ مطبوعہ دارالباز ‘ مکہ مکرمہ)

امام بیہقی۔ ٦ (امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ دلائل النبوۃ ج ٢ ص ١٣٠ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)

اور امام بغوی ٧۔ (امام حسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ ھ ‘ شرح السنۃ ج ٧ ص ١٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ) نے بھی روایت کیا ہے۔ امام ذہبی نے لکھا ہیں اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ ٨ (علامہ شمس الدین محمد بن احمد ذہبی متوفی ٨٤٨ ھ ‘ تلخیص المستدرک ج ٢ ص ٦٠٠‘ مطبوعہ مکتبہ دارالباز ‘ مکہ مکرمہ)

تمام انبیاء کے اوصاف اور کمالات کے جامع ہونے کی وجہ سے آپ کا افضل الرسل ہونا :

(آیت) ” اولئک الذین ھدی اللہ فبھدھم القتدہ “۔ (الانعام : ٩٠)

ترجمہ : یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے ‘ سو آپ بھی ان کے طریقہ پر چلیں۔

اس آیت میں عقائد اور اصول مراد نہیں ہیں کیونکہ عقائد اور اصول میں تقلید جائز نہیں ہے اور نہ فروع اور اعمال مراد ہیں کیونکہ آپ کی شریعت تمام شرائع سابقہ کے لیے ناسخ ہے ‘ سو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ محاسن اخلاق میں تمام انبیاء (علیہم السلام) کی پیروی کیجئے ‘ اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تمام اوصاف حمیدہ اور تمام اخلاق حسنہ جو تمام انبیاء (علیہم السلام) میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے آپ ان تمام اوصاف اور اخلاق کے جامع ہیں ‘ گویا آپ کی صفات کو پھیلاؤ تو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی صفات ہیں اور ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی صفات کو سمیٹو تو وہ تنہا آپ کی صفات ہیں ‘ آپ کی ذات بہ منزلہ متن ہے اور انبیاء بہ منزلہ شرح ہیں ‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(آیت) ” وانک لعلی خلق عظیم “۔۔ (القلم : ٤)

ترجمہ : اور بیشک آپ ضرور خلق عظیم پر فائز ہیں۔۔

علی کا لفظ استعلاء اور تفوق کے لیے آتا ہے ‘ جیسے کہتے ہیں کہ فلاں شخص سواری پر سوار ہے ‘ سو آپ بہ منزلہ سوار ہیں اور خلق عظیم بہ منزلہ سواری ہے۔ اس میں یہ بتایا ہے کہ دوسرے لوگ نیک ہونے میں نیکی کے تابع ہوتے ہیں اور یہاں نیکی آپ کے تابع ہے ‘ آپ جس کام کو کرلیں وہ اچھا ہے اور جس سے منع فرما دیں وہ برا ہے ‘ خلق عظیم کی باگیں آپ کے ہاتھ میں ہیں ‘ آپ جس طرف ان کا رخ موڑ دیں عظمتیں وہیں ہیں آپ عظمتوں کے تابع نہیں ‘ عظمتیں اپنے عظیم ہونے میں آپ کے تابع ہیں :

(آیت) ” وما اتکم الرسول فخذوہ، وما نھکم عنہ فانتھوا “ (الحشر : ٧)

ترجمہ : اور رسول تمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو ‘ اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز رہو۔

(آیت) ” یکاد زیتھا یضیء ولو لم تمسسہ نار نور علی نور “۔ (النور : ٣٥)

ترجمہ : قریب ہے کہ (آپ کی نبوت کا) تیل خود ہی روشن ہوجائے گا خواہ اسے (وحی کی) آگ نہ چھوئے (نزول وحی کے بعد) وہ نور علی نور ہے۔

علامہ آلوسی لکھتے ہیں :

قریب ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی استعداد کا تیل اپنی صفائی اور زکاوت کی وجہ سے خود ہی روشن ہوجاتا، خواہ اس کو نور قرآن نے نہ چھوا ہوتا۔ امام بغوی نے محمد بن کعب القرظی سے روایت کیا ہے کہ قریب ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے محاسن لوگوں کے سامنے وحی سے پہلے ظاہر ہوجاتے۔ (روح المعانی ج ١٨ ص ‘ ١٧١ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)

قاضی عیاض لکھتے ہیں : قریب ہے کہ اس تیل کی طرح سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت لوگوں پر آپ کے دعوی نبوت سے پہلے ہی ظاہر ہوجاتی۔ (الشفاء ج ١ ص ١١‘ مطبوعہ عبدالتواب اکیڈمی ‘ ملتان)

علامہ شہاب الدین خفاجی نے لکھا ہے :

اس آیت میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو اس تیل سے تشبیہ دی گئی ہے جو از خود روشن ہوجاتا ہے۔ (نسیم الریاض ج ١ ص ١١٣‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت)

ملاعلی قاری نے لکھا ہے : کیونکہ آپ کا ظاہر اور باطن صاف تھا ‘ آپ میں نبوت اور رسالت مجتمع تھی ‘ آپ میں انوار الہیہ بہت قوی تھے اور آپ انوار صمدیہ کے مظہر تھے اور آپ ایسے کامل تھے کہ اگر آپ دعوی نبوت نہ کرتے پھر بھی لوگوں پر آپ کی نبوت ظاہر ہوجاتی۔ (شرح الشفاء علی ھامش نسیم الریاض ج ١ ص ١١٣‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت)

امام مسلم روایت کرتے ہیں :

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا : یا ام المؤمنین ! مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلق کے متعلق بتایئے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے میں نے عرض کیا : کیوں نہیں ! حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق قرآن تھا۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ٢٥٦ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

اس حدیث کو امام بخاری۔ ١ (امام محمد اسماعیل بخاری (رح) متوفی ٢٥٦ ھ الادب المفرد ص ٨٧۔ ٨٦ مطبوعہ مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل)

امام ابوداؤد۔ ٢ (امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ ‘ سنن ابوداؤد ج ١ ص ١٩٠۔ ١٨٩‘ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)

امام نسائی۔ ٣ (امام احمد بن شعیب نسائی متوفی ٣٠٢ ھ ‘ سنن نسائی ج ١ ص ‘ ٢٣٧ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

امام ابن ماجہ ٤ (امام ابو عبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ، سنن ابن ماجہ ص ١٦٨ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی)

امام احمد۔ ٥ (امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ، مسنداحمد ج ٦ ص، ٢١٦۔ ١٨٨۔ ١١١۔ ٩١۔ ٥٤ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٣٩٨ ھ)

امام دارمی۔ ٦ (امام عبداللہ بن عبدالرحمان دارمی متوفی ٢٥٥ ھ ‘ سنن دارمی ج ١ ص ٢٨٤‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان۔ )

اور امام بیہقی۔ ٧ (امام احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ ‘ دلائل النبوۃ ج ١ ص ٣١٠‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت) نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خصائل اور شمائل کی جامع عبارت قرآن مجید ہے اور قرآن مجید کے تین پاروں کو اگر انسانی پیکرمصطفی ہے۔

امام مالک نے فرمایا : ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے حسن اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔ (موطا امام مالک ص ٧٠٥‘ مطبوعہ مطبع مجتبائی پاکستان ‘ لاہور)

امام بغوی روایت کرتے ہیں :

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے مکارم اخلاق کو تمام تک پہنچانے اور محاسن افعال کو کمال تک پہنچانے کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ (شرح السنۃ ج ٧ ص ١٠۔ ٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

ان احادیث سے واضح ہوگیا کہ آپ سے پہلے کوئی نبی اور رسول مکارم اخلاق اور محاسن افعال کا جامع نہیں تھا ‘ حضرت داؤد اور سلیمان نے شاہی کی زندگی گزاری اس میں فقر کا نمونہ نہیں ہے ‘ حضرت یحی اور عیسیٰ نے تجرد کی زندگی گزاری اس میں ازدواجی زندگی اور عائلی حیات کا نمونہ نہیں ہے ‘ ایسی کامل زندگی جو انسانیت کے ہر شعبہ پر محیط ہو وہ صرف آپ کی زندگی ہے۔ آپ نے بکریاں چرائیں ‘ گڈریوں اور چرریوں اور چرواہوں کو اعزاز بخشا ‘ دودھ دوہا ‘ گوالوں کی عزت افزائی کی ‘ جوتی مرمت کرلی ‘ موچیوں کا مقام اونچا کیا ‘ پھٹے ہوئے کپڑے سی لیے ‘ خندقیں کھودیں ‘ تجارت ہو ‘ صنعت وحرفت ہو ‘ حکومت کا کوئی شعبہ ہو ‘ امامت ہو ‘ خطابت ہو ‘ سپہ سالاری ہو ‘ ہر شعبہ میں آپ کا نمونہ ہے۔ اگر ایک حاکم فخر سے کہے کہ میں حکومت چلا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت پر عامل ہوں تو پیوند لگے ہوئے لباس پہن کر زمین کھودنے والا مزدور بھی کہے گا کہ میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کا امین ہوں ‘ سو ایسی کامل زندگی نبیوں اور رسولوں میں سے کسی نے نہیں گزاری ‘ آپ تمام نبیوں اور رسولوں میں مکارم اخلاق اور محاسن افعال کے سب سے زیادہ جامع ہیں ‘ اس لیے سب رسولوں میں آپ ہی سب سے افضل ہیں۔

رسالت کے عموم کی وجہ سے آپ کا افضل الرسل ہونا :

(آیت) ” وما ارسلنک الا کافۃ اللناس بشیرا ونذیرا “۔ (سبا : ٢٨)

ترجمہ : اور ہم نے آپ کو (قیامت تک کے) تمام لوگوں کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا ہی بنا بھیجا ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ آپ قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے رسول ہیں ‘ نیز فرمایا :

(آیت) ” تبرک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعلمین نذیرا “۔۔ (الفرقان : ١)

ترجمہ : وہ برکت والا ہے جس نے اپنے (مقدس) بندہ پر فیصلہ کرنے والی کتاب نازل کی تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈرانے والے ہوں۔

اسی طرح احادیث میں بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا عموم اور شمول بیان کیا گیا ہے امام روایت کرتے ہیں :

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی (نبی) کو نہیں دی گئیں ‘ ایک ماہ کی مسافت سے میرا رعب طاری کرکے میری مدد کی گئی ہے ‘ تمام روئے زمین میرے لیے مسجد بنادی گئی ہے اور طہارت (تیمم) کا ذریعہ بنادی گئی ہے ‘ سو میری امت کا جو شخص بھی نماز کا وقت پائے وہ (جہاں بھی ہو) نماز پڑھ لے ‘ اور میرے لیے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا اور وہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں کیا گیا ‘ اور مجھے شفاعت (کبری) عطا کی گئی ہے اور ہر نبی بالخصوص اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٤٨‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث کو امام بغوی۔ ١ (امام حسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ ھ ‘ شرح السنۃ ج ٧ ص ٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

اور امام دارمی۔ ٢ (امام عبداللہ بن عبدالرحمان دارمی متوفی ٢٥٥ ھ ‘ سنن دارمی رقم الحدیث : ١٣٩٥ ھ ‘ دارالمعرفۃ بیروت “۔ نے بھی روایت کیا ہے۔

امام مسلم روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے چھ وجوہ سے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے ‘ جوامع الکلم عطا کیے گئے ‘ میری رعب سے مدد کی گئی میرے لیے مال غنیمت حلال کردیا گیا ‘ تمام روئے زمین کو میرے لیے طہارت کا آلہ (تیمم) اور مسجد بنادیا گیا ‘ مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت ختم کی گئی۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ١٩٩‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

امام احمد روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوموشی اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں ‘ مجھے ہر کالے اور گورے کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اور میرے لیے تمام زمین مسجد اور اور آلہ طہارت (تیمم) بنادی گئی ہے۔ الحدیث (مسند احمد ج ٤ ص ‘ ٤١٦ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی صحیح ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٥٨‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

امام احمد نے اس حدیث کو حضرت ابو ذر (رض) سے بھی روایت کیا ہے۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١٦٢۔ ١٦١‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

حافظ الہیثمی نے امام بزار کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی بالخصوص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام جن اور انس کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٥٨‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

حافظ ابن عساکر روایت کرتے ہیں :

حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمیں چار ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو ہم سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں اور میں نے اپنے رب سے پانچویں چیز مانگی تو میرے رب نے وہ بھی عطا کردی پہلے نبی کسی ایک شہر (قوم) کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور اس سے تجاوز نہیں کرتا تھا اور مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ١٢ ص ١٣٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق ‘ ١٤٠٤ ھ)

اس حدیث کو امام طبرانی نے بھی روایت کیا ہے۔ (معجم کبیر ج ١١ ص ‘ ٦١۔ ٥١ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)

امام طبرانی نے اس حدیث کو حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی روایت کیا ہے۔ (معجم کبیر ج ١٢ ص ‘ ٢١٥ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)

قرآن مجید اور بہ کثرت احادیث صحیحہ سے واضح ہوگیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام جن وانس بلکہ تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیے گئے ہیں ہم البقرہ : ٧٤ کی تفسیر میں باحوالہ بیان کرچکے ہیں کہ گوہ اور ہرنی نے آپ کا کلمہ پڑھا ‘ درختوں نے آپ کی اطاعت کی ‘ پتھروں نے آپ کو سلام عرض کیا اور اونٹنی آپ کے فراق میں روئی اور یہ وہ عظیم خصوصیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سوا اور کسی نبی کو عطا نہیں کی ‘ اس سے واضح ہوا کہ آپ تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل ہیں۔

خاتم الانبیاء ہونے کی وجہ سے آپ کا افضل الرسول ہونا :

(آیت) ” ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین “۔ (الاحزاب : ٤٠)

ترجمہ : محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ‘ لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر۔

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر النبیین ہیں ہر نبی کی شریعت بعد میں آنے والے نبی سے منسوخ ہوتی رہی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر الانبیاء ہیں اور قیامت تک کے نبی ہیں اس لیے آپ کی شریعت باقی اور غیر منسوخ ہے اور اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آپ تمام انبیاء سے افضل ہوں۔

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت جبیر بن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے پانچ اسماء ہیں : میں محمد اور احمد ہوں ‘ میں ماحی ہوں جس کے سبب سے اللہ کفر کو مٹاتا ہے ‘ میں حاشر ہوں لوگ میرے قدموں میں جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب (آخری نبی) ہوں (صحیح بخاری ج ١ ص ٥٠١‘ ج ٢ ص ٧٢٧‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

امام مسلم روایت کرتے ہیں :

حضرت جبیر بن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں محمد اور احمد ہوں ‘ میں ماحی ہوں جس کے سبب سے اللہ کفر کو مٹاتا ہے ‘ میں حاشر ہوں میری ایڑیوں پر لوگ جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم ج ٢ ص ٢٦١‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

اس حدیث کو امام ترمذی۔ ١ (امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ ‘ جامع ترمذی ص ٥٩٧ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

اور امام بغوی۔ ٢ (امام حسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ ھ ‘ شرح السنۃ ج ٧ ص ١٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ) نے بھی روایت کیا ہے۔

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری اور مجھ سے پہلے نبیوں کی مثال ایسے ہے جیسے کسی شخص نے بہت حسین و جمیل گھر بنایا لیکن اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ باقی ہو ‘ لوگ اس گھر کے گرد طواف کریں اور تعجب کریں اور کہیں کہ کیوں نہ یہ ایک اینٹ بھی رکھ دی گئی تو میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبین ہوں۔ ٣ (امام محمد اسماعیل بخاری (رح) متوفی ٢٥٦ ھ صحیح بخاری ج ١ ص ٥٠١‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ) اس حدیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ (صحیح مسلم ج ٢ ص ٢٤٨‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بنواسرائیل کے انبیاء ان کا سیاسی نظام چلاتے تھے ‘ جب بھی کوئی نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ہوجاتا اور بیشک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٤٩١ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث کو امام مسلم۔ ٤ (امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ ‘ صحیح مسلم ج ٢ ص ‘ ١٢٦ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

اور امام احمد۔ ٥ (امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ، مسنداحمد ج ٢ ص، ٢٩٧ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٣٩٨ ھ) نے بھی روایت کیا ہے۔

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت علی کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا ‘ حضرت علی نے کہا : آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے : مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٦٣٢‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث کو امام مسلم۔ ١ (امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ ‘ صحیح مسلم ج ٢ ص ٤٧٨‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

امام ترمذی۔ ٢ (امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ ‘ جامع ترمذی ص ٥٣٥۔ ٥٣٤ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

امام ابن ماجہ۔ ٣ (امام ابو عبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ، سنن ابن ماجہ ص ١٢ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی)

امام احمد۔ ٤ (امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ، مسنداحمد ج ١ ص، ١٨٣۔ ١٨٢۔ ١٧٧‘ ج ٣ ص ٢٣٨۔ ٢٢‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٣٩٨ ھ)

اور امام ابن حبان۔ ٥ (امام ابو حاتم محمد بن حبان البسی متوفی ٣٥٤ ھ ‘ الاحسان بہ ترتیب صحیح ابن حبان ج ١٠ ص ٤١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٩٧ ھ) نے بھی روایت کیا ہے۔

امام ترمذی روایت کرتے ہیں :

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے بعد رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے ‘ سو میرے بعد کوئی رسول ہوگا نہ نبی۔ ٦ (امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ ‘ جامع ترمذی ص ٢٣١ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

اس حدیث کو امام احمد۔ ٧ (امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ، مسنداحمد ج ٣ ص، ٢٦٧ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٣٩٨ ھ)

امام حاکم۔ ٨ (امام ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥‘ المستدرک ج ٤ ص ٣٩١‘ مطبوعہ دارالباز ‘ مکہ مکرمہ)

امام ابن ابی شیبہ۔ ٩ (امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ ‘ المصنف ج ١١ ص ٥٣‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ) نے بھی روایت کیا ہے۔

امام ترمذی روایت کرتے ہیں :

حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک میری امت کے قبائل مشرکین کے ساتھ لاحق نہ ہوں ‘ اور جب تک بتوں کی عبادت نہ کی جائے اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی ‘ اور عنقریب میری امت میں تیس کذاب ہوں گے جن میں ہر ایک نبوت کا دعوی کرے گا حالانکہ میں خاتم النبین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (جامع ترمذی ص ٣٢٣‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

اس حدیث کو امام ابوداؤد۔ ١٠ (امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ ‘ سنن ابوداؤد ج ٢ ص ٤٢٨ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)

امام احمد۔ ١١ (امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ، مسنداحمد ج ٥ ص ٢٧٨، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٣٩٨ ھ)

اور امام بیہقی۔ ١٢ (امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ دلائل النبوۃ ج ٦ ص ٤٨١ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت) نے بھی روایت کیا ہے۔

کثرت معجزات کی وجہ سے آپ کا افضل الرسل ہونا :

(آیت) ” انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ الحفظون “۔ (الحجر : ٩)

ترجمہ : بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں “ ،۔

(آیت) ” لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ “۔ (حم السجد : ٣٢)

ترجمہ : اس قرآن مجید میں سامنے سے باطل آسکتا ہے نہ پیچھے سے۔

پہلی آیت کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی آیت بلکہ کسی حرف کی کمی نہیں ہوسکتی اور دوسری آیت کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی حرف کی کمی نہیں ہوسکتی اور دوسری آیت کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی حرف کا اضافہ نہیں ہوسکتا ‘ غرض قرآن مجید کے یہ دو دعوے ہیں اس میں کمی ہوسکتی ہے نہ زیادتی ہوسکتی ہے اور تیسرا دعوی یہ ہے کہ کوئی شخص قرآن مجید کی کسی سورت بلکہ کسی آیت کی بھی نظیر اور مثیل نہیں لاسکتا :

(آیت) ” وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ، (البقرہ : ٢٣)

ترجمہ : اور ہم نے جو اپنے (مقدس) بندے پر کلام نازل کیا ہے اگر تم اس کے (منزل من اللہ ہونے کے) متعلق شک میں ہو تو اس (کلام) کی مثل کوئی سورت لے آؤ۔

(آیت) ” فلیاتوا بحدیث مثلہ ان کانوا صدقین “۔۔ (الطور : ٣٤)

ترجمہ : اگر وہ سچے ہیں تو اس قرآن جیسی کوئی آیت لے آئیں۔

قرآن مجید کی چھ ہزار سے زیادہ آیتیں ہیں اور ہر آیت میں قرآن مجید کی حقانیت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت پر تین دلیلیں ہیں :

(١) قرآن مجید میں زیادتی نہیں ہوسکتی۔

(٢) قرآن مجید میں کمی نہیں ہوسکتی۔

(٣) اس کی کوئی مثل نہیں لاسکتا ‘ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے صدق پر اٹھارہ ہزار سے زائد دلائل ہوگئے۔

علوم و فنون میں دن بدن ترقی ہو رہی ہے اور اسلام کے مخالفین اور آپ کی رسالت کے منکرین کی تعداد بھی دن بہ دن بڑھ رہی ہے ‘ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ چودہ سو سال سے زیادہ گزر گئے اور اب تک کسی نے اس چیلنج کو نہیں توڑا نہ کوئی شخص قرآن مجید کی کسی آیت کی کوئی مثال لاسکا نہ اس میں کمی یا زیادتی کرسکا اگر اس چیلنج کو توڑنا کسی کے بس کی بات ہوتی تو اب تک وہ اس چیلنج کو توڑ چکا ہوتا۔

دوسرے انبیا (علیہم السلام) کے معجزات مثلا لاٹھی اور اونٹنی وغیرہ اعیان و جواہر کے قبیل سے تھے لیکن وہ باقی نہ رہے اور قرآن مجید اعراض اور معانی کے قبیل سے ہے اور ہنوز باقی ہے اور انشاء اللہ قیامت تک بلکہ اس کے بعد تک باقی رہے گا ‘ خلاصہ یہ ہے کہ جس قدر کثیر اور قوی دلائل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر قائم کیے گئے وہ کسی اور نبی اور رسول کی نبوت پر قائم نہیں کیے گئے دیگر انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت پر دلیل فانی معجزات ہیں ‘ آپ کی نبوت پر دلیل باقی رہنے والا ‘ اللہ کا کلام قرآن مجید ہے۔

آپ کے دین کے ناسخ الادیان ہونے کی وجہ سے آپ کا افضل الرسل ہونا :

اللہ تعالیٰ نے آپ کے لائے ہوئے دین کو اپنی نعمت تامہ قرار دیا اور فرمایا :

(آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا “ (المائدہ : ٣ )

ترجمہ : آج میں نے تمہارے دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔

آپ کے دین کو ادیان سابقہ کے لیے ناسخ قرار دیا اور فرمایا :

(آیت) ” ومن یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منہ “۔ (آل عمران : ٨٥)

ترجمہ : اور جس شخص نے اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو طلب کیا سو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔

اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام انبیاء اور رسل پر عظیم فضیلت ہے کہ آفتاب محمدیت کے طلوع کے بعد اب کسی نبی یا رسول کی شریعت کا چراغ نہیں جلے گا ‘ حتی کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی ظاہری حیات سے زندہ ہوتے تو آپ کی پیروی کرتے اور جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہوگا تو وہ بھی آپ کی شریعت کی پیروی کریں گے ‘ امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس وقت تمہارا کیا مرتبہ ہوگا جب تم میں ابن مریم کا نزول ہوگا اور امام تم میں سے ہوگا۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٤٩٠‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا دین تمام ادیان سے افضل ہے اس لیے ضروری ہوا کہ آپ تمام انبیاء اور رسل سے افضل ہوں۔

امت کی کثرت اور افضیلت کی وجہ سے آپ کا افضل الرسل ہونا : rnّ (آیت) ” کنتم خیرامۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر “۔ (آل عمران : ١١٠)

ترجمہ : تم ان امتوں میں سب سے بہترین امت ہو جن کو لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ‘ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔

آپ کی امت کے افضل ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ سابقہ امتوں میں بھی ایمان لانے والے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کی امت کو (آیت) ” یایھا الذین امنوا “۔ اے ایمان والے “ کہہ کر مخاطب نہیں فرمایا بلکہ ‘ مثلا یا بنی اسرائیل ‘ کہہ کر پکارا اور یہ اس امت کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ اس کو (آیت) ” یایھا الذین امنوا “۔ سے خطاب کیا کیونکہ اس پر ایمان لانے کے تو بہت دعوی دار ہیں لیکن فضیلت ان کی ہے جن کو وہ خود (آیت) ” یایھا الذین امنوا “۔ فرمائے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن جب انبیاء (علیہم السلام) کی ان کے امتی تکذیب کریں گے اور کہیں گے : ہمیں کسی نے خدا کے عذاب سے نہیں ڈرایا ‘ اس وقت انبیاء (علیہم السلام) کی صداقت پر آپ کی امت گواہی دے گی :

(آیت) ” وکذلک جعلنکم امۃ واسطا لتکونوا شھدآء علی الناس ‘، (البقرہ : ١٤٣)

ترجمہ : اور اے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایاتا کہ تم لوگوں (انبیاء علیہم السلام) پر گواہ ہوجاؤ۔

اور یہ امت کی کتنی بڑی فضیلت ہے کہ وہ انبیاء (علیہم السلام) کے مقدمہ میں گواہ ہوگی۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنوا اسرائیل کے متعلق فرمایا :

(آیت) ” یبنی اسرآء یل اذکروا نعمتی “۔ (البقرہ : ٤٧)

ترجمہ : اے بنو اسرائیل ! میری نعمت کو یا دکرو۔

اور آپکی امت کے متعلق فرمایا :

(آیت) ” فاذکرونی “۔ (البقرہ : ١٥٢)

ترجمہ : تم میری ذات کو یاد کرو۔

بنواسرائیل کی رسائی صرف اللہ کی صفت انعام تک تھی اور آپ کی امت کی رسائی اللہ کی ذات تک ہے ‘ کیونکہ باقی امتوں کے نبیوں نے اللہ کی صفات کا مشاہدہ کیا اور آپ نے اللہ کی ذات کا مشاہدہ کیا ‘ وہ صرف صفات کے مظہر تھے آپ عین ذات کے مظہر ہیں ‘ اس لیے ان کی امتیں صفات کو یاد کرتی ہیں اور آپ کی امت ذات کو یاد کرتی ہے۔

امت کی وجہ سے آپ کے افضل الرسل ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ کی امت کی تعداد تمام امتوں کے مجموعہ سے بھی زیادہ ہے۔

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی کو اتنے معجزات دیئے گئے جن کی مثل پر ایک بشر ایمان لے آئے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام عطا فرمایا ہے اور مجھے امید ہے کہ میری امت قیامت کے دن ان سب سے زیادہ ہوگی۔ ١ (امام محمد اسماعیل بخاری (رح) متوفی ٢٥٦ ھ صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٧٤٤ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث کو امام مسلم۔ ٢ (امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ ‘ صحیح مسلم ج ١ ص ٨٦‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

اور امام بغوی۔ ٣ (امام حسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ ھ ‘ شرح السنۃ ج ٧ ص ‘ ٥ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ) نے بھی روایت کیا ہے۔

امام مسلم روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھ پر امتیں پیش کی گئیں ‘ میں نے ایک نبی کو دیکھا ان کے ساتھ ایک جماعت تھی ‘ ایک اور نبی کو دیکھا انکے ساتھ ایک اور دو آدمی تھے ‘ ایک اور نبی کو دیکھا ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا ‘ پھر میرے سامنے ایک عظیم جماعت بلند کی گئی ‘ میں نے گمان کیا یہ میری امت ہوگی ! مجھے بتایا کہ یہ حضرت موسیٰ کی امت ہے ‘ البتہ آپ آسمان کے کنارے پر دیکھیں میں دیکھا تو ایک بہت بڑی جماعت تھی ‘ پھر مجھ سے کہا گیا : آپ دوسرے کنارے کو دیکھیں تو وہاں بھی ایک بہت بڑی جماعت تھی ‘ مجھ سے کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور انکے ساتھ ستر ہزار ایسے لوگ ہیں جو جنت میں بغیر حساب اور عذاب کے داخل ہوں گے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان کے سوا کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا ‘ اے اللہ ! کیا میں نے تبلیغ کردی ہے ؟ اے اللہ ! تو گواہ ہوجا ‘ پھر فرمایا : کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تم نصف اہل جنت ہو ؟ تمہارے مقابلہ میں دوسری امتیں ایسی ہوں گی جیسے بیل میں ایک سیاہ بال ہو یا سیاہ بیل میں ایک سفید بال ہو۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ١١٧ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

اس حدیث میں ہے کہ آپ کی امت نصف اہل جنت میں ہوگی اور دوسری حدیث میں ہے اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی ‘ ان میں سے اسی صفیں آپ کی امت کی ہوں گی یعنی آپ کی امت کل اہل جنت کی دو تہائی ہوگی اور آپ کی امت کا کل نبیوں کی امتوں سے تعداد میں سب سے زیادہ ہونا اور مرتبہ میں سب سے افضل ہوں اس کی دلیل ہے کہ آپ تمام نبیوں اور رسولوں میں سب سے افضل ہیں۔

مقام محمود پر فائز ہونے کی وجہ سے آپ کا افضل الرسل ہونا۔

(آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا “۔۔ (الاسراء : ٧٩)

عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر جلوہ گرجائے گا۔۔

مقام سے مراد وہ مقام ہے جس مقام پر فائز ہونے والے کی تمام اولین اور آخرین حمد کریں گے ‘ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا ‘ اور آپ کی شفاعت کبری عطا کی جائے گی اور آپ تمام اہل محشر کی شفاعت کریں گے۔

امام ترمذی روایت کرتے ہیں۔

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اذان سننے کے بعد یہ کہا : اے اللہ ! اس دعوت تامہ اور اس کے بعد کھڑی ہونے والی نماز کے رب ! محمد کو وسیلہ (جنت میں ایک بلند مقام) اور فضیلت عطا فرما اور ان کو اس مقام محمود پر فائز پر فائز فرما جس کا تو نے وعدہ کیا ہے ‘ اس شخص کیلیے میری شفاعت واجب ہوجائے گی۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٥٨‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

اور امام مسلم نے روایت کیا ہے :

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم مؤذن سے اذان سنو تو اذان کے کلمات کی مثل کہو ‘ پھر مجھ پر درودپڑھو کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ‘ پھر میرے لیے وسیلہ کی دعا کرو ‘ وہ جنت میں ایک مقام ہے ‘ جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ کو ملے گا اور مجھے امید (بہ معنی یقین) ہے کہ وہ بندہ میں ہوں ‘ سو جس نے میرے لیے وسیلہ کی دعا کی اس کے حق میں میری شفاعت واجب ہوجائے گی۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ١٦٦‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

حافظ ابن عساکر روایت کرتے ہیں :

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ کو کلام عطا کیا اور مجھے دیدار عطا کیا اور مجھے مقام محمود اور حوض مورود (جس حوض پر لوگ وارد ہوں گے) کی فضیلت عطا کی۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢ ص ‘ ١٠٨‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق ‘ ١٤٠٤ ھ)

قرآن مجید اور ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مقام محمود صرف ہمارے نبی کریم سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہوگا ‘ نیز وسیلہ (جنت میں مقام بلند) بھی صرف آپ کو عطا ہوگا اور اس میں آپ کے افضل الرسل ہونے کی واضح دلیل ہے۔

اللہ کی رضا جوئی کی وجہ سے آپ کا افضل الرسل ہونا :

(آیت) ” قدنری تقلب وجھک فی السمآء فلنولینک قبلۃ ترضھا “۔ (البقرہ ١٤٤)

ترجمہ : بیشک ہم آپ کے رخ (انور) کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں ‘ سو ہم آپ کو ضرور اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں۔

(آیت) ” ومن انآیء الیل فسبح و اطراف النھار لعلک ترضی “۔۔ (طلہ : ١٣٠)

اور رات کے کچھ اوقات (مغرب اور عشاء) میں اس کی تسبیح کیجئے اور دن کے درمیان کناروں میں اس کی تسبیح کیجئے تاکہ آپ راضی ہوجائیں۔

(آیت) ” ولسوف ییطیک ربک فترضی۔ (الضحی : ٥)

ترجمہ : اور عنقریب آپ کا رب آپ کو ضرور اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔۔

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں صرف یہی جانتی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی خواہش پوری کرنے میں بہت جلدی فرماتا ہے۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٧٦٦ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٤٧٣‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

نیز امام مسلم روایت کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ وہ آیات تلاوت کیں جن میں حضرت ابراہیم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے شفاعت کرنے کا ذکر ہے ‘ پھر آپ نے ہاتھ بلند کیے اور روتے ہوئے فرمایا اے اللہ میری امت ! میری امت ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے جبرائیل ! محمد کے پاس جاؤ حالانکہ آپ کا رب خوب جانتا تھا (پھر بھی) فرمایا : ان سے پوچھو آپ کس وجہ سے رو رہے ہیں ؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آکر آپ سے پوچھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بتایا کہ آپ نے کیا کہا تھا ‘ حالانکہ اللہ خوب جانتا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے جبرائیل محمد کے پاس جاؤ اور کہو : بیشک ہم آپ کو آپ کی امت کے متعلق راضی کردیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہیں ہونے دیں گے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ١١٣ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

تمام انبیاء اور رسل اللہ کو راضی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمارے رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راضی کرتا ہے اور یہ آپ کے افضل الرسل ہونے کی واضح دلیل ہے۔

آپ کے ذکر کی رفعت کی وجہ سے آپ کا افضل الرسل ہونا :

(آیت) ” ورفعنالک ذکرک “۔۔ (الم نشرح : ٤)

اور ہم نے آپ کے لیے آپ کا ذکر بلند کردیا “۔۔

دنیا میں ہر وقت کسی نہ کسی جگہ پر سورج غروب ہو رہا ہے اور غروب آفتاب کے وقت مغرب کی اذان ہو رہی ہے ‘ اسی طرح ہر وقت کہیں نہ کہیں فجر ہورہی ہے اور جہاں طلوع فجر ہے وہاں فجر کی اذان ہو رہی ہے وعلی ہذا القیاس ‘ اور اذان میں جہاں اللہ کا نام بلند کیا جا رہا ہے وہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام بھی بلند کیا جارہا ہے ‘ خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر وقت کسی نہ کسی جگہ پر آپ کا نام بلند کیا جارہا ہے اور جس طرح کلمہ شہادت میں ‘ اذان میں ‘ اور تشہد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ آپ کا نام رکھا ہے ‘ انبیاء سابقین میں سے کسی کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں رکھا ‘ نیز اللہ تعالیٰ نے آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ‘ آپ کی بیعت کو اپنی بیعت قرار دیا : فرمایا :

(آیت) ” من یطع الرسول فقدا اطاع اللہ “۔ (النساء : ٨٧)

ترجمہ : جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

(آیت) ” ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ “۔ (الفتح : ١٠)

ترجمہ : بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔

نیز اللہ تعالیٰ نے آپ کی عزت کو اپنی عزت کے ساتھ مقرون کیا اور فرمایا : (آیت) ” وللہ العزۃ ولرسولہ “۔ (المنافقون : ٨)

(آیت) ” اللہ ورسولہ احق ان یرضوہ “۔ (التوبہ : ٦٢)

اور آپ کی اجابت کو اپنی اجابت کے ساتھ مقرون کیا اور فرمایا : (آیت) ” یایھا الذین امنوا استجیبوا للہ وللرسول “۔ (الانفال : ٤٢) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر کی بلندی کا اس سے اندازہ کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر عزت اور سربلندی کے مقام پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر کو اپنے ساتھ ذکر کیا ہے اور فرمایا :

(آیت) ” ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی “۔ (الاحزاب : ٥٦)

ترجمہ : اللہ تعالیٰ اور اس کے سارے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوۃ پڑھتے (رحمت بھیجتے) رہتے ہیں۔

گویا ازل سے لے کر ابد تک کوئی وقت نہیں گزرتا مگر اس وقت میں اللہ تعالیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوۃ پڑھتا رہا ہے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ پر یوم ولادت ‘ یوم وفات اور یوم بعثت میں صرف تین بار اللہ نے سلام نازل کرنے کا ذکر فرمایا اور نبی کریم پر زمان ومکان کی کسی قید کے بغیر اللہ تعالیٰ نے صلوۃ نازل کرنے کا ذکر فرمایا ‘ پھر وہاں سلام کا ذکر تھا یہاں صلوۃ کا ذکر ہے ‘ وہاں تین ایام کی قید ہے ‘ یہاں اعداد و شمال کا ذکر نہیں ہے ‘ نہ الوہیت کے عدم کا تصور ہے نہ آپ کے ذکر کے انقطاع کا تصور ہے۔ (آیت) ” ورفعنا لک ذکرک “۔

امام بیہقی روایت کرتے ہیں :

جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سدرۃ المنتہی پر پہنچے تو آپ نے اپنے رب سے کلام کیا ‘ آپ نے عرض کیا : تو نے ابراہیم کو خلیل بنایا اور ان کو ملک عظیم عطا کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا اور داؤد کو ملک عظیم عطا کیا اور ان کے لیے لوہے کو نرم کیا ‘ اور ان کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا اور سلیمان کو ملک عظیم عطا کیا اور ان کے لیے پہاڑ ‘ جن اور انسان مسخر کردیئے اور شیطانوں اور ہوا کو ان کے لیے مسخر کردیا ‘ اور ان کو ایسی سلطنت عطا کی جو انکے بعد اور کسی کو سزوار نہ ہوگی ‘ اور عیسیٰ کو تورات اور انجیل کا علم دیا ‘ اور ان کو یہ حکمت دی کہ وہ برص اور کوڑھ کے مریضوں کو تندرست کرتے تھے اور تیرے اذن سے مردوں کو زندہ کرتے تھے ‘ اور تو نے ان کو اور ان کی ماں کو شیاطین سے اپنی پناہ میں رکھا ‘ اللہ عزوجل نے فرمایا : میں نے آپ کو خلیل بنایا اور تورات میں لکھا ہوا ہے کہ وہ خلیل الرحمن ہیں ‘ اور آپ کو تمام لوگوں کے لیے بشیر اور نذیر بنایا اور آپ کے لیے شرح صدر کیا ‘ اور آپ سے مشکل احکام کا بوجھ دور کیا ‘ اور آپ کے ذکر کو بلند کیا ‘ اور جب بھی میرا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جاتا ہے اور آپ کی امت کو سب سے بہتر امت بنایا ‘ اور امت وسط بنایا ‘ اور آپ کی امت کو اول اور آخر بنایا ‘ اور آپ کی امتوں کے دل اناجیل کی کیفیت پر بنائے اور آپ کی امت جب بھی خطبہ پڑھتی ہے تو یہ شہادت دیتی ہے کہ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں ‘ اور آپ کو بہ اعتبار خلقت کے اول الانبیاء اور بہ لحاظ بعثت کے آخر الانبیاء بنایا اور آپ کو عرش کے خزانہ کے نیچے سے سورة فاتحہ دی گئی جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی اور آپ کو فاتح اور خاتم بنایا (دلائل النبوۃ ج ٢ ص ٤٠٣۔ ٤٠٢ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)

آپ کے ذکر کی رفعت سے متعلق قرآن مجید کی آیات اور اس حدیث میں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افضلالرسل ہونے کا واضح بیان ہے۔

د نیا میں اعلان مغفرت ہونے کی وجہ سے آپ کا افضل الرسل ہونا :

(آیت) ” انا فتحنالک فتحا مبینا ، A لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر ویتم نعمتہ علیک ویھدیک صراط مستقیما۔ وینصرک اللہ نصرا عزیزا۔ (الفتح : ٣۔ ١)

ترجمہ : بیشک ہم نے آپ کو روشن فتح عطا فرمائی۔ تاکہ اللہ آپ کے لیے اگلے اور پچھلے (بہ ظاہر) خلاف اولی سب کام معاف فرما دے اور آپ پر اپنی نعمت پوری کر دے اور آپ کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے۔ اور اللہ آپ کو غالب نصرت عطا فرمائے۔

امام ترمذی رویت کرتے ہیں :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حدیبیہ سے لوٹتے وقت یہ آیت نازل ہوئی :

(آیت) ” لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر “۔ ١ (ذنب کا معنی ہے : جرم اور اثم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال پر ذنب کا اطلاق مجازا ہے کیونکہ آپ معصوم ہیں اور معصوم کا ذنب نہیں ہوتا اس لیے یہاں ذنب سے مراد ہے : بہ ظاہر خلاف اولی کام، اب سوال یہ ہے کہ جب آپ کے گناہ نہیں ہیں تو مغفرت ذنوب کا کیا معنی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب معصوم کے ساتھ مغفرت کا تعلق ہوتا ہے ‘ تو اس سے مراد ہوتا ہے درجات کا بلند کرنا اور اپنی رحمت سے نوازنا۔ منہ)

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے تمام روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے ‘ پھر آپ نے اس آیت کو صحابہ کرام (رض) کے سامنے پڑھا ‘ صحابہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو مبارک ہو ‘ اللہ تعالیٰ نے بیان کردیا کہ آپ کے ساتھ قیامت کے دن کیا کیا جائے گا ‘ لیکن ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ تب یہ آیت نازل ہوئی : اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ان جنات میں داخل کرے گا جن کے نیچے دریا بہتے ہیں۔ آپ نے یہ آیت ” فوزا عظیما “ تک تلاوت فرمائی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٤٦٩ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

اس حدیث کو امام بخاری۔ ١ (امام محمد اسماعیل بخاری (رح) متوفی ٢٥٦ ھ صحیح بخاری ج ٢ ص ٧١٩۔ ٦٠٠‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اور امام مسلم۔ ٢ (امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ ‘ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٠٦‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ) نے بھی روایت کیا ہے ؛

امام بخاری نے حضرت انس (رض) سے ایک طویل حدیث روایت کی۔

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو جمع فرمائے گا ‘ لوگ کہیں گے : کاش ! ہم اپنے رب کے حضور شفاعت طلب کرتے ہیں حتی کہ اللہ تعالیٰ اس جگہ ہم کو راحت عطا فرماتا ‘ پھر وہ حضرت آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی (پسندیدہ) روح پھونکی اور فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا ‘ آپ ہمارے رب کے حضور ہماری شفاعت کیجئے ‘ حضرت آدم فرمائیں گے : میں تمہارا کام نہیں کرسکتا ‘ اور اپنی (اجتہادی) خطاء یاد کریں گے ‘ تم نوح کے پاس جاؤ (اخیر حدیث تک) پھر لوگ حضرت عیسیٰ کے پاس جائیں گے ‘ وہ کہیں گے کہ میں تمہارا کام نہیں کرسکتا ‘ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ ‘ ان کے اگلے اور پچھلے ذنب (یعنی بہ ظاہر خلاف اولی کاموں) کی مغفرت کردی گئی ہے۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٩٧١‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک طویل روایت میں ذکر کیا ہے کہ جب لوگ حضرت عیسیٰ کے پاس جائیں گے تو وہ فرمائیں گے :

میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ پھر لوگ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے : اے محمد ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور تمام انبیاء کے خاتم ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے ذنب (یعنی خلاف اولی کاموں) کو بخش دیا ہے ‘ اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجئے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ١١١ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (جامع ترمذی ص ٣٥١ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

حافظ سیوطی بیان کرتے ہیں :

امام بزار نے سند جید کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے انبیاء (سابقین) پر چھ وجوہ سے فضیلت دی گئی ہے ‘ مجھ سے پہلے کسی کو وہ فضیلتیں نہیں دی گئیں میرے اگلے اور پچھلے ذنب (یعنی خلاف اولی کاموں) کی مغفرت کردی گئی ‘ میرے لیے غنیمتوں کو حلال کردیا گیا ‘ میری امت کو سب سے بہتر امت قرار دیا گیا ‘ تمام روئے زمین کو میرے لیے مسجد بنادیا گیا اور اس سے تیمم کو جائز کردیا گیا مجھے کوثر عطا کی گئی اور میری رعب سے مدد کی گئی، اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! تمہارے نبی کے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اور آدم اور ان کے ماسوا سب قیامت کے دن اس جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔ (خصائص کبری ج ٢ ص ١٩٢‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ فیصل آباد )

حافظ الہیثمی نے اس حدیث کو ” کشف الاستار “ ١ (حافظ نورالدین علی بن ابی بکر الہیثمی المتوفی ٨٠٧ ھ ‘ کشف الاستار ج ٣ ص ‘ ١٤٧ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ ‘ بیروت ‘ ١٤٠٤) میں امام بزار کی سند سے روایت کیا ہے اور ” مجمع الزوائد “۔ ٢ (حافظ نورالدین علی بن ابی بکر الہیثمی المتوفی ٨٠٧ ھ ‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ‘ ٢٦٩‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢) میں ان کے حوالہ سے درج کیا ہے اور لکھا ہے کہ امام بزار کی سند جید ہے۔

امام بیہقی روایت کرتے ہیں :

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر مجھے السدرۃ المنتہی کی بلندی پرلے جایا گیا ‘ اس کا ہر پتا اتنا بڑا تھا کہ وہ اس امت کو چھپا لیتا ‘ اس کے نیچے سے ایک چشمہ جاری تھا جس کا نام سلسبیل تھا اور اس سے دو دریا نکلے تھے ‘ ایک کوثر اور ایک رحمت میں نے اس میں غسل کیا ‘ پھر میرے اگلے اور پچھلے ذنب کی مغفرت کردی گئی۔ (دلائل النبوۃ ج ٢ ص ٢٩٤ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)

حافظ ابن عساکر روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے کچھ چیزیں دی گئی ہیں جن کا میں فخر سے ذکر نہیں کرتا ‘ وہ مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں میرے اگلے اور پچھلے ذنب کی مغفرت کردی گئی ہے اور میری امت کو سب امتوں سے بہتر بنایا گیا ہے ‘ اور میرے لیے مال غنیمت حلال کردیا گیا اور مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں کیا گیا اور میرے لیے تمام روئے زمین کو مسجد اور آلہ طہارت بنادیا اور مجھے کوثر دی گئی اور میری رعب سے مدد کی گئی اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! بیشک تمہارے پیغمبر ہی قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والے ہوں گے۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢ ص ‘ ١٣٥ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق ‘ ١٤٠٤ ھ)

حضرت حذیفہ بن یمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے غائب ہوگئے اور باہر نہیں آئے حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ تشریف نہیں لائیں گے پھر آپ باہر آئے اور آپ نے اتنا طویل سجدہ کیا کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ کی روح قبض ہوگئی پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھا کر فرمایا : میرے رب نے مجھ سے میری امت کے متعلق مشورہ کیا کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں ؟ میں نے کہا : اے میرے رب ! جو تو چاہے ‘ وہ تیری مخلوق اور تیرے بندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ مشورہ کیا ‘ میں نے پھر یہی کہا ‘ اس نے پھر مشورہ کیا ‘ میں نے پھر اسی طرح کہا پھر اللہ نے فرمایا : اے محمد ! میں نے آپ کی امت میں سزا نہیں رکھی اور مجھے یہ بشارت دی کہ میری امت سے ستر ہزار کا ایک گروہ پہلے جنت میں داخل ہوگا اور ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے ‘ اس سے حساب نہیں ہوگا ‘ پھر اللہ نے میری طرف پیغام بھیجا : آپ دعا کریں قبول ہوگی۔ آپ سوال کریں آپ کو دیا جائے گا۔ میں نے اللہ کے سفیر سے کہا : کیا اللہ میرے سوال کو عطا کرے گا ؟ اس نے کہا : اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کرنے کے لیے ہی تو بھیجا ہے ‘ اور میں بغیر فخر کے کہتا ہوں کہ اللہ نے مجھے یہ چیزیں عطا کی ہیں : میرے اگلے اور پچھلے ذنب کی مغفرت کردی اور میرا سینہ کھول دیا اور مجھے یہ نعمت دی کہ میری امت بھوکی نہیں رہے گی اور نہ مغلوب ہوگی ‘ اور مجھے جنت میں ایک نہر کوثر عطا کی جو میرے حوض میں بہ رہی ہے ‘ اور مجھے عزت اور نصرت عطا کی ‘ اور ایک ماہ کی مسافت سے میرا رعب طاری رہتا ہے اور مجھے یہ نعمت دی کہ میں انبیاء میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گا ‘ اور میرے اور میری امت کے لیے غنیمت کو حلال کردیا ‘ اور ہم سے پہلی امتوں پر جن بہت سی چیزوں میں سختی کی گئی تھی وہ ہم پر حلال کردیں اور ہم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی اور میں نے (ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیے) اس سجدہ کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں پایا۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢ ص ‘ ١٣٦۔ ١٣٥ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق ‘ ١٤٠٤ ھ)

حافظ ابن کثیر نے سورة فتح کی اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :

یہ آیت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان خصائص میں سے ہے جن میں کوئی اور آپ کا شریک نہیں ہے ‘ آپ کے علاوہ اور کسی شخص کے لیے کسی حدیث صحیح میں یہ نہیں ہے کہ اس کی اگلی اور پچھلی (ظاہری) خطاؤں کی مغفرت کردی گئی ہو اور اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہایت تعظیم اور تشریف ہے اور اطاعت ‘ نیکی اور پارسائی میں اولین اور آخرین میں سے کسی نے آپ کے مقام کو نہیں پایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا اور آخرت میں علی الاطلاق اکمل البشر اور سید البشر ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٦ ص ‘ ٣٢٩ مطبوعہ ادارہ اندلس ‘ بیروت ‘ ١٣٨٥ ھ)

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مغفرت کی نسبت کے محامل :

شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں :

علامہ سبکی نے اس آیت کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ ہرچند کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کے شرف اور مرتبہ کو ظاہر کرنے کے لیے یہ فرمایا : ہم نے آپ کے اگلے اور پچھلے ذنب بخش دیئے کیونکہ بادشاہوں کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ اپنے خواص اور مقربین کو نوازنے کے لیے کہتے ہیں کہ ہم نے تمہارے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دیئے اور تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا حالانکہ بادشاہ کو علم ہوتا ہے کہ اس شخص نے کوئی گناہ نہیں کیا ‘ نہ آئندہ کرے گا لیکن اس کلام سے اس شخص کی تعظیم اور تشریف کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔

بعض محققین نے یہ کہا کہ (آیت) ” لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر “ کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی اگلی اور پچھلی زندگی میں گناہوں سے پچائے رکھے گا اور آپ کو عصمت پر قائم رکھے گا اس آیت میں مغفرت ‘ عصمت سے کنایہ ہے اور قرآن مجید میں بعض مقامات پر مغفرت سے عصمت کا کنایہ کیا گیا ہے

شیخ عزالدین بن عبدالسلام نے کتاب ” نہایہ السؤل فیما سخ من تفضیل الرسول “ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام انبیاء (علیہم السلام) پر فضیلت دی ہے ‘ پھر انہوں نے فضیلت کی وہ وجوہات ذکر کی ہیں اور ان فضیلت کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام ذنوب (یعنی بظاہر خلاف اولی کاموں) کو بخش دیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ انبیاء سابقین میں سے اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کی مغفرت کی خبر نہیں دی ‘ یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن جب دیگر انبیاء (علیہم السلام) سے شفاعت طلب کی جائے گی تو سب نفسی نفسی کہیں گے اور ہیبت الہی سے شفاعت نہیں کریں گے اور جب رسول اللہ سے لوگ شفاعت طلب کریں گے تو آپ فرمائیں گے : یہ میرا کام ہے ‘ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کے لیے فتح مبین کو ثابت کیا ‘ پھر مغفرت ذنوب کا ذکر کیا ‘ پھر اپنی نعمت پوری کرنے اور صراط مستقیم کی ہدایت پر ثابت رکھنے اور نصر عزیر کا ذکر کیا جس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ اس آیت سے مقصود گناہوں کا ثابت کرنا نہیں بلکہ گناہوں کی نفی کرنا ہے۔

ابن عطاء (رح) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے متعدد نعمتوں کو جمع کردیا ہے ‘ فتح مبین عطا فرمائی جو اجابت کی علامت ہے ‘ مغفرت عطا فرمائی جو محبت کی علامت ہے ‘ اتمام نعمت سے سرفراز کیا جو آپ کے اختصاص کی نشانی ہے اور ہدایت عطا فرمائی جو ولایت کی علامت ہے ‘ پس مغفرت سے مراد تمام عیوب اور نقائص سے آپ کی تنزیہہ ہے اور اتمام نعمت سے مراد آپ کو درجہ کاملہ پر پہنچانا ہے اور ہدایت سے مراد آپ کو مشاہدہ ذات وصفات کے اس مرتبہ پر پہنچانا ہے ‘ جس سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں۔ (مدارج النبوۃ ج ١ ص ٧٣۔ ٧٢‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ سکھر)

قاضی عیاض مالکی لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے سورة فتح میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و توقیر کا جو بیان فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو حضور کا مرتبہ اور مقام ہے اس کا ذکر کیا ہے اس کی ابتداء اللہ تعالیٰ نے دشمنوں پر حضور کے غلبہ اور آپ کی شریعت کی سربلندی کی خبر دینے سے کی ہے اور یہ بیان فرمایا ہے کہ آپ مغفور ہیں اور ماضی اور مستقبل کی کسی چیز پر آپ سے مواخذہ نہیں ہوگا ‘ بعض علماء نے کہا : اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا کہ آپ سے کوئی چیز ہوئی ہے یا نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اس کی مغفرت کردی ہے۔ (شفاء ج ١ ص ٣١‘ مطبوعہ عبدالتواب اکیڈمی ‘ ملتان)

علامہ شہاب الدین خفاجی لکھتے ہیں :

علامہ تجانی نے کہا ہے کہ یہ آیت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و توقیر بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے جیسے کوئی شخص کسی سے اظہار محبت کے لیے کہے : اگر تمہارا کوئی پہلا یا پچھلا گناہ ہو بھی تو ہم نے اس کو معاف کردیا ‘ اس کلام سے اس شخص کا یہ ارادہ نہیں ہوتا کہ اس نے فی الواقع کوئی گناہ کیا ہے اور وہ اس کو معاف کر رہا ہے اور میں کہتا ہوں کہ ذنب کا معنی ستر ہے جو نہ دکھائی دینے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کو لازم ہے عدم ذنب یعنی جب گناہ ہے ہی نہیں تو کیسے دکھائی دے گا ‘ کیونکہ اگر گناہ ہوتا تو دیکھائی دیتا اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقدم اور مؤخر دونوں کا ذکر کیا ہے حالانکہ مؤخر کا وجود ہی نہیں ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ آپ کا گناہ مقدم ہے نہ مؤخر ‘ سو آپ سے مطلقا گناہ سرزد نہیں ہوا۔ (نسیم الریاض ج ١ ص ٢٧٣‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت)

ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

زیادہ ظاہر یہ ہے کہ اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ ہرچند کہ بندہ اپنے مقسوم کے مطابق اعلی مرتبہ پر پہنچ جائے پھر بھی وہ اللہ کی مغفرت سے مستغنی نہیں ہوتاکیون کہ بندہ اپنے بشری عوارض کی بناء پر تقاضائے ربوبیت کے مطابق عبادت کا حق ادا کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مباح امور میں مشغول ہونے کی وجہ سے یا امت کے اہم کاموں میں منہمک اور مستغرق ہونے کی وجہ سے جو حضرت الوہیت میں غفلت واقع ہوتی ہے ‘ حضرات انبیاء (علیہم السلام) اپنے بلند مقام کے اعتبار سے اس کو بھی سیۂ اور گناہ خیال کرتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ابرار کی نیکیاں بھی مقربین کے نزدیک گناہ ہوتی ہیں۔ (شرح الشفاء علی ھامش نسیم الریاض ج ١ ص ٢٧٣‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت)

بقیہ تفسیر اس آیت کی اگلے کلام میں

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 253